مسئلہ طریقۂ انتخابات کا ہے کہ آنے والے معرکے کے لوازمات کیا ہوں گے اور کن شرائط پر وہ لڑا جائے گا۔ اس ضمن میں سوویت یونین کے آنجہانی مردِ آہن جوزف سٹالن کے لافانی الفاظ یاد رہیں کہ اہمیت ووٹ ڈالنے والوں کی نہیں بلکہ ووٹ گننے والوں کی ہوتی ہے۔ کیا کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے انتخابات کی حتمی تاریخ کیا ہو گی کیونکہ حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ الیکشن کمیشن بادشاہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ انتخابات نے آئینی تقاضوں کے تحت نہیں ہونا‘ الیکشن کمیشن کی مرضی و منشاکے تابع ہونا ہے اور الیکشن کمیشن نے کن اشاروں کو حتمی سمجھنا ہے‘ وہ ہم جانتے ہیں۔ ہز ماسٹرز وائس کی اصطلاح صرف گرامو فون ریکارڈوں تک محدود نہیں‘ اس کے لامحدود معنی ہیں اور عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ لہٰذا اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ان انتخابات کو بے لگام نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ بپھرے ہوئے عوام جو چاہیں وہی نتیجہ برآمد ہوگا۔ اس میدان کی کڑی شرط یہ ہونی ہے کہ اس سے مثبت نتائج برآمد ہوں۔
ایسے نتائج تب ہی برآمد ہو سکتے ہیں جب وہ عملاً میدان سے باہر رہے جسے بعض حلقے فتنہ قرار دیتے۔ کوئی قانونی قدغن نہ ہو لیکن سرکردہ سرخیلوں کو میدان سے باہر رکھا جائے۔ مثال کے طور پر خواجہ آصف سیالکوٹ سے تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں اگر عثمان ڈار بدستور گمشدہ رہے۔ مولانا فضل الرحمن ڈی آئی خان کے اپنے آبائی حلقے سے تب ہی سرخرو ہو سکتے ہیں اگر وہ لمبے بالوں والا علی امین گنڈا پور اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل نہ کرا سکے۔ چوہدری پرویز الٰہی پر مزید مقدمات قائم ہونا ضروری ہیں اگرگجرات سے مثبت نتائج کی توقع ہے۔ لاہور میں اگر بڑا جھاڑو نہ پھیرا گیا‘ خدشہ یہی رہے گا کہ نتائج ایسے نہ ہوں جیسے ضمنی انتخابات میں نکلے تھے۔ (ن) لیگ سمجھ رہی تھی کہ ضمنی انتخابات کا میدان مار جائے گی لیکن شام ڈھلے جب نتائج آنے لگے اس کے سارے رہنما منہ چھپا رہے تھے۔ حالات تو ایسے بن چکے ہیں کہ حمزہ شہباز اپنی اندرونِ شہر والی سیٹ نہ جیت سکے۔ یہ جو خواتین کوٹ لکھپت میں بند ہیں یہ کہیں الیکشن میدان میں آجائیں تو (ن) لیگ کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ اس لیے مثبت نتائج کے لیے ضروری ہے کہ جو اقدامات مئی کے مہینے کے بعد سے کیے جا رہے ہیں‘ وہ جاری رہیں۔
زیادہ الیکشن تو میں نے نہیں لڑے لیکن تین کا حصہ دار رہا ہوں۔ اپنے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ آخری دس دنوں تک نہیں پتا چلتا کہ کس کی چھترول عوام کے ہاتھوں ہونی ہے۔ 2008ء کا الیکشن ایسا تھا کہ تمام شواہد ہمارے مخالفین کے حق میں لگتے تھے۔ پرویز مشرف کے ضلعی نظام کے تحت تمام ضلعی وسائل ان کے کنٹرول میں تھے۔ انتظامیہ کے لوگ ان کے لگائے ہوئے تھے‘ ڈی پی او اُن کا تھا‘ یونین کونسل ناظمین کی پوری فوج ان کے ساتھ تھی۔ آخری دس دنوں میں تھوڑے تھوڑے آثار نمودار ہونے لگے کہ ہواؤں کا رُخ شاید کسی اور جانب ہو۔ الیکشن والے دن چکوال شہر کے پولنگ سٹیشنوں پر ہمارے مخالفین کا اثر زیادہ دکھائی دیتا تھا۔ کھانا وغیرہ انہی کی طرف سے دیا جا رہا تھا لیکن شام کو نتائج آنے لگے تو یوں لگا کہ چکوال میں ایک زلزلہ آ گیا ہے۔
یہ تو چلیں ہماری ادنیٰ سی مثال ہوئی لیکن بڑے معرکے بھی دیکھے ہیں جب ظاہری پوزیشن کچھ اور دکھائی دیتی تھی اور بیچ میں لاوا کچھ اور پک رہا ہوتا تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتائج جس طریقے سے آنے لگے‘ وہ ذہن سے کبھی فراموش نہیں ہو سکتے۔ پنجاب کے تمام بڑے نام اور بڑے بُرج گرتے جا رہے تھے اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایسے ایسے لوگ کامیاب ہو رہے تھے جن کا نام کسی نے نہیں سنا تھا۔ پنجاب میں پی پی پی بھاری اکثریت سے جیتی اور لاہور شہر میں تو پی پی پی کی تلوار نے سب کا صفایا کر دیا تھا۔ جیسے لاوا پھٹتا ہے اس انتخاب میں ایسا ہوا۔ مجھے تو ڈر یہ ہے کہ ڈھیلا پن دکھایا گیا اور ساری بات عوام پر چھوڑ دی گئی تو کہیں 1970ء سے برا انجام نہ ہو جائے۔ (ن) لیگ والے اتراتے پھر رہے ہیں اور میڈیا میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے جا رہے ہیں‘ لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ انہیں ووٹ کس بنا پر پڑیں گے؟ بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں پر انہیں کوئی ووٹ دے گا؟ ان کا نام کوئی سننا نہیں چاہتا۔ چالیس‘ پینتالیس سال سے وہی چہرے نظر آ رہے ہیں‘ آخر بوریت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ گزرے وقتوں میں (ن) لیگ کے بارے میں عوام کے دلوں میں غلط فہمیاں ہو سکتی تھیں لیکن اب تو سب کچھ عیاں ہے کہ کیا کیا کارنامے سرزد ہوئے‘ منی ٹریلیں کون کون سی تھیں‘ کہاں شروع ہوتی تھیں اور کہاں پہنچتی تھیں۔
اب تو سٹالن کا مقولہ ہی یاد رکھنا پڑے گا اورکچھ کرنا ایسا پڑے گا کہ چھلنی میں جو کچھ بھی ڈالا جائے جو نکلے وہ مثبت نوعیت کا ہو تاکہ ملا جلا کے قومی اسمبلی میں اکثریت ہماری ہو اور پھر فیصلہ ہو سکے کہ وزیراعظم کس کو بننا ہے۔ ایسا وزیراعظم جو تڑیاں نہ دے اور حالات کو سمجھے۔ پندرہ‘ سولہ ماہ میں شہباز شریف اور ان کی حکومت نے قوم کا بینڈ تو بجا دیا لیکن ایک بات ماننی پڑے گی کہ نافرمانی کا ایک لفظ بھی ان کے لبوں سے ادا نہ ہوا۔ اعلیٰ قومی مفاد میں ایسے قائدین پسند کیے جاتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کو تو اُڑتے تیر کو پکڑنے کی عادت ہے۔ ابھی لندن سے آمد نہیں ہوئی اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ باجوہ اور فیض حمید سے حساب چکا لیں گے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ایسی دھمکیاں تو ہٹلر نے بھی نہیں دی تھیں لیکن میاں صاحب کا اپنا مزاج ہے‘ تیر اڑا جا رہا ہو اس کی طرف چھلانگ کیسے نہ لگائیں؟
تاریخ کی بحث اب ختم ہونی چاہیے‘ بے معنی ہے۔ آئین سے تجاوز تو کر لیا گیا ہے‘ اب یہ تجاوز ہی نئی حقیقت ہے۔ اس کے بارے میں سر پیٹنے کا کیا فائدہ؟ جنوری کوئی زیادہ دور نہیں‘ تب الیکشن ہو جاتے ہیں تو غنیمت ہے۔ تیاری اب سے شروع ہونی چاہیے لیکن سوال تو فتنہ جماعت کے بارے میں ہے‘ اس کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟ یا یوں کہیے کہ کون سی حکمتِ عملی کی اسے اجازت ہو گی؟ بیشک سرکردہ سرخیل پابندِ سلاسل ہوں لیکن سلاخوں کے پیچھے سے بھی کاغذات جمع کراسکیں گے۔ موجودہ قوانین تو یہی کہتے ہیں۔اصل علاج تو عوام کا ہونا چاہئے ، اُن کے دماغ خراب ہیں۔ سلاخوں کے پیچھے سے یا آگے سے کاغذات داخل ہوں ، عوام کی ایک بھاری تعداد نے پرچیاں وہیں ڈالنی ہیں۔اس کا کیا کیا جائے گا؟ چوہدری پرویز الٰہی کو کیسے روکا جائے گاکہ وہ گجرات کے کسی حلقے کیلئے کاغذات جمع نہ کرائیں؟اگر وہ ایسا کرتے ہیں تووہی ہوگا جو ایسے حالات میں ہوتا ہے، دمادم مست قلندر۔
مطلب یہ ہے کہ ہرہتھکنڈے کے باوجودحالات کنٹرول نہیں ہو رہے، نہ سیاسی حالات نہ معاشی۔معیشت کشکول پر چل رہی ہے اور کشکول کی حالت بھی بری ہے۔ سیاسی میدان میں اتنی بے یقینی ہے کہ کہا نہیں جاسکتا کل کیا ہوگا۔ یہ جو ہمارے نگران وزیراعظم ہیں کس دانا نے انہیں رائے دی تھی کہ جنرل اسمبلی اجلاس کیلئے نیویارک جائیں؟فضول خرچی کے پہلو کو رہنے دیجئے ، اُن کے چہرے کی بیچارگی سے شرم آنے لگتی ہے۔ اُن کا تماشا بنے تو سمجھئے پاکستان کا تماشا بن رہا ہے۔یہ کوئی اچھی چیز ہے؟
بہرحال الیکشن جیسے بھی ہوں آگے کی طرف ایک قدم ہوگا۔ موجودہ صورتحال سے تو نکلیں۔ ایک دفعہ تو عوام کو پولنگ سٹیشنوں تک جانے دیں پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔