چکوال تحصیل کا ایک این اے کا حلقہ ہے اور اُس کے نیچے دوصوبائی سیٹیں ہیں۔ جمعہ کے روز ان دوصوبائی سیٹوں کیلئے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے نمائندے متعلقہ ریٹرننگ افسروں کے دفتروں میں کاغذات جمع کرانے کیلئے انتظار کرتے رہے۔ دن گزرتا گیا ریٹرننگ افسران‘ جو کہ دو اسسٹنٹ کمشنر ہیں‘ اپنے دفتروں سے غائب رہے۔ حکام داد کے مستحق ہیں کیونکہ پاکستانی تاریخ میں انتخابات کو رگڑا دینے کا یہ سب سے نرالا انداز ہے۔دھاندلی تو دور کی بات ہے یہ ایک پیارا انداز نہیں کہ کاغذات داخل ہی نہ ہوں؟
کہیں پہ کاغذات چھینے جا رہے ہیں۔ جمعہ کے روز ہی چوہدری پرویز الٰہی کے نمائندوں کو تلہ گنگ سے کاغذات داخل نہیں کرانے دیے گئے اوراُن کے ایک وکیل کو تھانے بٹھا دیا گیا۔ گجرات سے اُن کے کاغذات داخل ہو گئے ہیں لیکن جمعہ تک تلہ گنگ سے نہ ہوسکے۔(ن) لیگ کی پرُزور ڈیمانڈ پر کاغذات جمع کرانے کا وقت دو دن بڑھا دیا گیا ہے لیکن یہ سہولت خاص (ن) لیگ کیلئے ہے کیونکہ مختلف حلقوں میں اُن کے اندرونی جھگڑے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ دو دن کی مہلت ملنے سے اپنے معاملات سلجھانے کا مزید موقع مل جائے گا۔ پی ٹی آئی کو اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ جمعہ کے روز اگر ریٹرننگ افسران غائب تھے تو خدشہ رہے گا کہ اگلے دو دن بھی ایسا ہی نہ ہوتا رہے ۔
بڑا سوال البتہ یہ ہے کہ یہ الیکشن کا تردد کیوں کیا جا رہا ہے؟ دلوں میں اتنی بے قراری ہے تو سیدھا بلایا جائے اوروزیراعظم کا حلف لے لیا جائے۔ کاکڑ صاحب کسی اور محاذ پر قومی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔میاں صاحب ہوں یا کوئی اور‘ اگر کوئی بات طے ہے تواُسے پورا کیا جائے‘ ہیجانی کیفیت میں قوم کو مبتلا کرنے کا کیا فائدہ؟ ووٹر جہاں کھڑا ہے وہ سب کو پتا ہے‘ میں نے تو اپنی گناہگار آنکھوں سے تین چار روز دیکھ لیا ہے کہ زمین پر کیا کیفیت ہے۔یہ لکھ کے رکھ لیں کہ جو مرضی ہو جائے ووٹر وہیں رہے گا جہاں کھڑا ہے اور یہ بھی کہتا چلوں کہ جواصل کیفیت زمین پر ہے وہ تمام اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کسی کو چبھانے کیلئے میں یہ نہیں کہہ رہا صرف حقیقت کو بیان کررہا ہوں۔
آزاد الیکشن ہوں ‘ جاری ہنرمندیوں کو کچھ کم کیا جائے ‘ تو ووٹنگ کے دن وہ ہوگا جو اَب تک کسی نے دیکھا نہیں۔ ووٹنگ کے حوالے سے جومقبولیت پیپلز پارٹی کی 1970ء میں تھی اس سے کہیں بڑھ کر یہ حالت اب یہاں پنجاب اور کے پی کے میں ہے۔پختونوں کے بارے میں تو کچھ کہنا ہی نہیں چاہئے‘ اُن کے دلوں کا حال سب کو معلوم ہے۔اُنہوں نے فیصلہ کیا کرنا تھا اُن کے دلوں پر ایک عبارت لکھی جا چکی ہے۔ٹی وی اینکرز کو اپنے سٹوڈیوز سے نکل کر بازاروں اور کھیتوں میں جانا چاہئے‘ اُنہیں سب معلوم ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہوتا تو یہ سب کچھ جو کیا جارہا ہے اس کے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟دلوں میں وسوسے نہیں اندیشے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان اندیشوں کا کیاعلاج کیا جائے؟
انتظامی افسران جو ریٹرننگ افسر لگائے گئے ہیں‘ اُن کے بارے میں جو خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے‘ بالکل درست نکل رہے ہیں۔ڈی سی او لوگ صوبائی حکومت کے اشاروں پر چلتے ہیں۔غیرجانبداری کی اُن سے کون سی توقع کی جاسکتی ہے؟ اور جہاں تک اسسٹنٹ ریٹرننگ افسر ہیں وہ اسسٹنٹ کمشنر قسم کے لو گ لگائے گئے ہیں‘ وہ وہی کریں گے جو اُن کاڈی سی او کہے گا۔ اُنہیں اشارہ ملتا ہے کہ دفتروں سے غائب ہو جاؤ تو وہ ایسا ہی کریں گے۔ہماری عدلیہ میں لاکھ قباحتیں ہوں گی لیکن جج صاحبان ایسا نہیں کرتے جیسا کہ یہاں دیکھا جا رہا ہے۔ اسی لیے کہا کہ سارے تردد کی ضرورت کیا ہے؟ جس کے سر پر خالص ٹین کا تاج پہنانا ہے وہ اعزاز اُسے دے دیا جائے۔
من مانیاں تو کی جا رہی ہیں لیکن تمام ہنرمند یوں کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔بنیادی مقصد تو تھا ایک جماعت کا علاج کہ اُس کا نام کوئی نہ لے ۔ یہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ دوسرا مقصداس جماعت کے لیڈر کو توڑنے کا تھا۔ کیا وہ ٹوٹا ہے؟ جیل سے گھبرا گیا ہے؟ کیسی کیسی افواہ ساز فیکٹریاں چالو کی گئی تھیں کہ ایک دن جیل سہہ نہیں سکے گا۔ پریشانی ہی اسی لیے ہے کہ یہ سب بیکار کی باتیں نکلیں۔ توڑنا تو دور کی بات اندر سے معلومات جو آتی ہیں اُن سے عیاں ہوتا ہے کہ جیل ایسے کاٹی جا رہی ہے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ کوئی رونا دھونا نہیں ‘ کوئی شکایت وغیرہ نہیں‘ کوئی ایسا واویلا نہیں کہ پلیٹ لیٹس کی کمی ہو رہی ہے اور جان خطرے میں ہے۔ کوئی استدعا نہیں کہ علاج کیلئے باہر جانا ناگزیر ہے۔ باہر جانا تو دور کی بات یہ صدا بھی نہیں کہ کسی مقامی ہسپتال ہی لے جایا جائے۔ پولیس بھی تنگ آئی پڑی ہے۔ حکم ملتا ہے تواُس پر عمل کرنا پڑتا ہے لیکن کئی جگہوں پر ایسا بھی ہوا ہے کہ کہیں جانا ہو تورسمی کارروائی پوری کرکے پولیس واپس آ جاتی ہے۔ پولیس کا تو کوئی بیر نہیں ان لوگوں سے۔ جو کچھ ہورہا ہے جہاں سب کے سامنے واضح ہے پولیس کا جوان بھی دیکھتا ہے کہ ملک میں کیا تماشا لگا ہوا ہے۔
ایسے میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ کا یہ فیصلہ آنا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی سائفر کیس میں ضمانت پر رہاہونے کے حقدارہیں‘ کسی دھماکے سے کم نہیں۔ بینچ کے فاضل جج صاحبان کے الفاظ ایسے ہیں کہ سائفر کیس کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے۔یہ توقع رکھنا کہ دونوں رہنما رہا ہو جائیں گے آج کل کے تناظر میں بیوقوفی ہوگی کیونکہ ایک کیس سے جان چھوٹی توکچھ اور اُن پر تھوپ دیا جائے گا۔ بہت سے ورکر اور رہنما جن کو عدالتوں سے ضمانتیں ملتی ہیں اُن پریا تو فوراً ہی ایک نیا مقدمہ بنادیا جاتا ہے یا 3ایم پی اوٹھوک دیا جاتا ہے۔ 3ایم پی او کو ڈاک کا ٹکٹ بنادیا گیا ہے‘ جہاں ضرورت ہو وہاں لگا دیاجائے۔ ہمارے دوست اخترشہباز ایک صوبائی حلقے سے کاغذات داخل کرکے فارغ ہوئے تو کلرکہار پولیس نے اُنہیں دھر لیا اور کچھ دیر بعد پتا چلا کہ3 ایم پی او کا ڈاک کا ٹکٹ اُن پر چسپاں کردیا گیاہے۔ یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ ملک کی حالت کیا ہے اور یہ کھیل جاری ہیں۔ان سے حاصل کیا ہوگا اور یہ تناؤ کی کیفیت کتنے عرصے کیلئے قائم رکھی جاسکتی ہے؟ اوپر سے ایسی حرکتیں کہ بلوچستان سے چل کر احتجاج کرنے والے اسلام آباد پہنچتے ہیں تواُن پر پولیس ٹوٹ پڑتی ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اسلام آباد پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔ یہ کیا تاثر لے کے جائیں گے؟ کچھ تو عقلمندی سے کام لیاجائے۔ بلوچستان کے حالات ہم نہیں جانتے کیا ہیں؟ پھر جلتی پر تیل ڈالنا کون سی دانش مندی ہے؟
ایک بار پھر یاد دلادوں کہ ہمارا علاقہ فوجی علاقہ ہے۔ ہرگھر نہیں توہر دوسرے گھر سے کوئی نہ کوئی یا تو فوج میں ہے یا فوج کا پنشنر ہے۔ کتنی بار میں کہہ چکا ہوں کہ ضلع چکوال کا کوئی قبرستان نہیں جس میں ایک یا ایک سے زیادہ شہدا کی قبریں نہ ہوں۔ ہمارے ساتھ لگنے والے اضلاع اورکوہاٹ اور بنوں تک یہ سارا کا سارا فوجی علاقہ ہے۔ کیا ہم لوگ چاہیں گے کہ جو عمومی کیفیت آج کل مادرِوطن کی ہے وہ ایسی ہی رہے؟ اس موضوع پر بہت کچھ کہاجاسکتا ہے لیکن تھوڑے کو ہی بہت سمجھا جائے۔سپریم کورٹ بھی کہہ اُٹھی ہے کہ الیکشن کے نام پر یکطرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں۔