جائیں تو جائیں کہاں۔ بہت سے پاکستانی ملک چھوڑ کر باہر کسی جگہ مسکن بنا چکے ہیں۔اور بہت سے ہیں جنہیں موقع ملے تو باہر چلے جائیں۔ ہمارے جیسے البتہ جنہوں نے عمر یہاں گزار دی ہے کہاں جائیں؟ یہیں رہنا ہے اور یہ دیکھ کے دکھ ہوتا ہے کہ روز بروز بہتری کے بجائے ملک کے حالات خراب ہو رہے ہیں۔
کل ایک انگریزی معاصر کے صفحۂ اول پر پاکستان کی معاشی حالت پر ایک رپورٹ تھی۔ متن رپورٹ کا یہ تھا کہ اسحاق ڈار صاحب کا دورۂ ٔواشنگٹن بے سود رہا ہے‘ وہاں سے کچھ نہیں ملا۔ اب چین جانے کی سوچ رہے ہیں تاکہ چین کا قرضہ کسی نہ کسی طریقے سے ری شیڈول ہو سکے۔ رپورٹ پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ایک تو کہیں سے پیسہ نہیں مل رہا اور دوسرا یہ کہ گروی رکھنے کیلئے چیز بھی اب کوئی باقی نہیں رہی۔بہت سے المیے پاکستان نے دیکھے ہیں‘ ملک بھی دولخت ہو گیا‘ لیکن زندگی بھر کبھی نہ سوچا تھا کہ ایسے حالات جو کہ آج کل ہیں کبھی ہو سکتے ہیں۔قسمت خراب تھی یا نالائقوں نے ہمیں لے ڈبویا؟
اوپر سے یہ ایک نئی روش چل پڑی ہے کہ کسی کی بات پسند نہ آئے تو اُسے سبق سکھا دیا جائے۔ شہباز گل کے ساتھ یہ ہوا پھر اعظم سواتی کے ساتھ جو کہ سینیٹر ہیں۔ پھر صالح محمد جو کہ کے پی سے ایم این اے ہیں‘کو اسلام آباد کے ایک تھانے لے جایا گیا جہاں اُن کے گلے میں ایک تختی لٹکائی گئی جس پر اُن کا نام درج تھا۔پھر اس فوٹو کی تشہیر کی گئی۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ ایسے واقعات سے انسان کی اتنی بے عزتی نہیں ہوتی جتنی کہ معاشرے کی بے توقیری ہوتی ہے۔ایسی بربریت سرکاری طور پر روا رکھی جائے توباہر کے لوگ سوچیں گے نہیں کہ یہ کیسا ملک ہے‘ یہاں کون سا نظام اور قانون چلتا ہے؟ گمشدہ لوگو ںکا باقاعدہ مسئلہ ہے‘ لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ نہ مقدمہ نہ کسی عدالت کے سامنے پیشی۔ پھر کبھی پتا چلتا ہے کہ فلاں فلاں مقام پر دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ منظور پشتین کے خلاف پہلے بھی مقدمات درج ہیں‘ ایک اور درج کرلیا گیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘ جو ایک دو روز پہلے لاہور میں منعقدہوئی‘ میں منظور پشتین نے تقریر کی جسے قابلِ اعتراض سمجھا جا رہا ہے۔ تقریر میں گمشدہ لوگوں کا مسئلہ اُنہوں نے اٹھایا اور اس مسئلے کا ذکر جب بھی ہوتا ہے ہمارے طاقتور حلقوں کو ناگوار گزرتا ہے۔بہرحال سوال وہی ہے کہ یہ کوئی طریقہ ہے کسی ملک کو چلانے کا ؟
اپنی تاریخ میں پتا نہیں کتنے موقع ہم نے گنوا دیے۔ ذوالفقار علی بھٹو آئے تو ہم جیسے واقعی سمجھتے تھے کہ ملک ایک نئی ڈگر پہ چلنے لگے گا۔ بھٹو صاحب کے کارنامے بھی بہت تھے‘ ان سے انکار ممکن نہیں‘ لیکن اُن کی طرز ِ حکمرانی میں ایک بے جا سختی بھی تھی۔ تنقید برداشت نہ کرسکتے تھے‘ پریس پر مختلف قدغنیں لگا رکھی تھیں۔ مخالفین کے ساتھ رویہ اُن کا اچھا نہ تھا۔ اوپر سے بلوچ سرداروں سے خواہ مخواہ کی لڑائی اُنہوں نے چھیڑ دی جس کی پاداش میں بلوچستان میں فوجی ایکشن شروع ہو گیا۔ اس گھٹن کی فضا میں بھٹو صاحب کے مخالفین نے بھی سخت رویہ اپنا لیااور جب 1977ء کے انتخابات کے بعد احتجاج کی صورت پیدا ہو ئی تو بھٹو صاحب کے مخالفین بس یہی چاہتے تھے کہ بھٹو سے چھٹکارا ملے چاہے اس کے بدلے اقتدار پر فوج کا قبضہ ہو جائے۔ یہی ہوا اور پھر ملک و قوم کو جنرل ضیاء الحق کا ساڑھے گیارہ سالہ اقتدار بھگتنا پڑا۔ اخلاقیا ت کا چورن ضیاء الحق نے قوم کو اتنا بیچا کہ آج تک وہ ہضم نہیں ہوسکا۔
بے نظیر بھٹو آئیں تو ہم جیسے سمجھے کہ ایک نئی صبح کا آغاز ہوگا۔ مسئلہ تب یہ تھا کہ اقتدار تقسیم ہوگیا‘ اوپر بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور نیچے پنجاب کے چیف منسٹر نوازشریف تھے۔ نوازشریف کے پیچھے وہ بندوبست جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں۔ ان دونوں کی سیاسی لڑائی ہوتی رہی لیکن ساتھ ہی اپنے اپنے طریقے سے دونوں فریقوں نے دولت کمانے کی دوڑ لگا دی۔اس دوڑ کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی قیادت کھرب پتی ہو گئی اور نون لیگ کی قیادت نے بھی ایک بڑی کمرشل ایمپائر کھڑی کردی۔ ملک کا ستیاناس ہو گیا۔ دونوں پارٹیاں اقتدار میں باریاں لگاتی رہیں اور ملک کا کچھ نہ بنا۔ بیچ میں پرویز مشرف کا دور آیا جس میں ہمارے بہت سے مڈل کلاسیے اور پروفیشنل سمجھ بیٹھے تھے کہ مشرف صاحب قوم کی سمت درست کر یں گے۔ جنرل صاحب کا اقتدار ساڑھے آٹھ سال رہا اور ملک نے مانگے تانگے پر ہی گزارا کیا۔ اُن کے جانے کے بعد جمہوری دور پھر سے شروع ہو گیا جس کی نمایاں خصوصیت وہی پرانی لوٹ مارتھی۔
پے در پے تجربات کرنے کے بعد مقتدرہ بھی کچھ تھک چکی تھی۔ اب ایک نیا تجربہ شروع ہوا جس میں یہ تصور کیا گیاکہ قوم کی تقدیر عمران خان بدلیں گے۔عمران خان کو بڑی امیدوں کے ساتھ اقتدار میں لایا گیا لیکن فوراً ہی یہ ظاہر ہونے لگا کہ حکمرانی کیلئے اُن کی تیاری کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ون پیج کی گردان ہم تب سنتے تھے کہ مقتدر قوتیں ان کے ساتھ ہیں۔ حکومت تو چلی لیکن حکمرانی اتنی مثالی نہ تھی۔ پھر چھوٹے موٹے مسئلوں پر مقتدر قوتوں سے تعلقات خراب ہوئے اور جو پہلے تجربات کرتے آئے تھے اُنہوں نے سوچا کہ ایک اور تجربہ کرنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔نئے لوگ تو رہے نہیں تھے اس لئے پرانی الماریوں سے ہی کچھ کریکٹر ایکٹر نکال لیے گئے اور یوں ہمیں وہ رنگساز حکومت بخشی گئی جس کے مزے قوم اب لے رہی ہے۔
گو عمران خان حکومت کرنے میں اتنے لائق نہ تھے لیکن نکالے جانے کے بعد وہ دلیر نکلے۔ مقتدر قوتوں سے وہ دبے نہیں بلکہ اُنہیں للکارنے لگے اور یہی خوبی ہے جو ہم جیسوں کو اچھی لگی۔ یہاں لائق حکمران کہاں سے آنے ہیں؟ ہم بہت آزما چکے لائق حکمران نظر نہیں آئے۔ پھر یہی کہتے ہیں کہ جہاں ہر طرف اِتنی گہری نالائقی ہے کم از کم کہیں کوئی دلیری تو نظر آئی۔ جس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ پھر سے حکمرانی ملی تو عمران خان کو لیاقت بھی مل جائے گی۔لیکن بات تو اب کی ہو رہی ہے۔ جو حکومت میں ہیں چلے ہوئے کارتوس ہیں‘ان سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ امید تو خان صاحب سے بھی اتنی زیادہ نہیں کیونکہ ان کی امریکی سازش اورحقیقی آزادی والی کہانی من کو زیادہ نہیں بھاتی۔ پھر بھی دبنگ تو نکلے ہیں اور جہاں اتنی اندھیرنگری اور سینہ زوری ہو وہاں کوئی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرے تو اچھا لگتا ہے۔
بطورِ قوم حال ہمارا اچھا نہیں۔ رونا آتا ہے کہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا۔ مایوسی البتہ کسی اور وجہ سے ہے۔ اندھیرے سے مایوسی نہیں ہوتی کیونکہ یہ یقین ہوتا ہے کہ اندھیرے کے بعد اجالا ہوگا۔ یہاں پہ کوئی یقین نہیں ہے کہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ آگے کیا ہونا ہے۔ نوازشریف کا تجربہ ہوا‘ ناکام ہو گیا۔ عمران خان کا تجربہ ہوا‘ وہ بھی ناکام ہوا۔ موجودہ رنگسازوں کے تجربے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اب کیا ؟ شہباز گل‘ اعظم سواتی اور صالح محمد کو عبرت کا سبق سکھا دیا۔ کیا یوں پاکستان کے مسائل حل ہو جائیں گے؟