پاکستان فلاں چیز کا قلعہ ہے۔ یہ ہم کب سے سنتے آئے ہیں۔پاکستان کسی خاص مقصدکیلئے بنا تھا‘ یہ بھی ہم سنتے آئے ہیں اور اس سننے میں یہ ذکر بھی رہا ہے کہ پاکستان کے بننے میں آسمانوں کا بھی حصہ ہے۔ کائنات اتنی وسیع ہے کہ انسانی عقل اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔میری خو ش قسمتی کہ ایک دفعہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کا لاہور میں ایک لیکچر سنا جس میں اُنہوں نے کہا کہ ہماری گلیکسی‘ جوکہ مِلکی وے ہے‘ میں ایک بلین سے زیادہ ستارے ہیں اور زمین سے نزدیک ترین ستارہ اتنا دور ہے کہ آج کل کے خلائی جہازوں کو اُن کی موجودہ رفتار پر اَسی ہزار سال لگیں وہاں پہنچنے کیلئے۔ مزید اُنہوں نے کہا کہ کائنات میں گلیکسیز ایک بلین سے زیادہ ہیں۔اب تو کہا جاتا ہے کہ بلین کا پیمانہ درست نہیں‘ ستارے اس گلیکسی میں بلین کی گنتی سے زیادہ ہیں اور کائنات میں گلیکسیز کی گنتی بھی پتا نہیں کتنے بلین سے زیادہ ہے۔پاکستان کے بارے میں جو ہمارے پسندیدہ افسانے ہیں اُن کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ساری کائنات کو ایک طرف رکھ کر آسمانوں نے پاکستان کے بننے پر خصوصی توجہ فرمائی۔
میں کسی مبالغے کا مرتکب نہیں‘ پچھتر سال ہم ایسی باتیں ہی کرتے رہے ہیں۔پھر جب آج کل کے حالات نظروں کے سامنے آتے ہیں لامحالہ خیال اٹھتا ہے کہ اتنی خصوصی توجہ اس منفرد قوم پر صرف کی گئی اور پھر بھی کچھ بات نہ بنی۔ظاہر ہے آسمانوں پر تو انگلی اٹھائی نہیں جاسکتی‘ناقص شاید ہمارے افسانے ہی تھے۔لیکن یہ بھی یاد رہے کہ بڑے بڑے جید عالم‘ سنجیدہ حضرات‘ جنہیں ہم بڑا سمجھتے آئے ہیں‘ وہ ایسے افسانے بیان کرتے رہے ہیں۔اور اُن کی باتیں اتنی پُراثر ہوا کرتی تھیں کہ قوم اُن پر یقین لے آتی رہی ہے۔ ہم جیسے تو ناقص عقل کے مالک ہیں۔ آج تک ہمیں کئی چیزیں سمجھ نہیں آئیں۔بہت سارے محرکات ہمیں سمجھ نہیں آتے۔سچ پوچھئے تو یہاں تاریخ کے مطالعے پر پابندی عائد ہونی چاہئے کیونکہ جتنی تاریخ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اُتنے کنفیوز ہو جاتے ہیں۔کھل کر بات کرنی یہاں دشوار ہے‘ سو نہیں کرتے۔افسانوں پر اتنا اعتراض نہیں‘ قومیں ایسے افسانے گھڑتی آئی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس مشق کو ہم نے کچھ زیادہ ہی طوالت دے دی‘ اور پھر یوں بھی ہوا کہ افسانوں پر ہی ہم گزارا کرتے رہے۔
نئے ملک کو تعمیر و ترقی کی ضرورت تھی۔ زبانیں مختلف تھیں‘ ثقافتیں مختلف تھیں‘ طورطریقے مختلف تھے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان مختلف اجزا کو ایک قومی سوچ میں ڈھالا جائے۔ لیکن شروع دن سے ہمارے اکابرین نے یہ تسلیم کرنا گوارا نہ کیا کہ یہاں مختلف زبانیں اور ثقافتیں ہیں۔نعرہ تو یہ تھا کہ ہم مخصوص نظریات کا قلعہ ہیں۔ جب ساری دلیل کی بنیاد یہ ہو تو پھر زبان اور ثقافت کی بنیاد پر فرق اور اُس فرق کا اظہارممنوع سمجھا جانے لگتا ہے۔ یعنی آپ نے کسی فرق کی بات کی توآپ پر تہمت لگ گئی کہ آپ پاکستان کے نظریے کے خلاف بات کر رہے ہیں۔بنگالیوں نے اپنی زبان کی بات کی‘ اُنہیں برا سمجھا گیا۔ 1954ء میں صوبہ بنگال میں انتخابات ہوئے جس میں بنگالی سیاسی پارٹیوں پر مشتمل جگتو فرنٹ الیکشن جیت گیا۔ کچھ عرصے بعد اُس حکومت کو برخاست کر دیا گیا اور یہاں سے ایک سپر بیوروکریٹ عزیز احمد صاحب کوبنگال کا والی وارث بنا دیا گیا۔
غفار خان ایک جینوئن لیڈر تھے۔قوم پرست تھے‘ انگریزوں کے مخالف تھے۔اُنہوں نے علم بغاو ت تب بلند کیا جب مسلمانوں میں بہت کم لوگ ایسا کرتے تھے۔یہ اور بات ہے کہ تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔یہ اُن کی اپنی رائے تھی لیکن جب پاکستان معرضِ وجو دمیں آیا تو غفارخان پر غداری کا لیبل چسپاں کر دیا گیا۔ بلوچستان میں عبدالصمد اچکزئی قوم پرست خیالات کے حامل تھے۔ہمارے مقتدرہ کے لوگ ہمیشہ اُن کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔کہنے کا مطلب یہ کہ شروع دن سے ہی ہماری ریاست ایک عدمِ تحفظ کا شکار رہی۔ہرطرف دشمن نظر آئے‘ غدار نظر آئے۔ ٹھیک کون تھے ؟وہی بیورو کریٹ غلام محمد اور اسکندر مرزا کی طرح یا اداروں کے سربراہ جنرل ایوب خان کی طرح جنہوں نے اقتدار کو اپنے گرفت میں لیااور ایک عجیب سی تنگ نظری پاکستان کی اجتماعی سو چ پر مسلط کردی۔
گفتگو میں کئی دفعہ ہم مولوی صاحبان اور اس قسم کے لوگوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ہیت اور اُس کی سمت مولویوں نے متعین نہیں کی۔ہاں‘ وہ نعرے بلند کرتے تھے‘ اسلامی ریاست کی بات کرتے تھے‘ لیکن پالیسیوں کا تعین مقتدرہ اور بڑے بیوروکریٹوں نے ہمیشہ کیا۔ کسی کو دم چھلا کہنا تو غلط ہے‘ یہ بھی شاید دانشمندی نہ ہو کہ کہیں کہ فلاں فلاں طبقات مقتدرہ کی ڈگڈگی پر ناچتے رہے‘ لیکن بات واضح ہے‘ پالیسیاں مرتب کرنے والے اور تھے‘ پیچھے نعرے لگانے والے بیچارے عوام میں سے تھے۔بیچارگی کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ عوام کے حصے میں نعرے لگانا ہی آیا۔ عوام کو کبھی اس چیز کے پیچھے لگادیا کبھی کسی اور چیز کے پیچھے۔
ہم جیسوں میں یہ خیال تو تھاکہ یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا‘ بطورِقوم غلط راہیں ہم نے چنی ہیں‘ اور قومی توانائیاں بیکار کی چیزوں پر صرف ہو رہی ہیں‘ لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ اس قسم کا بحران جو ملک کو درپیش ہے اتنی جلدی ہمارے سر ہوگا۔یہ بحران صرف یہ نہیں بتا رہا کہ ہم معاشی دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ہمیں یہ بھی بتا رہا ہے کہ ہم ذہنی دیوالیہ پن کے شکار ہیں۔صرف معاشی پالیسیوں کی ناکامی ہم نہیں دیکھ رہے‘جو افسانے ہم نے گھڑے اُن کا فضول پن بھی ہم پر آشکار ہو رہا ہے۔کہاں گئے وہ قلعے‘ کہاں وہ خاص مقاصد جن کی بنا پر یہ سب کچھ بنا؟مہنگائی اور معاشی بحران نے ہمارے دماغ کسی حد تک درست کر دیے ہیں‘ گو ہمارا عارضۂ دماغ اتنا گمبھیر ہے کہ جلد ٹھیک ہونے والا نہیں۔ ہم اب بھی معجزوں کے انتظار میں ہیں کہ کہیں سے کوئی چیز ٹپکے گی جس سے ہماری مشکلات آسان ہو جائیں گی۔
قومیں ویسے نہیں بنتیں‘ کوئی سوچ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر قوموں کو کھڑا کیا جاتا ہے‘ معمار ہوتے ہیں جو قوموں کو بناتے ہیں۔ یہاں کون تھے ؟ قائداعظم کی ذات کو تو ایک طرف رکھئے‘ اُن کی با ت تو ویسے نہ مانی گئی۔ جو اپنی 11اگست 1947ء کی تقریر میں اُنہوں نے کہا کیا بطورِ قوم ہم اُس پر عمل پیرا ہوئے؟جب اُنہوں نے کہا کہ اپنے مندروں میں جاؤ‘ مسجدوں میں جاؤ‘ ریاست کے نظام اور کاروبار کا تعلق اِن چیزوں سے نہیں‘ کیا ہمارے اکابرین نے اس نصیحت و تلقین پر کان دھرے؟بانیانِ پاکستان کے علاوہ جو یہاں اقتدار میں آئے وہ سارے کے سارے انگریزوں کے پروردہ اور پسندیدہ لوگ تھے۔ بیوروکریٹوں اور بڑے عہدیدار ان کا سیاست سے کیا تعلق؟ اُنہوں نے کس جدوجہد میں حصہ ڈالا تھا؟ پنجاب میں تو ویسے ہی جاگیرداروں کا راج تھا۔ان میں سے کتنے تھے جو پہلے یونینسٹ پارٹی میں تھے اور جب اُنہوں نے دیکھا کہ مسلم لیگ کا ستارہ چمک رہا ہے وہ قائداعظم کے پیچھے ہو گئے۔آزاد ہندوستان نے ایک جھٹکے میں جاگیرداری یا ٖفیوڈل نظام ختم کیا۔یہاں پر وہ چلتا رہا۔
یہ ہماری بنیادیں تھیں۔ ایسی بنیادوں پر کون سی عمارت کھڑی ہوسکتی تھی؟آج ہم حالات کو روتے ہیں‘ لیکن یہ حالات خلاء میں پیدا نہیں ہوئے۔ ان کے اسباب تھے اور یہ اسباب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔انہیں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ افسانوں سے کام چلتا تو ہم آسمانوں پر ہوتے۔