اب تو لگتا ہے فرار کے راستے بند ہو رہے ہیں اورانتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی ہے لگتا ہے کہ میدان ضرور سجے گا۔یہ درست ہے کہ ایک طرف تمام آسانیاں اکٹھی کی جائیں گی اور دوسری طرف جو رکاوٹیں چھوٹے ذہنوں میں آئیں‘ کھڑی کی جائیں گی۔کیا کہتے ہیں کہ عشق اور جنگ میں ہرچیز جائز ہوتی ہے اور یہاں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جنگ جاری ہے۔ پھر بھی جیسی رکاوٹیں بھی ہوں ایک بارمیدان بس سج جائے اور یہ جو انتخابی نشان کے بارے میں ہنرمندیاں دکھائی جا رہی ہیں یہ ختم ہو جائیں۔ لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں‘ جمہوریت تو یہی کہتی ہے۔یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں کی جمہوریت تھوڑی نرالی اورانوکھی ہوتی ہے پھر بھی ووٹوں کے علاوہ اورچارہ بھی کیا ہے۔ عذر تراشے گئے‘ بہانے بنائے گئے‘ مختلف تاویلیں دی گئیں لیکن فرارآخر کب تک؟
یہ اور بات ہے کہ ریٹرننگ افسران اس بار عدلیہ سے نہیں ہوں گے۔ مجھے کوئی سنا رہا تھاکہ چکوال میں ریٹرننگ آفیسر ڈی سی صاحبہ ہوں گی اور یہ جوہمارا این اے کا حلقہ 58 ہے اس کے اسسٹنٹ ریٹرنگ آفیسر جناب ایکسین ہائی وے ہوں گے۔ یہ بھی پھر دیکھ لیتے ہیں کہ ایکسین ہائی وے صاحب کے تحت الیکشن کیسے ہوگا۔ دعا صرف اتنی ہے کہ ہائی وے کا محکمہ جو حال سڑکوں کا کرتا ہے وہ الیکشن کا نہ کرے۔ ویسے ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ جی دار قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور کم از کم مجھے یقین ہے کہ ہمارے اسسٹنٹ ریٹرنگ آفیسر صاحب کے تحت انتخابات مثالی ہوں گے۔اپنی زندگی میں کافی الیکشن بھگت چکے ہیں اوربہت کچھ دیکھا ہے لیکن یہ جو ماحول ہے ایسا پاکستان میں کبھی نہیں رہا۔ نوٹ کرنے والے یہ نوٹ فرما لیں کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آج کے حالات اچھے ہیں یا برُے ، بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ آج کل کے حالات منفرد نوعیت کے ہیں۔ تو بس ٹھیک ہے، فکر کاہے کی، فکر تو اوروں کو لگی ہوئی ہے کہ پتا نہیں پرچی ڈالنے کا وقت آتا ہے توعوام کا مزاج کیا ہوتاہے۔دیگچے پہ ڈھکن دبائے رکھیں تو بھاپ بن جاتی ہے، اس لئے عقلمندی اسی میں ہے کہ ڈھکن کو تھوڑا ہٹا لیا جائے تاکہ بھاپ زیادہ زور نہ پکڑے۔الیکشن ہوں گے تو قوم کا بھلا ہوگا، لوگوں کو اپنی رائے دینے کا ایک موقع ملے گا۔پاکستان بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے، یہ جو سولہ ماہ گزرے عوام پر بھاری گزرے تھے۔ اب کچھ آگے جانے کی ضرورت ہے ، بھنور سے نکلیں اورآگے کی سوچیں۔
میرا پہلا الیکشن 1997ء کا صوبائی الیکشن تھا۔(ن) لیگ کے ٹکٹ پہ لڑا تھا اورمیرے مدمقابل بہت مضبوط حیثیت رکھتے تھے۔ جیب میں اتنا کچھ تھا بھی نہیں کیونکہ اسلام آباد میں زیادہ وقت گزرتا تھا‘ چکوال کا ڈیرہ بھی اتنی صحیح حالت میں نہ تھا۔ ڈرائیور نہیں ہوا کرتا تھا، خودکار چلاتا تھا۔ کریڈٹ کارڈپاکستان میں نئے نئے روشناس ہوئے تھے، کریڈٹ کارڈپر کچھ ایڈوانس پیسے لئے اور چکوال کی طرف ہو لیا۔ ہمارا صوبائی حلقہ ایسا ہے کہ کچھ یونین کونسلیں چکوال میں ہیں اورکچھ تلہ گنگ میں۔ تلہ گنگ کی واقفیت ہی نہیں تھی‘ سڑکوں تک کی پہچان نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ جانکاری آتی گئی اور صبح سے شام ادھراُدھر لگے رہتے تھے۔ بہت سخت الیکشن تھالیکن دریاپار ہم کر ہی گئے۔
مسئلہ یہ تھا کہ ہماری انگریزی کالم نگاری کے دن تھے، اسلام آباد میں اچھا بھلا رہتے تھے۔ باہر کے صحافی آتے ہم سے انٹرویو لیتے ، سفارتی تقاریب میں ہم جاتے، باہر کے سفارتکار ہم سے ملکی حالات کے بارے میں پوچھتے۔ وہ زندگی بالکل مختلف تھی اورصوبائی ٹکٹ لے کر ہم تلہ گنگ اور اپنے چکوال کے علاقے میں مارے مارے ایک گاؤں سے دوسرے پھر رہے تھے۔کامیابی نصیب ہوئی تو پنجاب اسمبلی میں پہنچے اور دیکھتے کیا ہیں کہ247کے ایوان میں (ن) لیگ کی پارلیمانی پارٹی کی تعداد 202 ہے۔ یعنی ایک بڑے ریوڑ میں ہماری چھوٹی سی حیثیت تھی۔پیچھے مڑ کر اسلام آباد کی طرف دیکھتے توذہن میں خیال اُٹھتاکہ کیا حماقت کی ہے، اچھی بھلی زندگی چھوڑ کر (ن) لیگ کے ریوڑ میں داخل ہو گئے ہیں۔ 1998ء میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہونے تھے، چکوال میں بھرپور طریقے سے اُس انتخاب میں حصہ لیا اورمیری زیرکمان ایک اچھاخاصا گروپ بن گیا۔ ہمارے ہی گروپ کی وجہ سے ضلع کی چیئرمینی جنرل مجید ملک مرحوم کے ہاتھ نہ آئی۔ اس سے پہلے اُنہی کا حکم چلتا تھااورہم پہلے تھے جنہوں نے اپنی راہ چنی۔بلدیاتی انتخابات ہو گئے توسوچا کہ اس ریوڑ کے کام سے نکلا جائے۔ پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری ہوا کرتے تھے نجم الثاقب صاحب، اُن کے پاس گیا اوراُنہیں اپنا استعفیٰ تھمادیا۔میاں شہباز شریف نے مجھے ماڈل ٹاؤن بلایا، فون پر میں نے کہا کہ جب میں نے ا ستعفیٰ دے دیا ہے تو ایسی ملاقات مناسب نہ رہے گی۔ اُنہوں نے کہا: عجیب بات ہے ملنے سے بھی انکاری ہو؟میں نے پھر وہی کہا کہ مناسب نہیں رہے گا۔
کچھ عرصہ بعد مشرف صاحب نے (ن) لیگ کی حکومت کی چھٹی کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے (ق) لیگ بن گئی اورجو پہلی کھیپ اُس پارٹی میں گئی اُس میں ہمارے جنرل مجید ملک مرحوم شامل تھے۔ جنرل صاحب کی (ن) لیگ میں بڑی حیثیت تھی، وفاقی وزیر تو تھے ہی لیکن اس کے علاوہ ان کی بات سنی جاتی تھی، ان کا بہت احترام تھا۔ لیکن جوں ہی وقت بدلا اُنہوں نے جانے کی دیر نہ کی۔ ایک سال بعد مشرف حکومت نے ضلعی ناظموں والا نظام متعارف کرایا۔ ناظموں کا انتخاب ہوا تواپنے اپنے ضلعوں میں اُن کی ایک بہت طاقتور حیثیت بن گئی۔ سارے ناظمین (ق) لیگ میں تھے، چکوال میں جو (ن) لیگ کے تھَم سمجھے جاتے تھے‘ وہ بھی (ق) لیگ میں جاچکے تھے، یعنی (ن) لیگ تھوڑی نہتی ہو گئی تھی۔ ایسے میں 2002ء کے انتخابات آئے۔ صحافت ہماری اچھی بھلی چل رہی تھی لیکن چکوال کی سیاست میں ایک عدم توازن کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ (ن) لیگ سے پرانا رشتہ توتھا ہی، میدان خالی ہوا تو دوست لوگوں نے کہا کہ میدان میں ضرور آنا چاہئے۔ مشکل حالات کا الیکشن تھا کیونکہ تمام بڑی قوتیں ایک طرف تھیں لیکن مزے کا انتخاب رہااور (ن) لیگ نے خوب اپنے وجود کا احساس دلایا۔البتہ مجموعی حالت یہ تھی کہ تلہ گنگ سے (ن) لیگ کو کوئی قومی امیدوار نہ مل سکا۔ حالانکہ وہاں بھی بڑے بڑے (ن) لیگ کے برُج ہوا کرتے تھے۔ ہار توہم گئے لیکن تھوڑے ووٹوں سے اور کم از کم چکوال میں یہ تاثررہا کہ ہارنے سے زیادہ ہرائے گئے تھے۔چودہ پندرہ سو ووٹوں کا فرق ہم میں اورجیتنے والے امیدوارمیں تھا۔
2008ء کے الیکشن میں تو میں جیت گیا اورسچ تو یہ ہے کہ اُس جیت کی بنیاد 2002ء کا الیکشن تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک تو اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا چاہئے اور دوئم میدان چھوڑنا نہیں چاہئے۔میں نے بڑے سیاستدان دیکھے ہیں جو الیکشن میں ہارتے گئے لیکن ہمت نہ ہاری اور آخرکار کامیاب ہوئے۔ گورنرالطاف حسین جہلم سے پانچ چھ انتخابات تواتر سے ہارے تھے لیکن ہر بار انتخابی میدان میں قدم رکھے اور 1990ء میں جب پیپلز پارٹی کو پنجاب سے برُی طرح شکست ہوئی جہلم سے چوہدری الطاف حسین پی پی پی کی ٹکٹ پر جیت گئے۔وہ سیٹ جیتے اور پھر 1993ء میں گورنرپنجاب بن گئے۔ راجہ پرویز اشرف کا حلقہ ہمارے پاس لگتا ہے۔ ایک دو انتخابات ہارے لیکن ہمت نہ ہاری اورپھر کامیاب ہوئے اور اب اُن کا نام چلتاہے۔
الیکشن کا میدان پھر سے سج رہا ہے۔ مشکل حالات ہیں لیکن ایسے حالات میں ہی تو مقابلے کا مزہ آتا ہے۔ آج چکوال کی بیشتربڑی توپیں (ن) لیگ میں ہیں لیکن کیا میدان خالی چھوڑا جائے؟