اڈیالہ کے قیدی نے تو فی الوقت وہیں رہنا ہے ‘ رہائی تو دور کی بات ہے عنقریب ضمانت کی بھی کوئی توقع نہیں۔نہ جلسے ہوں گے نہ جلوس نہ اُن کا کوئی خطاب۔یہی صورتحال ہے توپھر ڈر کاہے کا‘وسوسے کیسے؟ سوال تو یہ ہے کہ جس دلدل میں قوم پھنسی ہوئی ہے اُس سے نکلنا ہے یا نہیں؟ اور نکلنے کا واحد راستہ انتخابات کا ہے۔ کوئی اور راستہ ہے تو بتا دیجئے‘ ہماری بھی تعلیمِ بالغاں ہو جائے گی‘ سمجھ میں کچھ اضافہ ہو گا۔ انتخابات میں یہ تاخیر کی باتیں بزدلانہ کارروائی ہے۔تاخیر تب ہی ہو سکتی ہے جب آئین کا حلیہ بگاڑا جائے۔ دستورِ پاکستان سے زیادتیاں ہوتی آئی ہیں‘ مزید زیادتی کا متحمل ہمارا آئین ہوسکتا ہے؟
لہٰذا دلوںکو تھوڑا مضبوط کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ موڈ عوام کا جو بھی ہو اس کو رہنے دیتے ہیں۔جماعتوں کی مدح سرائی جائے بھاڑ میں ‘ بات اب ملک کی کرنی چاہئے کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے۔ہم سب جانتے ہیں آئین سے مزید انحراف تباہ کن ثابت ہوگا۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر اور کمرکَس کے انتخابات کی طرف جانا چاہئے‘ اور کوئی راستہ ہے نہیں۔بانی پی ٹی آئی تو ویسے ہی اندر ہے‘ فی الوقت تو اُس نے وزیراعظم نہیں بننا۔ ایک مقدمہ ہو تو ہم کہیں ‘ یعنی مقدمات کو اُنہوں نے بھگتنا ہے اورفی الوقت ہم سب کو پتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کئی راہ نما روپوش ہیں‘ یہ نہیں پتا کہ سامنے آ سکیں گے یا نہیں۔ مشکلات میں گھِری جماعت ہے‘ اس لیے ہم میں کوئی ہمت پیدا ہونی چاہئے۔ انتخابات کے انعقاد سے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ کچھ سیٹیں ادھر اُدھر ہو جائیں گی ‘ (ن) لیگ کے مصنوعی غبارے سے کچھ ہوا نکل جائے گی۔ تو پھر کیا ؟ زمین اور آسمان تو قائم رہیں گے‘ اندھیری شب میں ستارے جگمگاتے رہیں گے۔ مہتاب اپنے وقت پر اپنا جادو ظاہر کرتا رہے گا۔ ہوائیں چلیں گی‘ سردی کا موسم ہے پہاڑوں پر برف باری ہوگی۔ ٹھنڈی شاموں کو خیال ادھر اُدھر بھٹکیں گے۔ شب کا بوجھل پن ہلکا کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی ترکیب ذہنوں میں اُبھرے گی۔ یعنی زندگی چلتی رہے گی۔ مشکل وقت قوموں پر آتے ہیں لیکن قوموں میں ہمت ہو تو مشکل سے مشکل چیلنج سے نبردآزما ہوتی ہیں۔
ہم کوئی بزدل قوم ہیں؟ برُے وقت ہم نے نہیں دیکھے؟ یہ کیا ہوا کہ انتخابات کا تقاضا ہو تودلوں پر خوف طاری ہو جائے۔ جنگِ عظیم دوم ختم نہیں ہوئی تھی کہ برطانیہ میں انتخابات کا انعقاد ہوا اور ونسٹن چرچل جیسے لیڈر کو شکست کا سامناکرنا پڑا۔ اُس سے وہ غرق تو نہیں ہو گیا تھا‘ پانچ سال اقتدار سے باہر رہا اوراگلے الیکشن میں جیت کر پھر سے وزیراعظم بن گیا۔ہماری عجیب مٹی ہے ‘ لوگ انتخابات سے ڈرنے لگتے ہیں۔ اپنی تسکین تو شاید ہو جاتی ہو‘ قوم کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔نہیں ‘ ہم اتنے بزدل نہیں‘ جو اتھارٹی میں ہیں وہ اتنے کم حوصلہ نہیں۔اگر آئین کا تقاضا ہے کہ انتخابات ہونے ہیں تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ایسا ہی ہوگا‘ حوصلے قائم رہیں گے ‘ آئین کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جائے گا۔
بس ایک دفعہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے‘ منتظر قوم کی امیدیں جاگ اُٹھیں گی۔ کچھ ہلچل ہوگی ‘ زندگی کے آثار نظر آئیں گے۔دنیا دیکھے گی کہ یہ جیتی جاگتی قوم ہے‘ اس کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ سلاخوں کے اُس پار سے بھی درخواستیں جمع ہوں گی۔ 1970ء کے انتخابات منعقد ہوئے تو مولانا کوثر نیازی جیل میں تھے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے‘ ووٹوں کی گنتی ہوئی توبھاری اکثریت سے جیت گئے۔یہ نہیں کہنا چاہئے کہ کون جیتے گا اورکون پیچھے رہیں گے۔ میدان سجتا ہے تو کسی کی جیت ہوتی ہے‘ کسی کی ہار۔بات تو وہ ہے کہ آپ نے میدان میں قدم رکھا‘ ہار جیت کا فیصلہ بعد میں ہوتا ہے اور جو اچھے شہسوار ہوں وہ ہار سے نہیں ڈرتے۔ وہ اس یقین پر جیتے ہیں کہ ہار بھی گئے تو وہ دن بھی آئے گا کہ میدان ماریں گے۔ اصل بہادری تو یہ ہوتی ہے۔ یہ کیا ہوا کہ بزدلوں والے عذر تراشے جائیں ‘ بہانہ خوری کو اپنا شیوہ بنا لیا جائے۔
یقین رکھنا چاہئے کہ ہم بزدل قوم نہیں۔میدان میں اترنے کا فیصلہ ہو گا نہ کہ بھاگنے کا۔معتوب جماعت نے بھی کچھ سبق سیکھا ہوگاکہ کہاں تک جانا چاہئے اور کہاں قدم رکنے چاہئیں۔معتوب جماعت تو امتحان سے گزر رہی ہے لیکن قوم کا امتحان بھی ختم ہونا چاہئے۔ فیصلہ وہی افضل ہوتا ہے جو عوام کا ہو ۔ جسے عوام چاہیں‘ جس پر عوام اعتماد کریں‘ اُس کو ہی اقتدار کی ذمہ داری سونپی جائے۔ یہ کیا ہوا کہ چلی ہوئی توپوں اور چلے ہوئے کارتوسوں پر تکیہ کیا جائے۔ ایسے تجربات کبھی پہلے کامیاب نہیں ہوئے‘ ان کے کرنے سے قوم کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ناکام تجربات اگر دہرائے جائیں تواُن سے کامیابی مل سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا ان کمزور خیالات کو ذہنوں سے نکلنا چاہئے اور ہمیں یقین ہے کہ جن کے ہاتھوں میں حکمرانی موجودہ وقت ہے‘ وہ کمزور خیالات کے روادار نہیں۔مضبوط فیصلے لیے جائیں گے‘ قوم کی بھلائی کا راستہ چنا جائے گا۔
کیا ہماری یہی قسمت ہے کہ ہم بحرانوں میں پھنسے رہیں؟ ہماری قومی پہچان ہمارے کشکول سے کچھ الگ بھی ہونی چاہئے۔ ہم سے جو بعد میں ملک آزاد ہوئے وہ کہاں پہنچ چکے ہیں‘ ہمیں کیا بیماری لاحق ہوئی کہ ہم اتنے پیچھے رہ گئے ہیں؟ناقص فیصلوں سے ہی اس قوم کا بیڑہ غرق ہوا ہے۔ لہٰذا لوہے سے زیادہ پکا یقین ہونا چاہئے کہ ناقص فیصلوں کو قوم نے خیرباد کہہ دیاہے۔بے جا کی تابعداری اورپسپائی ہماری تاریخ کی نشانیاں رہی ہوں گی‘ پر یہ روشیں ہماری تقدیر نہیں۔ ہماری انگلیوں میں اتنی ہمت ہے کہ ایک نئی تقدیرلکھی جائے۔دھڑکتے دل ہیں ‘ جذبہ ہے‘ سوچ ہے ‘ اپنی قسمت ہم خود لکھ سکتے ہیں‘ حالات کے سامنے مجبور ہوں گے لیکن حالات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہم میں ہے‘ نہیں بھی ہے تو ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ یہ صلاحیت ہم پیدا کرسکتے ہیں۔
انتخابات تو ایک چھوٹی سی منزل ہے‘ راستہ ہمارا لمبا ہے‘ قومی سفر نئی توانائیوں سے جاری رہے گا۔چھہتر سال ضائع کئے تو کیا ہوا؟ ہماری تاریخ ختم تو نہیں ہوئی‘ ابھی تو ایک لحاظ سے اُس کی ابتدا ہے۔ شکست و ریخت پیچھے کی باتیں ہونی چاہئیں‘ آگے کی طرف تو ہم نے نئے عزم سے چلنا ہے۔ حالات کو بہتر طریقے سے چلانا ہے‘ حکمرانی کا معیار بہتر کرنا ہے۔ قومی ماحول ایسا بنانا ہے کہ بددیانتی کرنے سے کم از کم خواص تو گھبرائیں۔ ایک زمانہ تھا جب رشوت خور کم تھے اور جو رشوت لیتے تھے تھوڑا چھپ کے ایسا کرتے تھے۔ یہاں تو ماحول ایسا بنا کہ رشوت خوری اور بددیانتی قومی اعزاز سمجھے جانے لگے۔ ایسی روشوں کو ختم نہیں کرنا‘ برباد کرنا ہے تاکہ اونچے عہدوں پر پہنچنے والے بددیانتی کا سوچ بھی نہ سکیں۔دیانت نیچے سے اوپر نہیں جاتی‘ اوپر مثال قائم ہوتی ہے جس کا اثر قوم پر پڑتا ہے۔بددیانت حکمران ہوں اور قوم دیانتدار ہو جائے‘ ایسا ناممکن ہے۔ جن کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہو وہ دیانت کی راہ پر چلیں تو معاشرہ بدلنے لگتا ہے۔جہاں چوروں اور ڈکیتوں کو بھرتی کرنا ہے وہاں بہتری کیسے آ سکتی ہے؟
قوم کا بہت ضیاع ہو چکا ہے‘ مزید بربادی کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے اُٹھیں اور ہمت کو اپنا شعار بنائیں۔ انتخابات کی راہ سے تمام عذر اور بہانے نکل جانے چاہئیں۔ سیاسی لیڈر جو بھی ہوں اُنہیں اب آگے کی طرف دیکھنا چاہئے۔ بہت ہو چکیں کمزورپالیسیاں‘ انہی سے تو ہمارا بیڑہ غرق ہوا ہے۔یہ ملک بربادی کیلئے تو نہیں بنا تھا۔