جن چیزوں کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے ان کا رونا کیا؟ جسے قیدی نمبر 804کہتے ہیں اسے اڈیالہ جیل سے نکالنے کی کوئی تدبیر ہمارے ذہن میں نہیں آ رہی۔ جسے مقتدرہ کہا جاتاہے اس کا ہم کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ مہنگائی ہمارے کنٹرول میں نہیں‘ کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ معیشت کی بہتری کا ادراک کسی ذہن میں نہیں۔ بس ملک چل رہا ہے‘ آٹو پائلٹ پر یا کسی اور ذریعے سے‘ ہم نہیں جانتے۔ لیکن جن کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگیں دی گئی ہیں‘ ان کے حوالے سے کون سی خوش فہمیاں پالی جا رہی ہیں؟ یہ کس مرض کا علاج ہیں؟ کیا واقعی یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ملک کے موجودہ طوفانی اور بحرانی حالات سنبھال سکتے ہیں؟
چلیں یہ مان لیا کہ بانی پی ٹی آئی کے ارادوں سے ڈر سا لگتا ہے‘ یعنی انجانا خوف ہے کہ عوام کی حمایت کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے تو پتا نہیں کس راستے پر چل پڑیں گے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے بارے میں بھی ایسا ہی خوف ذہنوں پر طاری تھا‘ اسی لیے اُس زمانے میں انصاف کے ایسے ایسے مندر کھڑے کیے گئے کہ آج بھی ان کی داستان پڑھیں تو سر چکرا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایک شخص کے بارے میں اتنے وسوسے ہیں تو زرخیز ذہنوں میں اتنا نقشہ تو ہونا چاہیے کہ اس شخص کا متبادل کیا ہے۔ اب کوئی کہے کہ متبادل شہباز شریف ہے تو لازمی طور پر ہنسی آ جائے گی۔ حالات کسی بڑی شخصیت کا تقاضا کر رہے ہیں اور معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ وزیراعظم اس پیمانے پر کسی اعتبار سے بھی نہیں اُترتے۔ اپنے دائروں میں ان جیسے لوگ تیز اور چالاک ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان جن بحرانوں کی زد میں آیا ہوا ہے‘ ان سے نمٹنا ان کرداروں کے بس کی بات نہیں۔ پنجاب میں جو ہو رہا ہے وہ بھی دیکھ لیں‘ میڈم سی ایم سوائے فوٹو کھنچوانے کے اورکہیں مصروف نظر نہیں آتیں۔ ان کی پبلسٹی روزمرہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے لیکن اس پبلسٹی کو عوامی سطح پر کوئی اہمیت مل رہی ہے؟ پنجاب کے طول و عرض میں میڈم سی ایم کو کوئی سنجیدگی سے لیتا ہے؟ مانا ان میں بڑا سٹائل ہے‘ اس لحاظ سے تو ان کو داد دینے کا جی چاہتا ہے‘ لیکن بات حکمرانی کی ہو رہی ہے اوراب تک تو ان کا انحصار کیمروں کی ہنرمندیوں پر ہی ہے۔ باقی کام بھی ایسے ہی چل رہا ہے‘ بیان بازیوں تک ہی سب کچھ محدود لگتا ہے۔
ضیاالحق کا دور ہم نے دیکھا تھا‘ سچ تو یہ ہے کہ کچھ حد تک بھگتا بھی تھا۔ اب سمجھ آ رہی ہے کہ اُس دور اور موجودہ دور میں فرق کیا ہے۔ تب یہ بلا جسے سوشل میڈیا کہتے ہیں‘ موجود نہ تھی۔ بہت کچھ ہوتا تھا لیکن عوام کی نظروں سے اوجھل رہتا تھا۔ آج کوئی چھینک بھی مارے تو فوراً پتا چل جاتا ہے۔ حکمرانی کے دائروں میں کوئی بیوقوفی سرزد ہو تو اس کی آگاہی بھی پوری قوم کو ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کو مہنگائی یا معاشی بدحالی کی اتنی فکر نہیں جتنی کہ سوشل میڈیا کی کارستانیوں کے بارے میں ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ حکمران سمجھتے ہیں کہ بس سوشل میڈیا کو ذرا کَس کے رکھ لیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ٹویٹر یا ایکس پر کیوں بندش ہے؟ محض اسی لیے کہ یہ پلیٹ فارم ہمارے کنٹرول میں نہیں اور اس پر جو بات یا خبر آتی ہے پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔ لیکن ٹویٹر کی بندش سے حاصل کیا ہوا ہے؟ یار لوگوں نے وی پی این کا استعمال کرکے ٹویٹر تک رسائی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ جن کے ذمے یہ کام ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے‘ سارا دن سر پکڑ کر بیٹھتے ہوں گے کیونکہ جیسے ہوا کسی کے قابو میں نہیں آسکتی سوشل میڈیا کو بھی کسی چیز میں قید کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ سرکاری خرچے پر سوشل میڈیا کی ٹیمیں محترمہ مریم نواز نے بھی بنانے کی کوششیں کی تھیں لیکن کہاں یہ سرکاری وسائل سے چلنے والی ٹیمیں اور کہاں پی ٹی آئی کے نوجوان جیالے‘ کوئی مقابلہ ہی نہیں بنتا۔ سوشل میڈیا کی اگر کوئی سلطنت ہے تو اس کے بادشاہ پی ٹی آئی والے ہیں۔ وہ اس طریقے سے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں کہ ہمارے منیجروں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ایسی چیزیں آتی ہیں‘ ایسے ایسے ٹک ٹاک بنتے ہیں کہ سچ پوچھیے توکئی بار دیکھتے دیکھتے ہنسی اتنی آتی ہے کہ وَکھیوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو تو پابندِ سلاسل کر دیا گیا ہے لیکن سوشل میڈیا کے شرپسندوں کو کون سی سلاخوں کے پیچھے بند کیا جا سکتا ہے؟ اب ان لوگوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے۔ بہاولنگر جیسا واقعہ ہوتا ہے تو ایسی ایسی ٹک ٹاک بنتی ہیں کہ بس یہی کہا جا سکتا ہے الامان الحفیظ۔
انگریزی کا اخبار فرنٹئیر پوسٹ ضیا الحق کے زمانے میں پشاور اور لاہور سے چھپتا تھا۔ ایک روز چار لائنوں کی خبر فرنٹیئر پوسٹ کے صفحۂ اول پر چھپی کہ بیگم ضیا الحق فلاں ملک روانہ ہو رہی تھیں تو جہاز پر ان کے ہمراہ 40یا 45سوٹ کیسوں کو بھی لادا گیا۔ یہ چار سطری خبر کا چھپنا تھا کہ کہرام مچ گیا کہ اخبار کو ایسی خبر چھاپنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ بات معافی تلافی تک پہنچ گئی لیکن اس زمانے میں تھوڑی سی بھی ایسی خبر سامنے آتی تو حکام اسے برداشت نہ کر سکتے۔ آج ہر مزاحیہ ٹک ٹاک برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ چند لوگو ں کی بات ہوتی تو تھانیداروں کو ان کے پیچھے لگا دیا جاتا جو کہ یہاں کا آزمودہ طریقہ کار ہے لیکن جہاں بات لاکھوں کی ہو وہاں زور زبردستی بھی نہیں چلتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے حکام کو سوشل میڈیا کی وجہ سے مسلسل بخار چڑھا رہتا ہے۔
فرنٹئیر پوسٹ سے یاد آیا کہ اس کے مالک خاصے مال منتر کے مالک تھے‘ یعنی اخبار شروع کیا تو اچھی تنخواہ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ فرنٹیئر پوسٹ لاہور سے شروع ہوا تو کوئی خوشنما چہرہ جس کا تعلق صحافت سے ہو ایسا نہیں تھا جو فرنٹئیر پوسٹ میں نہ آ گیا ہو یا جس نے آنے کی کوشش نہ کی ہو۔ بات بھی صحیح تھی‘ آزادیٔ اظہار اپنی جگہ لیکن خوشنمائی بھی ساتھ ہو تو آزادیٔ اظہار میں بھی ایک نکھار آ جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فرنٹیئر پوسٹ زیادہ دیر چل نہ سکا لیکن جتنی دیر بھی رہا‘ خوب رہا۔
اسی ضمن میں ایک اور بات یاد آتی ہے۔ محمود سپرا بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ انگلستان میں کوئی بینک وغیرہ کا کیس تھا تو ضیاالحق کے زمانے میں پاکستان آئے اورکچھ عرصہ یہاں قیام کیا۔ سیکرٹری انفارمیشن جنرل مجیب الرحمن ہوا کرتے تھے‘ کسی طریقے سے ان سے اچھی خاصی شناسائی پیدا کر لی۔ پی ٹی وی پر پرائم ٹائم میں سپرا صاحب کا انٹرویو ہوا اور پھر یہ خبر آئی کہ سپرا صاحب ایک انگریزی اخبار نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ایک انگریزی فلم بنانے کا بھی پراجیکٹ ہے۔ متوقع فلم کا نام خیبر ہارس تھا۔ شوٹنگ کیلئے لمبے لمبے ٹریلے آ گئے جو ہوٹل فلیش مین میں کھڑے کردیے گئے۔ خوشنما چہرے آڈیشنوں کیلئے آنے لگے۔ کئی خوشنما چہرے متوقع اخبار میں بھرتی ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ قیام کی غرض سے پنڈی کے ایک فائیو سٹارہوٹل میں کمرے بُک تھے۔ ہم تو دور سے ہی خبریں سنتے لیکن یقینا وہاں بڑی چہل پہل رہتی ہو گی۔ ایک دن خبر آئی کہ سپرا صاحب لاہور منتقل ہو گئے ہیں۔ ٹریلے وہیں کھڑے رہے‘ پھر نہ فلم کا پتا چلا نہ انگریزی اخبار کا۔ لیکن اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جتنے دن دھوم رہی خوب رہی۔ کچھ بڑا کرنا ہو تو بڑی سوچ بھی ہونی چاہیے۔ ساری عمر ہم تو خواہشات ہی پالتے رہے‘ کچھ کرگزرنے کی ہمت نہ ہوئی۔