کیا عجیب حالات ہیں‘ ہر روز اک نیا تماشا۔ صورتِ حال پہ کس کی گرفت ہے؟ کاغذی ٹکڑوں پر موجودہ حکومتی بندوبست کھڑا ہے‘ ان ٹکڑوں کا دوسرا نام فارم 47۔ اندھیروں میں یہ فارم پُر کیے گئے اور پھرکمال مہربانی سے ایک حکومتی ڈھانچہ ترتیب دیا گیا۔ ایسے میں وہی ہونا تھا جو مملکتِ خداداد میں ہو رہا ہے۔ جگ ہنسائی تو پہلے بھی تھی‘ اب ہم غریبوں کی ہنسی رُک نہیں رہی۔
کرتے دھرتوں کا خیال تھا کہ خطرہ ہو گا تو پی ٹی آئی کی طر ف سے۔ پی ٹی آئی پر زور آزمائی کر کے سمجھے کہ ہر چیز کنٹرول میں آ گئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کا تو کسی کو دور سے بھی خیال نہ تھا لیکن اُس عدالت کے چھ جج صاحبان نے خط کیا لکھا ایک زلزلہ سا برپا کر دیا۔ ایک خط ہی تو تھا جو اُنہوں نے چیف جسٹس پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا لیکن خط میں وہ کچھ تحریر تھا کہ کاغذی ٹکڑوں پر استوار بندوبست ہل کے رہ گیا۔ تحریرکا مفہوم سادہ سا تھا کہ سرکاری اداروں کی مداخلت کی وجہ سے ججوں کا جینا حرام کر دیا گیا ہے۔ ایک دو مثالیں بھی دی گئیں‘ کہ ایک جج صاحب کے بہنوئی کو اٹھا لیا گیا تھا‘ یہ گھناؤنا الزام بھی لگا کہ کسی رشتہ دار کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ کسی اور ملک میں ایسا ہوتا تو اب تک انقلابِ فرانس آ جاتا۔ لیکن یہ کوئی اور ملک نہیں مملکتِ خداداد ہے جہاں ہر سلگتے مسئلے پر مٹی ڈالنے کی پرانی روایت ہے۔
یہاں بھی مٹی ڈالنے کی پوری کوشش کی گئی۔ گھبرائے ہوئے وزیراعظم جا ملے چیف جسٹس سے اور سب کوچونکا دینے والا فیصلہ ہوا کہ ایک انکوائری کمیشن بٹھا دیا جائے جو کہ مٹی ڈالنے کا آزمودہ طریقہ ہے۔ نیک نام سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو اس کا سربراہ مقررکیا گیا۔ ایسا ہونا تھا کہ تمام اطراف سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ یہ کیا مٹی ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تین سو وکلا نے سپریم کورٹ کو خط لکھا۔ میڈیا میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس ردِعمل کو دیکھتے ہوئے جسٹس جیلانی کو بھی کچھ خیال آیا اور اس گناہِ بے لذت سے معذرت کر لی۔ اُن کے معذرتی خط کا شائع ہونا تھا کہ پریشان حکومت کو مزید جھٹکے لگنے لگے۔ چیف جسٹس صاحب کے ہاتھ بھی بندھ گئے‘ کوئی چارہ نہ رہا سوائے اس کے کہ اسلام آباد ججوں کے پھینکے ہوئے بم کا از خود نوٹس لیں۔ جو چیز پہلے دن ہی کرنی چاہئے تھی‘ حالات کے دباؤ کے تحت اب ہو رہی ہے۔ یعنی اس مملکت میں ہم نے سیکھنا کچھ نہیں‘ جب تک رسوائی کا سامان مکمل طور پر بندھ نہ جائے‘ ہم نے ٹھیک کام نہیں کرنا۔ یہاں مسئلہ چونکہ سپریم کورٹ کا ہے تو مناسب الفاظ کا چناؤ لازم بن جاتا ہے‘ نہیں تو کسی اور کے حوالے سے یہ مسئلہ ہوتا تو پیازوں اور لِتروں کی مثال موزوںسمجھی جاتی۔
عدلیہ پر دباؤ کا سلسلہ ہماری مملکت میں پرانا ہے۔ عدلیہ پر دباؤ پڑتا رہا ہے اور عدلیہ خود بھی حکمرانوں کی مرضی اور منشا پوری کرتی رہی ہے۔ یہاں معاملہ البتہ انتہا کا ہے‘ جب سے قیدی 804 کی حکومت کا تختہ گول کیا گیا‘ مختلف اطراف سے مداخلت اس انداز سے ہونے لگی کہ اس کی نظیر ہماری بدبخت تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ بے دھڑک قسم کی مداخلت‘ معمولی کیسوں میں ہائیکورٹ اور نچلی عدالتوں پر یہ دباؤ کہ فلاں فیصلہ کرو‘ فلاں سزا ہونی چاہئے۔ ایک حد تک ایسی چیزیں برداشت کی جا سکتی ہیں لیکن پانی ناک اور سر سے گزر جائے تو پھر جن کا امتحان لیا جا رہا ہے وہ بھی بڑبڑا اٹھتے ہیں۔ یہی کچھ یہاں ہوا ہے‘ امتحان لینے والوں کی گردنوں میں کچھ زیادہ ہی سریا آ گیا تھا۔ وہ شاید سمجھ بیٹھے کہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی تو ٹارگٹ تھی ہی‘ اس جماعت یا اُس کے پیروکاروں کے ساتھ جو ہو رہا تھا وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آئے روز کے مقدمات‘ کہیں تاخیر سے ان مقدمات میں ضمانتیں بھی ہوتیں تو آناً فاناً نئے مقدمات گھڑ لیے جاتے۔ چلیں وہ بھی ٹھیک ہے لیکن اتنی دیدہ دلیری کہ ہائیکورٹ کے ججوں کو نچلے درجے کے منشی سمجھ لینا اورہر مسئلے میں اوپر اور نیچے عدلیہ کے ججوں کو ڈکٹیشن دینا‘ لاوے نے تو پھر پکنا ہی تھا اور لاوا جہاں ہو‘ پھٹ بھی جاتا ہے۔ یہاں دھماکہ ایک نہیں کئی ہوتے جا رہے ہیں اورعقل مندوں کی عقل کی یہ حالت ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔
پاکستانی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ سورماؤں کو سمجھ نہیں آتی کہ خطرے کی گھنٹی کب بج سکتی ہے۔ دس سالہ اقتدار کے بعد ایوب خان سمجھے کہ اُن کی حکومت کی دیواریں مضبوط ہیں۔ چار آنے فی سیر چینی کی قیمت بڑھی تو ہنگامے شروع ہونے لگے اور چھ ماہ کے اندر ہمارے فولادی فیلڈ مارشل کی چھٹی ہو گئی۔ 1977ء کے انتخابات کے بعد بھٹو سمجھ بیٹھے تھے کہ حالات اُن کی گرفت میں ہیں‘ دھاندلی اور اسلام کے نام پر ہنگامے شروع ہوئے تو تین ماہ میں اقتدار سے رخصت ہو گئے۔ اُن کی جگہ جو مہربان آئے اُنہوں نے ایسے گُل کھلائے کہ اُن کے اثرات آج تک محسوس ہوتے ہیں۔ 8 مارچ 2007ء بین الاقوامی خواتین دن کا جشن ایوانِ صدر میں منایا جا رہا تھا۔ خوش و خرم جنرل پرویز مشرف کے دائیں جانب بیگم مشرف اور بائیں جانب ہماری ہردلعزیز سمیرا ملک جلوہ افروز تھیں۔ اگلے روز ہی یعنی 9 مارچ کو چیف جسٹس افتخار چودھری والا معاملہ رونما ہوا اور چند دنوں میں وکلا سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ مشرف سمجھ ہی نہ سکے کہ اُن کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اُن کے ہرکاروں کا خیال تھا کے چند دنوں میں تحریک دم توڑ جائے گی لیکن تحریک چلتی رہی اور آہنی صدر کی گرفت کمزر ہوتی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ انتظار میں بیٹھے دوسرے مردِ آہن‘ اشفاق پرویز کیانی ڈبل گیم کھیل رہے تھے۔ حساس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اُس مشکل گھڑی میں اُنہوں نے اپنے باس سے ہاتھ کھینچے ہی رکھا۔
اس وقت کا منظر بھی خاصی دلچسپی کا حامل ہے۔ موجودہ بندوبست کے ستون سمجھ رہے تھے کہ ہر چیز کنٹرول میں ہے۔ مرضی کے انتخابات کرائے‘ ریٹرننگ افسران سے وہ وہ کرتب کرائے گئے جو شاید کسی سرکس میں بھی نہ کیے جا سکیں‘ رات کے اندھیروں میں کرشمے ایسے رونما ہوئے کہ جیتے ہوئے ہار گئے ‘ہارے ہوئے فاتح قرار پائے۔ پھر اس ناٹک کے بل بوتے پر مرضی کا حکومتی بندوبست ترتیب ہوا۔ اس دلکش تصویر میں البتہ ایک دراڑ تھی۔ انتخابات جس انداز سے بھی ہوئے‘ ریٹرننگ افسران سے جو بھی سرکس کے کرتب کروائے گئے‘ نتائج تمام سہولت کاروں کے رخساروں پر ایک طمانچے سے کم نہ تھے۔ لگی لپٹی کے بغیر عوام نے بتا دیا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور اُن کا پلڑا کس طرف ہے۔ ایسے میں عوام کی نظروں میں اس رنگ برنگ حکومت کی ساکھ کیا ہو سکتی ہے؟ ویسے بھی لٹکے چہرے داستانِ عبرت کی بھرپور ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن پھر بھی عالمِ غیب سے آنے والے مراسلوں کا کس کو علم ہو سکتا تھا؟ بغیر کسی عہدے کے اور ہر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جناب نواز شریف پنجاب حکومت کی میٹنگوں کی صدارت فرما رہے تھے جبکہ اُن کی ہونہار بیٹی سرکاری پیسے سے خریدے ہوئے نہایت ہی ناقص آٹے کی بوریوں پر والدصاحب کی تصوریں چسپاں کر رہی تھیں۔ اسحاق ڈار بنائے تو وزیر خارجہ گئے تھے لیکن دل وہاں لگ نہیں رہا تھا۔کسی روز ایک اقتصادی کمیٹی کے ممبر دوسرے روز کسی اور کے۔ ایک تو افراتفری دوسرا عالمِ بیوقوفی۔ ایسے میں چھ جج صاحبان کا خط کسی زلزلے سے کم نہیں۔ لیکن ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے‘ دیکھنا ہے کہاں ختم ہوتا ہے۔ بہرحال حالات کا صحیح احاطہ کرنے کے لیے مرزا غالب کا سہارا ضروری ہے:
رَو میں ہے رخشِ عمر‘ کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں