سوال یہ تھا کہ رمضان پیکیج کے تحت جو آٹے کی بوریاں آپ تقسیم کر رہے ہیں اُس پر نواز شریف کی فوٹو کیوں چسپاں ہے؟ اورمحترمہ جواب دیتی ہیں ''پنجاب حکومت کس کی ہے‘ نواز شریف کی‘ تھینک یو‘‘۔ سننے والے یقینا حیران ہوئے ہوں گے اور جواب پڑھیں تو بھی عجیب سا لگتا ہے۔ کوئی محترمہ کو سمجھا ہی دے کہ اول تو سرکاری پیسے سے خریدے ہوئے آٹے پر کسی کی تصویر لگانے کا تُک نہیں بنتا اور دوم‘ ایسی کارروائی کا اس انداز سے والہانہ جواز پیش کرنا بالکل ہی نہیں جچتا۔
لیکن بتائے کون؟ عظمیٰ بخاری نے تو ایسا نہیں کرنا کیونکہ اُن کی ساری سیاسی پونجی اس بات پر لگی ہوئی ہے کہ ہر ہاں میں ہاں ملانی ہے اور کوئی اقدام‘ چاہے وہ کتنا ہی بیوقوفانہ ہو‘ اُس کا بھرپور دفاع کرنا ہے۔ اورمریم اورنگزیب سے توقع کرنا کہ میڈم کی تصحیح فرمائیں گی بالکل ہی عبث ہے۔ میڈم کا اپوزیشن کے بارے میں بیان بھی سمجھداری سے خالی ہے۔ فرماتی ہیں کہ سیاست کی آڑ میں حالات کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کچل دی جائے گی۔ اُن سے پوچھا جائے کہ ابھی تو چار روز ہوئے ہیں مسندِ اقتدار پہ بیٹھے اور آپ نے ایسی لفظی توپیں چلانا شروع کر دی ہیں۔ جس قسم کے الیکشن تھے جس کے نتیجے میں آپ چیف منسٹر بنی ہیں وہ غیروں کو توچھوڑیے آپ خود بھی جانتی ہیں۔ پردہ داری تو اب رہی نہیں‘ پوری قوم جانتی ہے کہ ان الیکشنوں میں کیا ہوا۔ ایسے میں تھوڑا آرام سے بولیں تو زیادہ اچھا لگے گا۔ اور ویسے بھی نرمی سے کی ہوئی بات زیادہ اثر رکھتی ہے۔ آپ پنجاب کی کیتھرین دی گریٹ (Catherine the Great) بننا چاہتی ہیں تو ضرور بنیں لیکن گزارش صرف اتنی ہے کہ گفتار کو ذرا نرم رکھیں تو اسی میں بھلا ہے۔
عظمیٰ بخاری اور مریم اورنگزیب کو ایک طرف رکھیے‘ اُن کی اپنی مجبوریاں ہیں‘ لیکن ہمارے سینئر تجزیہ کار سلمان غنی صاحب کس مرض کی دوا ہیں؟ اُن سے گزارش ہے کہ جب بھی موقع ملے محترمہ کو کچھ بتائیں کہ اقتدار کی پہلی ضرورت قدم جمانے کی ہوتی ہے۔ وہ ذرا کر لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ نواب کالا باغ یا ملک غلام مصطفی کھر کی کتنی پیروی کرنی ہے۔ اس ضمن میں ہمارے محترم دوست عرفان صدیقی صاحب کا بھی کچھ فرض بنتا ہے۔ ہم اُن کے مستقل قاری ہیں لیکن کل کے کالم سے تھوڑا ڈر سا لگا کیونکہ فرماتے ہیں ''...حوصلہ پانے و الوں کو خبر ہو کہ نو مئی قانون کی تمام تر قوت سے لیس ہو کر حرکت میں آنے کو ہے‘‘۔ یہ تنبیہ تو اپنی جگہ لیکن حضورِ گرامی کا کچھ اور فریضہ بھی بنتا ہے۔ (ن) لیگ کی اُبھرتی ہوئی ستارہ‘ قائدِ لندن کی اصلی جانشین کو کچھ سمجھائیں کہ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کرسی سنبھالے ہوئے نہیں اور انہوں نے ایسی گھن گرج شروع کر دی ہے۔
ساری قوم نہیں تو کم از کم بیشتر قوم یہ جان چکی ہے کہ الیکشن کے بعد نمودار ہونے والا سیاسی نقشہ پچھلی پی ڈی ایم حکومت کا ایک تسلسل ہے۔ کچھ تبدیلیاں ضرور ہیں‘ ایک تو شکر ہے وزارتِ خزانہ کی جان اسحاق ڈار صاحب سے چُھٹ گئی۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ نواز شریف صاحب کی چلتی تو معیشت کا مزید بیڑا غرق کرنے کے لیے اُن کا ہاتھ ڈار صاحب کے کندھوں پر ہی پڑتا۔ لیکن وزارتِ خارجہ والے اپنی خیر منا لیں کیونکہ بازار میں خبر گرم ہے کہ ڈار صاحب کو مزید گُل کھلانے کے لیے وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا جا رہا ہے۔ خاصا بدقسمت ملک تو ہمارا ہے ہی لیکن اتنے بھی ہمارے گناہ کیا کہ ہمارا سلسلۂ تباہی کہیں بھی ختم نہ ہو۔ وزارتِ خارجہ اور عموماً امورِ خارجہ سے پہلے بھی بہت مہربانیاں ہو چکی ہیں۔ خدا ہی ہم پہ کچھ رحم کرے۔
بات البتہ ہو رہی تھی تسلسل کی اور تسلسل کی سب سے بڑی نشانی جناب محسن نقوی ہیں۔ اُن کا وزیر داخلہ بننا اس نازک بات کی عکاسی ہے کہ جو سلسلہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنے سے شروع ہوا تھا وہ جاری و ساری ہے۔ لہٰذا ان کی تقرری خاص طور پر اس منصب پر خاصے معنی رکھتی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں اور پھر نگرانوں کے دور میں ملک میں ایک ہی سیاسی فلسفہ کارفرما تھا کہ شرپسند جماعت کو کچلنا ہے۔ نقوی صاحب کی جگہ کوئی اور ہوتا پھر تو کسی مغالطے کی گنجائش تھی کہ شاید پی ٹی آئی کی طرف کچھ نرمی دکھائی جائے‘ لیکن ان کے ہوتے ہوئے کسی ایسی خوش فہمی کی جگہ نہیں رہتی۔ پوچھنا یہ بنتا ہے کہ جناب کس کے آدمی ہیں؟ ظاہراً اُن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں لیکن وہ انگریزی محاورہ کیا ہے کہ پہیوں کے بیچ میں پہیے چلتے ہیں۔ رہنے دیتے ہیں ایسی باتوں کو‘ جو آسانی سے سمجھ آئے وہی بات کرنی چاہئے۔
وقت گزرنے سے البتہ حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ جس تسلسل کا ذکر ہوا ہے اُس میں بھی کچھ تبدیلی نظر آتی ہے۔ جیسے بھی الیکشن ہوئے‘ جو بھی ہنرمندی اور زور آزمائی ان میں دکھائی گئی‘ ان زخم خوردہ الیکشنوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی اپنا لوہا منوانے اور سر اُٹھانے میں کامیاب تو ہوئی ہے۔ کے پی میں حکومت بن گئی ہے‘ علی امین گنڈاپور جیسا جوشیلا آدمی چیف منسٹر منتخب ہو گیا ہے۔ ہنرمندی تو بہت ہوئی جس کا اعتراف اب دنیا بھی کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کی خاطر خواہ تعداد قومی اسمبلی میں آ توگئی ہے۔ اور پنجاب میں بھی سب کچھ کرنے کے باوجود پی ٹی آئی کی ایک بھاری تعداد پنجاب اسمبلی کی سیٹوں پر براجمان ہے۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں اور یاد رہے کہ یہ اُس جماعت کی کامیابی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اسے کرش کر دیا جائے گا۔ یعنی تیارکی گئی سکرپٹ میں پی ٹی آئی کی اتنی گنجائش یقینا نہیں تھی لیکن سر پھرے عوام نے وہ کیا کہ محنت سے تیار کیا گیا سکرپٹ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی کے لیے ایک موقع ہے اور اس موقع سے اُس کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بیشک مقصود یہ تھا کہ پی ٹی آئی سیاست کی مین سٹریم سے باہر رہے لیکن اگلوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی مین سٹریم میں پی ٹی آئی آ تو گئی ہے۔ مثالی حالات پی ٹی آئی کے نہ ہوں گے... لیڈر پابند سلاسل ہے ‘ اَن گنت ورکروں بشمول خواتین پر مقدمات قائم ہیں‘ مزید برآں جنابِ عرفان صدیقی کی دھمکی ذہن نشین رہے... لیکن کچھ گنجائش تو پیدا ہوئی ہے اور اس گنجائش کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی کو اپنے لیے مزید جگہ پیدا کرنی چاہیے۔
یہ جگہ یا سپیس ٹکراؤ کی پالیسی سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے حکمت کی ضرورت ہے اور دانش مندی کی۔ اور وقت کا انتظار کرنا لازم ہے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ مختلف رنگوں پر مشتمل یہ پی ڈی ایم برانڈ ٹو حکومت موجودہ پیچیدہ حالات سے کیسے نبرد آزما ہوتی ہے اور کیا کر پاتی ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے اور یہ ثابت کرنا چاہیے کہ ملکی حالات کے بارے میں اُس کی سوچ (ن) لیگ اور پی پی پی سے کہیں افضل اور بہتر ہے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر پی ٹی آئی 'مریم کے پاپا‘ والے نعروں سے کچھ آگے نکلے۔ ان نعروں کی اپنی گونج اور افادیت لیکن اگر یہی پی ٹی آئی کے پاس رہ جائیں تو پھر وہ اپنے ساتھ ناانصافی کر رہی ہو گی۔ چور‘ چور کے نعروں کا ایک وقت تھا‘ پر اب حالات آگے کو نکل چکے ہیں۔
یا تو یہ نظام دھڑام سے زمین بوس ہو جائے پھر تو اور بات ہے‘ لیکن فی الحال ایسا ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے‘ لہٰذا وقت کا انتظار۔