ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں فلمی میلہ منعقد ہونا تھا اور کیونکہ پاکستان سے بھی ایک بھاری بھرکم وفد آرہا تھا‘ ماسکو میں سفیرِ پاکستان جناب سجاد حیدر نے مجھ سے وہاں جانے کا کہا۔ وفد اِن افراد پر مشتمل تھا: سنتوش کمار اور صبیحہ خانم‘ محمد علی اور زیبا‘ فلم ڈائریکٹر حسن طارق اور ان کی بیگم رانی‘ وحید مراد اور شمیم آرا۔ ہماری فلم انڈسٹری کے یہ سارے بڑے نام تھے اور یہ سارے لوگ پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ ازبکستان ہوٹل میں ہمارا قیام تھا اور میلہ فلموں کا ہو تو وہاں رونق اور گہما گہمی تو ہونی ہی تھی۔
سادگی ہماری اس بات میں پنہاں تھی کہ جو وقت ہمیں ان افراد کے ساتھ گزارنا چاہیے تھا‘ ایسا ہم سے ہوا نہیں۔ یا اپنی کمزور طبع کی وجہ سے ایسا کر نہ سکے۔ میلے کی سرکاری مصروفیات سے یہ لوگ فارغ ہوتے تو شام کو کسی کمرے میں ان کی محفل جمتی۔ سامانِ شب تو ظاہر ہے ان محفلوں میں ہوتا اور ساتھ ہی تاش کی بازیاں بھی چلتیں۔ تاش کا کبھی شوق رہا نہیں لیکن طبیعت میں کچھ ہمت ہوتی تو ان محفلوں میں جاکر شریک تو ہوتے۔ جیسے اوپر عرض کیا‘ ایسا ہم سے نہ ہو سکا۔ بہرحال پھر بھی صبح شام ان اشخاص کو دیکھنے کا موقع ملا اور جو ہفتہ بھر تاشقند میں گزرا کئی لحاظ سے خوب گزرا۔ وحید مراد ان سب سے تھوڑے الگ رہتے۔ ہندوستانی وفد میں جنوبی ہندوستان کی کوئی ایکٹریس تھیں جو بہت ہی خوبرو تھیں‘ وحید مراد سے ملتا جلتا چاکلیٹی رنگ تھا اور ہمارے ہیرو کی نظریں پہلے دن سے ہی اس مہ جبیں پر پڑیں۔ جو فراغت کے لمحات ملتے وحید صاحب انہی دلربا کے کسی نہ کسی طرح تعاقب میں پائے جاتے۔ لیکن کچھ دنوں بعد مجھے کم از کم یہ محسوس ہونے لگا کہ بات کچھ بن نہیں رہی اور پھر یوں ہوا کہ تعاقب کا سلسلہ بھی ذرا مدہم پڑ گیا۔ اور خدا نہ بھلائے وحید مراد کے ہینڈسم چہرے کی رونق بھی کچھ کم دکھائی دینے لگی۔
انڈین وفد کو جناب راج کپور لیڈ کررہے تھے۔ انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور یہ کہنا پڑے گا کہ ان کی بڑی کرشماتی شخصیت تھی۔ جوانی کے ایام تو ڈھل چکے تھے اور پیٹ بھی کچھ صحت مند ہو چکا تھا لیکن چہرے کا رنگ سفید و گلابی تھا اورگفتگو میں بھی بڑی کشش تھی۔ ہندوستان اور سوویت یونین کے تعلقات میں بڑی گرم جوشی تھی اور اسی ناتے راج کپور اور ہندوستانی وفد کی بڑی پذیرائی ہو رہی تھی۔ ویسے بھی انڈین فلمیں سوویت یونین میں بہت دیکھی جاتی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ راج کپور جہاں جاتے لوگوں کا ایک ہجوم اُن کے گرد جمع ہو جاتا۔ اور مجھے کوئی یاد نہیں کہ ہندوستانی وفد میں کون تھا۔ ایک تو وہ جنوبی ہندوستان کی ماہ رخ تھیں جس پر وحید مراد کی نظریں پڑ ی تھیں اور دوسری ایک نوجوان اور نہایت ہی دلکش دوشیزہ تھیں جن کا نام شبانہ اعظمی تھا۔ تب شادی شدہ بھی نہ تھیں اورگو وہ اب بھی بہت حسین ہیں لیکن تب جوانی کا ایک اپنا روپ تھا۔ ہم میں کچھ ہمت یا عقل ہوتی تو بات کرنے کی ضرورکوشش کرتے لیکن پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ دونوں خوبیاں غیرحاضر تھیں۔ سات دن کا میلہ تھا‘ آمنے سامنے گزرنا ہوتا تھا لیکن ہم بدھو کے بدھو ہی رہے‘ نہ سلام کیا نہ تعارف کرایا‘ نہ ان کی تعریف کر سکے۔ ایک دفعہ تو یوں ہوا کہ ہوٹل کی لفٹ میں شبانہ جی کو اکیلے پایا‘ یعنی ہم اور وہ مجسمۂ حُسن۔ لیکن کمزور دلی کا اندازہ لگایا جائے کہ سانس لینا تو دشوار تھا ہی اور ساتھ ہی لبوں سے ایک لفظ بھی ادا نہ ہو سکا۔ تب یہ نہیں معلوم تھا شبانہ اعظمی کون ہیں لیکن اتنا تو نظرآ رہا تھا کہ حسین و جمیل دوشیزہ ہیں اور اس لحاظ سے کچھ بات کرنا تو بنتی تھی لیکن سادہ کیا بس بیکار ہی رہے۔
سفیرِ پاکستان نے وفد کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام کیا۔ وہ زمانہ مختلف تھا‘ آج کل کی پارسائی تب رائج نہ تھی‘ لہٰذا لوازماتِ شب کو آج کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ سفیر صاحب کے کہنے پر ماسکو سے کچھ سامانِ شب میں لے کر آیا تھا۔ ڈنر کا میز سجا تو ظاہر ہے لوازماتِ شب بھی وہاں رکھے گئے۔ وہ زمانہ تھا کہ ضروریاتِ شب کے بغیر کسی تقریب کو تقریب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ہر ملک میں فلم انڈسٹری سے وابستہ لوگ زندہ دل اور شوقین مزاج سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے مہمان بھی ایسے ہی تھے‘ اس لیے جوکچھ رکھا ہوا تھا‘ اس کے ساتھ مکمل انصاف کیا گیا۔ سنتوش صاحب کا انداز البتہ ذرا منفرد تھا۔ سامانِ شب کا ایک پورا نسخہ اُنہوں نے اپنے سامنے رکھا اور ڈنر کے اختتام تک کیا دیکھتے ہیں کہ وہ پورا نسخہ ختم کر دیا گیا۔ سنتوش صاحب کی رنگت ویسے بھی بڑی سفید و گلاب تھی لیکن جوں جوں سامانِ شب کے ساتھ وہ نبردآزما ہوئے ان کے چہرے کی شوخی بڑھتی گئی حتیٰ کہ آخر میں ان کاچہرہ اس خوبصورتی سے جگمگا اٹھا کہ دیکھ کر رشک آتا تھا۔ سنتوش صاحب کا اصل نام سید موسیٰ رضا تھا۔ شاہ صاحب کی کارکردگی یا یوں کہئے جوانمردی دیکھ کر سفیر صاحب کی حیرانی بڑھتی گئی اور میز سے اٹھتے ہوئے ایک دو بارمیرے کانوں میں انہوں نے سرگوشی کے انداز میں کہا کہ شاہ صاحب اپنے سامنے پڑا سارا نسخہ صاف کر گئے ہیں۔ لہجے میں تنقید نہ تھی ستائش تھی۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ شاہ صاحب کی گفتار میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی نہ ان کے چلنے میں کوئی فرق آیا۔ میری عمر تب پچیس سال تھی‘ زندگی کا تجربہ بھی اتنا نہ تھا لیکن رندانہ راستوں پر توچل پڑے تھے‘ اس لیے اس شام سنتوش صاحب کو رشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اتنا کچھ کرنا اور آخرتک پُروقار رہنا ہم تو قابلِ فخر ہی سمجھیں گے۔
جیسے عرض کیا کہ ہمارے وفد کی محفل تو رات کو جمتی تھی اورکئی ایک بار ناشتے کی میز پر سنتے کہ صبیحہ بیگم کا بھلا ہو‘ رات کو دیر ہو جاتی ہے تو الیکٹرک کیٹل پر کچھ کباب گرم کر لیتی ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ سوویت زمانے میں روسی ہوٹلوں میں روم سروس نام کی چیز نہیں ہوتی تھی۔ کھانے کے اوقات میں ریستوران میں ہی کھا سکتے تھے۔ اس معاشرے کی بہت سی خامیاں بیان کی جا سکتی ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ اس معاشرے میں فضولیات کی اتنی گنجائش نہ تھی۔ میرے پاس چوائس ہو تو رہنے کے لیے ایسے معاشرے کا انتخاب کروں لیکن ہم سے کس نے پوچھنا ہے۔
بے تکلفی تو کسی سے نہ ہو سکی لیکن ایک شمیم آرا تھیں جن سے ناشتے کی میز پر کچھ نہ کچھ بات ہو جاتی۔ نہایت ہی بردبار اور خوش مزاج خاتون تھیں۔ میلہ تو گزر گیا‘ کچھ سال بھی بیت گئے‘ میں اسلام آباد آ چکا تھا اور ایک دوپہر اسلام آباد کلب کے سوئمنگ پول کی سائیڈ پر لیٹا ہوا تھا کہ کسی تقریب کے سلسلے میں شمیم آرا وہاں آئیں اور مجھے جب دیکھا تو میری طرف قدم بڑھائے۔ فوراً اٹھ کر جھک کے سلام کیا۔ ایک دو دوست میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے‘ وہ بڑے متاثر ہوئے کہ واہ شمیم آرا تمہیں ملنے آئیں لیکن یہ ان کی مہربانی تھی اور ان کی طرف سے ایک دلکش ادا۔ 1981ء میں کچھ مہینے راولپنڈی جیل میں گزارنا پڑے۔ ہوا یوں کہ محمد علی صاحب سے کچھ ہو گیا جس سے جنرل ضیا الحق خفا ہو گئے تھے۔ ایک دن جیل میں پتا چلا کہ ایک بڑا خاص مہمان آ رہا ہے۔ ایک سیل کو جلدی سے تیار کیا گیا۔ دیکھتے کیا ہیں کہ محمد علی صاحب کو لایا جا رہا ہے۔ نہ ہم نے اپنا تعارف کرایا نہ وہ پہچان سکے کہ اتنے سال پہلے تاشقند میں ملے تھے۔ ایک دو روز بعد ایوانِ صدر سے بلاوا آیا‘ جنرل ضیا الحق سے ملاقات ہوئی اور پھر ان کی رہائی ہوگئی۔