"AYA" (space) message & send to 7575

نئے سال کا آغاز اس بھرپور تماشے سے

خداخیر کرے‘ آغاز ایسا تو نجانے اختتام کیا ہوگا۔ بڑے الیکشن دیکھے ہیں پر اس جیسا لطیفوں سے بھراالیکشن دیکھنے کا نہ اتفاق ہوا نہ تجربہ۔ لطیفوں کا شمار کیسے کریں؟ چارصفحات کے فیصلے سے ہمارے کاغذات مسترد ہوئے ۔ اسلام آباد میں ہمارے وکیل ہنسنے لگے کہ آپ کا آر او‘ جو ہمارے ضلع کے ایکسین ہائی وے ہیں‘ چارسطور بھی لکھ لیں تواُن کی ذہانت اور قابلیت کومان لیں۔ اعتراضات بھی چارپانچ صفحات پر مشتمل تھے اور فیصلہ بھی لمبا چوڑا تھا۔اندازہ لگائیے‘ ایسے تماشوں کے کرنے پر کتنی توانائی صرف ہوئی ہو گی۔ اور یہ ایک حلقے کی بات ہے‘ تمام حلقوں کی ہنرمندیوں کو اکٹھا کیا جائے تو توانائی صرف ہونے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکے گا۔
بہرحال یہ تماشے ہو رہے ہیں اورہم دیکھ ہی سکتے ہیں۔ ہمارے وکیل صاحب کہہ رہے تھے کہ بیشتر کاغذات منظور کر لیے جائیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس ساری مشق کا مقصد کیا تھا؟ یوں بھی دیکھا جائے کہ جو دو بڑے مقاصد ہمارے کرم فرماؤں کے سامنے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ معتوب پارٹی اب بھی زندہ ہے‘ مری نہیں۔ اوپر کے پرندے ادھر اُدھر گئے ہوں گے‘ اس کے حامی وہیں کھڑے ہیں جہاں تھے اور اس پوزیشن سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے۔ اور معتوب پارٹی کے لیڈر کے بارے میں جو کہا جا رہا تھا کہ ایک دن جیل میں نہیں گزار سکے گا‘ وہ بات بھی غلط ثابت ہو گئی ہے۔ چیخ و پکار کیا‘ دھیمی سی آواز بھی نہیں آ رہی کہ برے حالات میں رکھا گیا ہے یا صحت خراب ہو رہی ہے۔ مانیٹرنگ تو اُن کی مکمل ہو رہی ہو گی۔ مانیٹرنگ کا جائزہ لینے والے بھی پریشان نہ ہوں گے کہ چہرے پر ذرا برابر بھی شکست کے آثار نظر نہیں آئے؟ تو پھر پوچھا جائے کہ آخر یہ سب کرنے کا مقصد کیا ہے؟ معتوب جماعت کو امتحان میں کیا ڈالنا تھا‘ پوری قوم امتحان میں ڈال دی گئی۔ وہ اس لیے کہ کچھ نظر نہیں آ رہا کہ قوم و ملک کو لے جانا کہاں ہے۔
الیکشن عمل کے گرد جو تماشے گھمائے جا رہے ہیں اُنہیں تھوڑا سا بھی ختم کیا جائے اور تھوڑے سے آزاد ماحول میں الیکشن کرائے جائیں تو نتیجہ سامنے آ جائے گا۔ قدغنوں اور تماشوں سے زیادہ طاقتور دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ کرم فرما الیکشنوں کے نتائج کے بارے میں مطمئن نہیں۔ مطمئن ہوتے تو اتنی قلا بازیاں لگانے کی ضرورت کیا تھی؟ وسوسے ہیں کہ یہ نہ ہو جائے‘ وہ نہ ہو جائے‘ فلاں حلقے سے فلاں شخص الیکشن میں آگے نہ آ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ عزت مآب ریٹرننگ افسروں کو ایک تیز دھار تلوار کی طرح استعمال کیا گیا۔ امیدوار جو تھوڑا سا نام بھی رکھتے تھے‘ اُن کے کاغذات پر اس تلوار کا وار ہوا۔ لیکن یہاں ایک پرابلم ہے‘ من مانیاں تو ہو رہی ہیں لیکن جو سب کچھ کرنا چاہ رہے ہیں اُن کا مکمل کنٹرول ہر چیز پر نہیں ہے۔ عدلیہ کی طرف سے کچھ ایسے فیصلے آ جاتے ہیں جن سے یقینا اگلوں کے دلوں میں خوشی کی لہر نہ اٹھتی ہو گی۔ الیکشن کا عمل بھی جو ہے اس میں اب اپیلیں بیلٹ ٹربیونلوں کے سامنے دائر کی جا رہی ہیں۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بہت سی اپیلیں منظور ہو جائیں گی۔ ایسا ہوا تو پھر تیز دھار تلوار اوراُس کے وار کا فائدہ کیا ہوا؟ جس پارٹی کو دبانا مقصود تھا وہ محتاط تو ہو گئی ہو گی لیکن دبی نہیں۔ زندگی کے آثار اب بھی اُس میں موجود ہیں۔ بس موقع کا انتظار ہے‘ ووٹنگ کا انتظار ہے کہ پرچی ڈالنے کا عمل آئے تو سہی۔
جہاں تک سرکاری اشیرباد حاصل کرنے والی جماعت کا تعلق ہے اُس میں رکھا کیا ہے؟ تگڑے تگڑے امیدوار اس جماعت میں اب بھی ہیں‘ ایک ووٹ بینک بھی اس جماعت کا ہے لیکن یہ جماعت قوم کے کندھوں پر پچھلے لگ بھگ پچاس سال سے مسلط ہے۔ اس جماعت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں‘ کوئی سوچ نہیں‘ آئندہ کا کوئی لائحہ عمل ذہنوں میں نہیں۔ اس جماعت کی پھر سے جو آبیاری کی جا رہی ہے‘ اُس سے کیا حاصل ہوگا؟ سولہ اٹھارہ ماہ شہباز شریف کی کارکردگی قوم بھگت چکی ہے۔ اُس حکومت کی قابلیت اور کارکردگی ایسے تھی کہ قوم کی چیخیں نکل گئیں۔ اب پتا نہیں کیا منصوبہ ہے کہ کس کو اقتدار میں لانا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ جنہوں نے آخری فیصلہ کرنا ہے وہ انہیں بخوبی جانتے ہیں۔ ان کو اقتدار میں لانے کا رسک نہیں لیا جائے گا کیونکہ میاں صاحب کے بارے میں جاننے والے جانتے ہیں کہ اُن کی فطرت میں پھڈا لکھا ہوا ہے۔ بے جا کے پھڈوں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کے بارے میں تو وہ کہاوت مشہور ہے کہ تیر کہیں دور ہوا میں ہو تو ان کے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے کہ چھلانگ لگا کر اُسے پکڑا جائے۔ ویسے بھی یہ سارے چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ پاکستان کے مسائل گمبھیر ہو چکے ہیں۔ ان پرانی توپوں کو پھر سے استعمال میں لانے کا کیا فائدہ؟
ایک بات طے ہے‘ ہم سیانی قوم ثابت نہیں ہوئے۔ بہت خوبیاں ہوں گی ہم میں لیکن اپنی قوم کا کچھ ہم بنا نہ سکے۔ قوم کو صحیح سمت پر ڈال نہ سکے۔ اچھے لیڈر ہمیں میسر نہ آئے اور جو کوئی اچھا ثابت ہوتا ہے یا جس کے بارے میں یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ وہ اچھا ثابت ہو سکتا ہے‘ اُسے ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ بھٹو جیسا کوئی ذہین ہو وہ ہمیں برداشت نہیں۔ کوئی مقبول لیڈر بن جائے جو عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جائے‘ وہ ہمیں قبول نہیں۔ شاید ہمارا شغف نکمے پن سے بہت ہو چکا ہے۔ اوسط درجے کی صلاحیتیں رکھنے والے یعنی جنہیں انگریزی میں میڈیوکر (mediocre) کہتے ہیں‘ وہی ہمیں پسند ہیں۔ شاید میاں نواز شریف کی قبولیت کا یہی راز ہے کہ کسی امریکی صدر کے سامنے چار جملے ادا کرنے ہوں تو کاغذ کی ایک پوری تھدی پھرولتے ہیں۔ اور بارک اوباما اُن کی طرف حیرانی سے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ یہ صاحب کر کیا رہے ہیں۔
پتا نہیں کہاں ہم پہنچ چکے ہیں اور کتنے مزید امتحان ہماری قسمت میں لکھے ہیں۔ ان الیکشنوں میں کون کون سے تماشے ہو رہے ہیں وہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہنسی کا مقام ہے یا رونے کا۔ مزید اور تماشے کیا ہونے ہیں‘ کیا کہا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے ہمارے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی کی کہ ہمیں ایک جمہوری ڈھانچہ دے گئے۔ جمہوریت ہم سے چلتی نہیں اور جب جمہوری عمل کے نتائج ہمارے مزاج یا ہماری چاہت کے مطابق نہ ہوں تو ہمیں بخارچڑھ جاتا ہے۔ ایک تو انگریز ہمیں جمہوری ڈھانچہ نہ دیتے اور دوسرا یہ کہ 73ء کا آئین مرتب نہ ہوتا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ہی معاملات چلائے جاتے تو شاید ہمارے لیے بہتر ہوتا۔ کہنے کو 1973ء کا آئین موجود ہے لیکن سچ پوچھا جائے ہمارے بڑوں کا مزاج اس کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ ہماری حکمرانی کی ذہنیت تھانیداری ہے اور جس کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو اُس کا من یہی چاہتا ہے کہ تھانیداری سے کام چلایا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تھانیداری کرتے کرتے قوم کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ ہرشعبے میں تنزلی‘ ہر محاذ پر ناکامی۔ عملاً ہمارا قومی نشان کشکول بن چکا ہے۔ کس کس دروازے پر ہم نے دستک نہیں دی؟ اگلے بھی ہمیں دور سے دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں۔ لیکن کرنی ہم نے اپنی مرضی ہے‘ چاہے نقصان اُس کا جو بھی ہو۔
ایک بات البتہ ماننی پڑے گی‘ کتنے ہیں جن کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے لیکن ٹوٹے نہیں۔ جہاں اتنی بے چارگی ہے وہاں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے سر جھکے نہیں۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ اور اس امر کی دلیل ہے کہ تمام مصیبتوں کے باوجود اِتنی بھی گئی گزری قوم نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں