ان افغانوں کو ڈھنڈورا پیٹ کر ہم نے یہاں آنے کا کہا۔ کابل میں کمیونسٹوں نے اقتدار پر قبضہ کیا اور ضیا الحق حکومت ڈھول پیٹنے لگی کہ یہ کیا ظلم ہو گیا۔ پاکستان کے حالات برُے تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو پر مقدمہ چل رہا تھا‘ قومی خزانہ خالی تھا لیکن ضیا حکومت نے افغانوں کی وکالت شروع کر دی۔ یاد رہے‘ تب تک روسی فوج افغانستان میں نہیں آئی تھی‘ یہ اس سے پہلے کی بات ہے کہ افغانستان کے بارے پاکستانی حکومت کا ڈھنڈورا شروع ہوا۔ امریکہ کو تب افغانستان میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ انکا ایک سفیر بھی کابل میں مارا جا چکا تھا اور امریکی افغانستان سے مکمل طور پر لاتعلق تھے۔
کابل کے کمیونسٹوں سے وہاں کے حالات سنبھالے نہ گئے اور تب کی روسی قیادت یہ فاش غلطی کر بیٹھی کہ اس نے افغانستان میں سوویت فوج کو بھیج ڈالا۔ روسیوں کا آنا تھا کہ امریکیوں کی دلچسپی افغانستان میں آگ کی طرح بھڑک اٹھی۔ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ روس کو سبق سکھایا جائے اور ایک لحاظ سے ویتنام میں شکست اور رسوائی کا بدلہ لیا جائے۔ امریکہ نے ایک روس مخالف انٹرنیشنل محاذکھڑا کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مردِ مومن مردِ حق مغربی دنیا کے ڈارلنگ بن گئے۔ صدر کارٹر نے پاکستان کے لیے چار سو ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ مردِ مومن نے اسے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ یہ تو محض مونگ پھلی ہے۔ صدارتی الیکشن جمی کارٹر ہار گئے اور رونلڈ ریگن امریکی صدر منتخب ہوئے۔ ان کے برسرِاقتدار آتے ہی پاکستان کی طرف مزید پینگیں بڑھائی گئیں اور تین اعشاریہ دو بلین ڈالر کا امدادی پیکیج ترتیب دیا گیا جسے پاکستان کے تب کے حکمرانوں نے بخوشی قبول کیا۔ اس پیکیج میں ایف سولہ طیارے بھی شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ان جنگی طیاروں کی بات شروع ہوئی تو امریکی سمجھے کہ پاکستان تحفتاً یہ طیارے مانگے گا لیکن ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب تب کے پاکستانی وزیر خارجہ جناب آغا شاہی نے کہا کہ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں اور ہم طیاروں کو خریدیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکیوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہم نے تو سمجھا تھا کہ ہماری قومی غیرت پر وہ حیران ہوئے ہوں گے‘ دراصل ہماری بیوقوفی پر اپنی حیرانی وہ کنٹرول نہ کر سکے۔
امریکہ نے روس مخالف بین الاقوامی لشکر ترتیب دینا شروع کیا تو ہمارے سعودی بھائیوں نے اعلان فرمایا کہ جتنے پیسے امریکہ دے گا‘ اتنے ہی امداد میں وہ دیں گے۔ ایف سولہ کے مسئلے کے علاوہ تب کی حکومت نے ایک اور غیرت مند فیصلہ کیا کہ تمام بیرونی امداد افغانوں کو ڈائریکٹ نہیں جائے گی بلکہ ہمارے ذریعے جائے گی۔ امریکہ یہ شرط مان گیا اور ہمارے لوگوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ باہر سے امداد آ رہی تھی‘ ڈالروں کی کوئی کمی نہ تھی‘ مردِ مومن کو بین الاقوامی مدبر کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور اندرونی طور پر ضیا حکومت نے اپنی مرضی کی اور ملک میں مکمل سناٹا چھا گیا۔ خصوصی عدالتیں قائم ہوئیں اور جیلوں میں سرکش ورکر اور رہنما بند ہوتے گئے۔
افغانوں کی امداد کے لیے جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہمارے اسلامی بھائی ہیں اور اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت ان کی امداد کی صورت میں ہم اپنا دینی فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ روسیوں کے انخلا کے بعد نام نہاد مجاہدین نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ان کے اقارب بھی ہم بن گئے۔ نام نہاد مجاہدین میں کوئی ٹینشن پیدا ہوتی تو ہم صلح کرانیوالے بن جاتے۔ نام نہاد مجاہدین نے جب افغانوں کے ناکوں میں دم کرنا شروع کیا اور قندھار سے بیک لیش کے طور پر طالبان تحریک اٹھی تو اس کے مربی بھی ہم ہی بنے۔ طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو اس حکومت کو ہم نے فوراًتسلیم کیا اور ہماری تقلید کرتے ہوئے سعودی عرب اور یو اے ای نے بھی طالبان حکومت کو قبولیت بخشی۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم نے فوراً ہی امریکن پریشر کے تحت اپنارول تبدیل کیا اور امریکیوں کے سٹریٹجک ساتھی بن گئے۔ ڈالر پھر سے آنے لگے اور اس پاکستانی حکومت کے بھی وارے نیارے ہونے لگے۔ اس دفعہ البتہ ایک معمولی سا فرق تھا۔ افغانستان پر امریکی حملہ ہوا تو طالبان اور القاعدہ کی قیادتوں نے پاکستان کے دشوار گزار علاقوں کا رُخ کیا۔ پرانے فاٹا میں القاعدہ کے عناصر نے اپنے ٹھکانے بنائے اور وقت گزرنے کے ساتھ پورے فاٹا پر تقریباً اپنا قبضہ جما لیا۔ تب کی ہماری حکومت نے کچھ نہ کیا جس کی وجہ سے یہ دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی کہ ایک طرف حکومت امریکہ کی معاون اور ساتھی تھی اور دوسری طرف چھپے ہاتھوں سے طالبان کو بھی کچھ نہ کچھ حفاظت اور امداد میسر ہو رہی تھی۔ بارہا امریکہ نے الزام لگایا کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہا ہے لیکن ہم نے مسلسل انکار کیا۔ اس صورتحال کا ایک اور دلچسپ زاویہ یہ تھا کہ امریکہ کی تو ہم امداد کررہے تھے لیکن جس حکومت کو امریکیوں نے کابل میں بٹھایا اور جس کے صدر حامد کرزئی تھے‘ اس سے ہمارے خاص تعلقات نہ بن سکے کیونکہ اصل میں ہمارے دل چھپے ہوئے طالبان کے لیے دھڑکتے تھے۔
امریکہ کی افغانستان میں جنگ لمبی ہوتی گئی اور ہماری ضرورت سے زیادہ ذہین پالیسی بھی جاری رہی کہ ایک طرف امریکیوں کے ساتھ اور دوسری طرف چھپے ہاتھوں سے ان کے خلاف۔ کرزئی کے بعد اشرف غنی آئے لیکن اس سے بھی ہماری نہ بنی۔ وجہ وہی پرانی تھی کہ اصل ہمدردیاں ہماری طالبان کیساتھ تھیں۔ دوحہ مذاکرات میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا اور ہم نے بھی امریکیوں کو یہی باور کرانا چاہا کہ بہتری ان کے افغانستان سے فوری انخلا میں ہے۔ بالآخر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں۔ ٹرمپ چلے گئے اور نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کر دیا۔ امریکی بھی اس عجلت سے کابل سے نکلے کہ دنیا حیران رہ گئی لیکن ہم جو ارسطو اور افلاطون کے طالب علم ٹھہرے‘ ہم نے شادیانے بجائے اور تب کے وزیراعظم عمران خان نے اعلان فرمایا کہ امریکی انخلا سے غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں۔ یہ ہماری عقل مندی کا بلند ترین مظاہرہ تھا۔
چونکہ کرشمے کبھی ختم نہیں ہوتے تو اب دیکھیے کیا ہو رہا ہے۔ وہی افغان‘ جن کو ہم نے چالیس پینتالیس سال سر پہ اٹھائے رکھا تھا‘ وہ ہمارے سخت ترین دشمن کے روپ میں سامنے آ رہے ہیں۔ اسلامی اخوت و مذہبی فریضے کے تمام دل ہلا دینے والے وعظ ایک طرف رکھ دیے گئے ہیں اور جن افغانوں کو ڈھول پیٹ پیٹ کر یہاں ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی تھی‘ آج ہم اسی عجلت سے انہیں باہر نکال رہے ہیں۔ مملکتِ خداداد میں جو دہشت گردی کی لہر اٹھ رہی ہے‘ اس کا پتا نہیں ان حالات و واقعات سے کوئی تعلق ہے یا نہیں لیکن اتنا تو نظر آرہا ہے کہ جن افغانوں کو جان سے عزیز بھائی کہتے تھے‘ ان کے تیور بدل گئے ہیں اور پاکستان کی طرف وہ سخت زبان استعمال کررہے ہیں۔ جب افغانوں کو ہم یہاں ڈھنڈورا پیٹ کر بُلا رہے تھے تب بھی اپنی عقل پر تالے لگا دیے تھے۔ افغان تو ایران بھی گئے تھے لیکن انہیں وہاں کیمپوں میں رکھا گیا۔ ہم سخیوں نے افغانوں کو کھلی آزادی دی تھی اور پورا پاکستان ان کی چراگاہ بن گیا۔ آج جب ترجیحات بدل چکی ہیں پھر سے عقلوں پر تالے لگ گئے ہیں اور اب ہم برادر اسلامی افغان بھائیوں کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ کوئی ہم سے پوچھے تو سہی کہ کبھی سوچ کر بھی ہم نے کچھ کیا ہے؟ وہ وقت بھی تھا جب افغانستان کی ہم ایسے بات کرتے کہ جیسے وہ ہمارا پانچواں صوبہ ہے اور اب کسی اور نظر سے ہم ان کو دیکھ رہے ہیں۔
ایک تو ہر چیز کو ہندوستان کی عینک پہن کر ہم نے دیکھا۔ افغانستان کے چاچے بھی اس لیے بنے کہ ہندوستا ن کو زیر کرنا ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ نہ آگے کا پتا چل رہا ہے نہ پیچھے کا۔