جب رات کے اندھیروں نے اپنے جلوے دکھانا شروع کیے اور اس عظیم اور اپنی نوعیت کے منفرد الیکشن کے نتائج آنے لگے تو میں نے دوستوں سے پوچھا ''سواد آ گیا اے؟‘‘ اور موجود تمام احباب نے یک زبان ہو کر کہا : چس آ گئی اے۔ ہماری رنگین اور پُرآشوب تاریخ میں رات کے اندھیرے جلوے دکھاتے رہے ہیں لیکن اس اسلوب اور ادا سے پہلے کبھی نہیں۔ حسنِ کارکردگی تو بہتوں کی بنتی ہے لیکن تمغے تھوڑے پڑ جائیں گے اور داستان ختم نہ ہو گی۔
اندھیروں کی کارکردگی بجا لانے والے کمشنر راولپنڈی نے اپنی لایعنی باتیں کیں تو ایک طوفان سا برپا ہو گیا لیکن جلد ہی اُس طوفان پر قابو پانے کی کوشش کی گئی۔ نئے کمشنر فوراً تعینات ہو گئے اور اُن کے حضور راولپنڈی ڈویژن کے چاروں ڈی سی اوز کیمروں کی نظر کے سامنے دکھائے گئے۔ لٹکے چہروں اور جھکی نظروں سے باری باری سب نے بیان فرمایا کہ الیکشن نہایت ہی شفاف طریقے سے ہوئے ہیں اور ہیرا پھیری کا دور سے بھی شائبہ ان میں نہیں ملتا۔ ڈی سی اوز میں ہماری چکوال کی ڈی سی بھی تھیں جن کی شکل کو دیکھ کر وہ مصرع یاد آیا کہ تم خود سیانے ہو شاکر‘ ہماری شکلیں دیکھ حالات نہ پوچھ۔ چکوال کے حوالے سے ایک تمغہ ڈی سی صاحبہ کو جاتا ہے اور دوسرا ڈی پی اوکو ۔ اس منفرد الیکشن کے تمام عمل میں انہیں نہ تو کچھ نظر آیا نہ انہوں نے کچھ دیکھا۔ کرم فرماؤں کے ہوتے ہوئے بیچارے کرتے بھی کیا۔ جو کہا گیا اُسے کرنے کے سوا اور چارہ بھی کیا تھا؟ لیکن فرمانبرداری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‘ یہاں تمام حدیں پھلانک دی گئیں۔ ایک دفعہ جب مشکوک اور معتوب پارٹی کے ورکروں کے گھروں پر پولیس کچھ زیادہ ہی مہربانی فرما رہی تھی تو میں ڈی پی او کے پاس گیا اور کہا کہ سنا ہے ہر جمعہ کی نماز کے بعد آپ دفتر میں تلاوت کراتے ہیں‘ بڑی اچھی بات ہے لیکن تلاوت کا اثر کبھی اعمال پر بھی پڑتا ہے؟ دفتر میں اور لوگ بھی موجود تھے اورڈی پی او نے اتنی سمجھداری کا مظاہرہ کیا کہ آگے سے چپ رہے۔
ہمارا چکوال والا گھر‘ جو عین تلہ گنگ روڈ پر واقع ہے اور تاریخی چھپڑ بازار کے قریب ہے‘ اُسی کو ہم نے اپنا دفتر بنایا تھا۔ ساتھ ہی بھون چوک ہے اوراس چوک کے بالکل سامنے سرکاری اشیرباد والی لیگ کے ایم پی اے کے نمائندے کا گھر ہے۔ رات کے جلوؤں نے اپنا رنگ دکھایا تو امیدوار صاحب جو ہار رہے تھے‘ اچانک جیت کی طرف چلے گئے۔ اگلے روز کھمبوں پر اُن کے پوسٹر لگ گئے‘ اس عبارت کے ساتھ ''شکریہ چکوال‘‘۔ الیکشن میں کارفرما جادو کے بارے میں مَیں نے پریس کانفرنس کرنی تھی‘ دیگر باتوں کے علاوہ اُس میں یہ بھی کہا کہ شکریہ چکوال کے بجائے ''شکریہ نامعلوموں‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ ایک زوردار قہقہے کے سوا حاضرینِ پریس کانفرنس کا ردِعمل کیا ہو سکتا تھا؟
رات کی رعنائیوں کی وجہ سے چکوال اور تلہ گنگ سے جو ایم این اے منتخب قرار دیے گئے ہیں دونوں الحاج اور سنا ہے‘ پانچ وقت کے نمازی ہیں ۔ ہم تو مستند گناہگار ٹھہرے‘ بہت سی سعادتوں سے اب تک محروم ہیں‘ لہٰذا داد دینی پڑتی ہے ان حضرات کو کہ جو اُنہیں جیت عطا ہوئی اُسے قبول کرنے میں انہوں نے ذرا سی ہچکچاہٹ بھی نہ دکھائی۔ مصنوعی کرسیوں پر یہ جو سب براجمان ہو رہے ہیں‘ ان سب کی ہمت اوردلیری کی داد دینی پڑتی ہے۔ نئی چیف منسٹرصاحبہ کو دیکھ لیں ‘جو مہربانیاں اُن پر نزول ہو رہی ہیں وہ بھی اچھے فنکاروں کے دستِ ہنر کی وجہ سے ہیں لیکن بہادری دیکھئے کہ چہرۂ مبارک پر ندامت کی کوئی جھلک نظر نہ آئے گی۔ چچا جان کی کیفیت دیکھ لیجئے‘ وزیراعظم بننے جا رہے ہیں جبکہ اندھیروں کی مدد نہ ہوتی تو اپنی سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
مشکوک جماعت کے ساتھ تو جو ہونا تھا ہو چکا۔ سب کچھ سہہ لیا‘ جو بھی اُن پر ڈھایا گیا‘ اُسے برداشت کیا۔ اب اور اس جماعت کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن نہ چاہتے ہوئے اور رات کے جلوؤں کے ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی ‘ دونوں میں اچھی خاصی نشستیں جیت لی ہیں۔ اب وہ کیا آسانی سے اگلوں کو جینے دیں گے؟ تمام مہربانیوں کے باوجود سو کے قریب نشستیں اس جماعت کی قومی اسمبلی میں ہیں‘ یعنی تگڑی اور پُرجوش اپوزیشن ہو گی۔ جنابِ شہباز شریف کو سمجھ آ جائے گی کہ حکومت کیسے کرنی ہے۔ جہاں تک پنجاب میں وزیراعلیٰ صاحبہ کا تعلق ہے اُن کیلئے تو وہ ایک مریم کے پاپا والا نعرہ ہی کافی ہے۔ سو سے زیادہ نشستیں مشکوک جماعت کی پنجاب اسمبلی میں ہیں۔ فارم 45 اور 47کے زخم شدہ ممبران اس کے علاوہ ہیں۔ رات کے جلوؤں کا بخوبی جانتے ہوئے ان لوگوں نے تو شور مچائے رکھنا ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ کیا گُل کھلائے گئے۔ ایسے میں وہ چڑیا‘ جسے سیاسی استحکام کہتے ہیں‘ ہاتھ کیسے آئے گی؟ جس عمل کا آغاز اس کمال کی جادوگری سے ہوا ہو اُس کا اختتام کیا ہو سکتا ہے؟
حکمرانی کرنے کا اعتماد اندر سے آتا ہے۔ سونے کی خلعت کیوں نہ آپ کو پہنا دی جائے‘ دل میں چور ہو یا داڑھی میں تنکا تو اعتماد نام کی چیز چہرے پر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں دیکھئے لٹکے ہوئے چہرے نظر آتے ہیں۔ مبارک دینے والے تھوڑے تھوڑے سے شرمسار‘ مبارک لینے والے بھی بددل۔ اور جب میاں جاوید لطیف جیسے اپنے ہی یہ کہنے لگیں کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے تو مزید تبصرے کی گنجائش کیا رہ جاتی ہے؟ جاوید لطیف 1997ء کی پنجاب اسمبلی کے میرے ساتھی ہیں‘ بڑے جہاندیدہ انسان ہیں‘ الیکشن جیتتے آئے ہیں لیکن اس بار پاؤں پھسل گئے کیونکہ یہ سب لوگ سمجھے تھے کہ وسطی پنجاب ہمارا قلعہ ہے لیکن نئی ہواؤں کا اندازہ نہ لگا سکے اور وسطی پنجاب ہی میں پِٹ کے رہ گئے۔ راولپنڈی ڈویژن کے چار اضلاع کی اور بات ہے‘ یہ تو اگلوں کے کھاتے میں ڈالے ہوئے تھے اور اُنہوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے الیکشن کو نہایت خوبصورتی سے سنبھالا۔ البتہ یہ کہنا کہ ہم سے ہاتھ ہو گیا ہے‘ زیادتی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ میاں نواز شریف‘ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور مریم نواز کی خاطرخواہ مدد نہ فرمائی جاتی تو یہ سارے سیاسی افق کے چمکتے ستارے اپنی سیٹوں سے محروم ہو جاتے۔ جب آپ کا وقت گزر چکا ہو‘ عوام آپ کی شکلیں دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے ہوں‘ تو مددگار بھی کیا کر سکتے ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ کرم فرما بھی یہ نکتہ نہ سمجھ سکے۔ وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اتنی ٹکور کے بعد مشکوک جماعت کے ووٹر اتنے دبک کے رہ جائیں گے کہ ووٹ ڈالنے کی سکت بھی اُن میں نہ رہ جائے گی۔ کمبخت ووٹروں نے یہ سب باتیں خاک میں ملا دیں اور ووٹ ڈالنے ایسے نکلے کہ تمام سرکاری جمع تفریق دھری کی دھری رہ گئی۔
البتہ رات کے سوداگروں کا بھی کمال دیکھئے کہ جب عیاں ہو گیا کہ ووٹ کس طرف جا رہے ہیں تو پھر ریاضی کے ایسے جوہر دکھائے جانے لگے کہ ڈاکٹر عبدالسلام ہوتے تو وہ بھی دنگ رہ جاتے۔ بہرحال اس بات کا افسوس رہے گا کہ ہمارے دوست رانا ثناء اللہ کی اب تک ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں اور اپنے پرانے دبنگ انداز میں بات نہیں کر پا رہے۔ امید ہے وقت گزرنے کے ساتھ اُن کا پرانا اعتماد بحال ہو جائے گا۔ لیکن پنجاب اسمبلی میں کچھ کرنا پڑے گا کیونکہ پاپا کے نعرے لگتے رہے تو ماحول سنبھل نہ سکے گا۔ یقینا یہ نعرہ کسی خاص شرپسند کی ایجاد تھا۔