حیرانی کی انتہا نہ رہی جب پتا چلا کہ وہ قلعۂ پرہیزگاری جس کا دوسرا نام پنجاب یونیورسٹی لاہور ہے‘ میں کچھ ہندو طالب علم بھی زیر تعلیم ہیں۔ان گمراہوں سے کوئی پوچھے کہ انہیں تعلیم کیلئے کوئی اوردرسگاہ نہ سوجھی؟پنجاب یونیورسٹی کی نیک نامی کا انہوں نے کچھ نہ سنا تھا؟ بہرحال بھول کے یہاں آ گئے تو اپنے آپے میں رہتے۔ لیکن ان ہندو طالب علموں کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ ہولی کے تہوار پر ‘ جو ہندوؤں کی عید کے مترادف ہے‘ انہوں نے ہولی منانے کی یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت طلب کی اور انتظامیہ کا گمراہ پن دیکھئے کہ انہیں یہ اجازت مل گئی۔ لیکن ان گستاخوں کو کیا معلوم تھا کہ نیک راہوں پر چلنے والوں کی کوئی کمی نہیں‘ اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔بپھرے جذبا ت سے سرشار اور ڈنڈوں سے لیس‘ کیونکہ ان صحیح راستوں پر چلنے والوں کی اگر کوئی نشانی ہے تو وہ ڈنڈ۱ ہے اور بسا اوقات ایسا ڈنڈا جس کے آگے ایک کیل بھی نصب ہو‘ ہولی منانے والے گستاخوں پر چڑھ دوڑے او ر اُن کا وہ حال کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ کے لگ بھگ گستاخ زخمی ہو گئے۔
گستاخ بھول گئے ہوں گے کہ اگر پاکستان اسلام کا قلعہ ہے تو پنجاب یونیورسٹی اس قلعے میں سب سے مضبوط قلعہ ہے۔ہولی منانے کی گستاخی اور وہ بھی اس اندرونِ قلعہ میں؟ یہ کیسے ممکن تھا اور نیک راہوں پر چلنے والوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ یہ سرزمین کوئی عام سرزمین نہیں بلکہ ایک نظریے کا گہوارہ ہے۔دوسری بات جس کا اعادہ ہوا وہ یہ کہ پڑھائی لکھائی ثانوی چیزیں ہیں‘ ان کا مقام ہے لیکن پیچھے کا مقام ‘ پہلا اور اعلیٰ مقام نظریے اور صحیح راستے کا ہے۔ دہائیوں سے ہمارے یہ مجاہدین ثابت کررہے ہیں کہ درس و تدریس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن پہلی چیز صحیح راستے پر چلنا ہے‘ اور صحیح راستہ وہی ہے جو ان علم دوست نوجوانوں اور ان کے مبلغین کی سمجھ میں آئے۔ یعنی جو وہ کہہ دیں وہی حرفِ آخر ہے‘ جو اُن کی بات سے ذرا بھی انکاری ہو تو اُ س کا وہی حشر ہو گا جو ہولی کے گستاخوں کا ہوا۔یہ کسی کی بھول نہ رہے کہ نیک راستوں کی خاطر پنجاب یونیورسٹی کے علم دوست نوجوانوں کی یہ پہلی کاوش ہے۔اس بار تو ہولی کے نام پر آوازِ حملہ بلند ہوئی حالانکہ بے راہ روی کی کوئی مثال سامنے آئے تو یہ علم دوست نوجوان ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔
یہاں یہ پوچھنا بنتا ہے کہ ان وسیع النظر نوجوانوں کی نظر میں بے راہ روی کی تشریح کیا ہے ؟تعلیم و تدریس کا معیار گر جائے یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ۔ جب سے علم دوستوں کا راج پنجاب یونیورسٹی پر قائم ہوا تعلیم و تدریس کا یہی حال ہے ‘وہ نیچے کی طرف ہی جا رہی ہے۔لیکن جیسے عرض کیا اس امر کی کوئی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ۔اہمیت اس بات کی ہے کہ اگر طالب علم لڑکی ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ باپردہ ہواور پوری طرح باپردہ ‘اوپر سے لے کر نیچے تک۔کلاس روموں میں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے نہ بیٹھیں‘اس بدعت پر کوئی کمپرومائز ممکن نہیں۔کمرۂ ٔجماعت سے باہر نکلیں تب بھی مکمل تفریق ہو‘ یعنی لڑکوں اورلڑکیوں کا آپس میں کسی بنا پر میل جول نہ ہو۔اور یہ کہ اکٹھے بیٹھ کے کہیں چائے پی لیں تو بے راہ روی کی فہرست میں یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔اکٹھے چائے پینے والے مسئلے پر تو ہمارے ان علم دوست نوجوانوں نے ایک سے زیادہ بار باقاعدہ جنگ کا اعلان کیاہے۔ہمارے وکیل صاحبان تو چلیں مکوں اور لاتوں سے کام چلا لیتے ہیں پنجاب یونیورسٹی کے ہمارے علم دوست نوجوان اپنے آپ کو نہتا سمجھتے ہیں جب تک کہ کیل لگائے ڈنڈے اور لوہے کے راڈ مضبوط اور بے تاب ہاتھوں میں نہ ہوں۔دنیا میں جو بھی بڑے جنگجو رہے ہیں اُن کا یہ اصول رہا ہے کہ حملہ کرتے وقت حملہ آوروں کی تعداد حملہ سہنے والوں سے تین گنا زیادہ ہو۔پنجاب یونیورسٹی کے ہمارے علم دوست نوجوانوں نے یہ سنہری اصول ہمیشہ سامنے رکھا ہے‘ حملہ کرتے وقت ترکیب یوں بنائی جاتی ہے کہ اُن کی تعداد کسی نہتے شخص ‘ جوڑے یا گروہ سے کئی گنا زیادہ ہو تاکہ مزاحمت کا شائبہ تک نہ ہو۔اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے علم دوست نوجوان چنگیز خان اور نپولین کی کامیاب جنگی حکمت عملی کے کامیاب ترین پیروکار ہیں۔ گستاخ ہولی منانے چلے تھے کیا وہ یہ سب کچھ بھول گئے تھے؟
چھوڑیے ان باتوں کو کہ پاکستان کا حشر نشر ہو رہا ہے۔جہاں دیکھیں معیشت کا رونا ‘ سیاست پر آہ و زاری ‘ مستقبل کی فکر وغیر ہ وغیرہ۔ اصل بات نظریے کی ہے ‘ نظریہ ٹھیک ہو ‘ آپ کی عقل پر پردے پڑے ہوں‘ تو معاشی تباہ حالی اور پاکستان کی گداگروں والی کیفیت بے معنی ہو جاتی ہیں۔قوم کا تو یہ حال ہے کہ اس وقت نظریات کو بھول چکی ہے ‘ اس کا کوئی ذکر آپ کے سننے میں نہیں آئے گا۔لیکن پنجاب یونیورسٹی علم کا گہوارہ جو ٹھہرا‘ وہاں تو نظریات کی سربلند ی ہی سب سے بڑا اصول ہے۔ لہٰذا علم دوست نوجوانوں کی جو ترجیحات ہیں درست ہیں اور اُن سے کوئی بحث نہیں کی جاسکتی۔پاکستان کا اولین مسئلہ معاشی تباہ حالی نہیں بلکہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آپس میں قریب بیٹھنا ہے۔ معاشی تباہی قبول ہے ‘ کیفے ٹیریا میں لڑکے اور لڑکی کا اکٹھے چائے پینا قبول نہیں۔اسے کہتے ہیں اصول پسندی۔اور یہی حال ہر شعبے کا ہے ۔جیسے پنجاب یونیورسٹی کے علم دوستوں کا پہلا اصول نظریے کا ہے ‘ بہت سے شعبوں کا پہلا اصول پراپرٹی کے کاروبار کا ہے۔ملک جہاں جا رہا ہے‘ جائے ہمارے پراپرٹی کے مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔سیاسی میدان میں ایک جنون طاری ہے کہ فلاں شخص کا راستہ روکنا ہے۔ ملک و آئین بھاڑ میں جائیں‘ ہم نے اپنی کرنی ہے ۔انتخابا ت میں ہمیں ڈر ہے کہ ہماری چھترول ہوگی اور کوئی عام سی چھترول نہیں بلکہ تاریخی چھترول ‘لہٰذا آئین کے چند صفحات جو کہتے ہیں کہتے رہیں‘ ہم نے انتخابات نہیں کرانے۔جس عدالت میں جانا ہے جاؤ‘ ہم نے وہی کرنا ہے جو ہماری بقا کے لیے ضروری ہے ۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے ہمارا تو بس نہیں چل رہا نہیں تو عوام کے ساتھ وہی ہونا چاہئے جو گستاخ ہولی منانے والوں کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں ہمارے علم دوست نوجوانوں کے ہاتھوں ہوا۔جنرل ضیا الحق کا زمانہ ہوتا تو اس جاہل عوام کا بھی صحیح علاج ہو جاتا۔جنرل صاحب کے زمانے میں جو فوجی عدالتیں قائم ہوتی تھیں وہ چھوٹی چھوٹی چیز پر کوڑوں کی سزا سنا دیتی تھیں اور پھر کسی کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ مارشل لا احکامات کی خلاف ورزی کرے۔ستم تو یہ ہے کہ زما نہ بدل گیا ہے ‘ طورطریقے بدل گئے ہیں ۔ کوڑوں کی سزا سنائی جاتی اور سزا پر عمل درآمد بھی ہو جاتا تو کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوتی۔یہ کمبخت سوشل میڈیا ‘ کسی کو ہاتھ بھی لگ جائے تو آسمان سرپر اٹھا لیا جاتا ہے ۔شہباز گل کے ساتھ کیا ہوا ‘ ایک دو دن ہی اُس کی ٹکور کی گئی تھی لیکن الامان الحفیظ ‘ ایسا شورمچا کہ خدا کی پناہ۔اور بھی تھے جن کے ساتھ کچھ ہوالیکن کون سی اتنی آفت نازل ہو ئی تھی ‘ تھانوں میں ایک دو دن رکھ کر مہربانوں نے وہی کچھ کیا جو کہ تھانوں میں ہوتا ہے ‘ لیکن وہ شور وہ ہنگامہ وہ عدالتوں کی طرف رجوع۔ جنرل ضیا کا زمانہ کتنا بھلا زمانہ تھا‘یہ سب مصیبتیں کہاں تھیں ۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہمارا بس نہیں چل رہا نہیں تو شرپسندوںکی وہ ٹکور کی جائے کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں۔