سوچ رکھنے والے ہمارے ہم وطن ایران کو اکثر قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہاں کے حالات یا اُن کی تہذیب کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کی خودداری اورہمت پرکہ امریکہ سے دشمنی لی ہوئی ہے‘ اسرائیل کو اپنا دشمن نمبرایک سمجھتے ہیں اورتمام رکاوٹوں اورتکالیف کے باوجودوہ قوم اپنی بات پر ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ گوامریکہ ایران کو دشمن سمجھتا ہے اُسے ہلکے پھلکے انداز میں نہیں لیتا بلکہ ایران کی ہربات کو سنجیدگی سے امریکی حلقوں میں لیا جاتا ہے۔ سوچ رکھنے والے پاکستانی جب اپنے ملک کی حالت دیکھتے ہیں اوراُسے ایران سے موازنہ کرتے ہیںتواُنہیں تھوڑی سی شرم آ جاتی ہے کیونکہ انقلابِ ایران سے لے کر آج تک جو ایران کا عالمی رویہ ہے ہمارے حالات اورہمارے رویے وہاں تک نہیں پہنچتے۔ ہماری کوئی چھوٹی قوم نہیں ہے‘ دفاعی لحاظ سے ہمارے پاس بہت کچھ ہے لیکن خودداری کے جن تقاضوں پر ہمیں پہنچنا چاہیے وہاں سے ہم بہت دور ہیں‘ اور یہی ہمارے لیے باعثِ ندامت ہے۔
خودی کا درس تواقبال نے یہاں کے مسلمانوں کیلئے دیا تھا۔وہ کیا ولولہ انگیز سطرہے کہ خودی کو کربلند اتنا...‘ لیکن اصل میں دیکھیں تولگتا ہے کہ دنیا کی تمام کرینیں یہاں جمع کر لی جائیں پھر بھی ہماری خودی کو آسانی سے بلند نہ کیا جا سکے۔ جہاں تک شاہین کی بات رہی اُس کا ذکر نہ کیا جائے توبہتر ہے۔ وہ اب چوکوں چوہراہوں کے لیے رہ گیا ہے۔ایران کی ہرپالیسی سے خاص کرکے اندرونی پالیسیوں سے شاید اتفاق نہ کیا جا سکے لیکن مشرقِ وسطیٰ اورعالمی امور میں بالعموم آج کا ایران قابلِ رشک ہمت دکھا رہا ہے۔اسرائیل کی جارحیت تو ہمارے سامنے ہے اورجس طریقے سے امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اوراُس کی ڈھال بھی بنا ہوا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔حماس چھوٹی سی تنظیم ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت اوربربریت کے خلاف برسرِپیکار ہے۔ حزب اللہ اسرائیل سے تقریباً حالتِ جنگ میں ہے۔ شام نے بہت نقصان اٹھایااوربہت تکالیف برداشت کیں لیکن جس حد تک وہ کرسکتا ہے وہ بھی اسرائیل کے خلاف کھڑا ہے۔ ان تمام قوتوں کے پیچھے ایران ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں ایران نے شام کی بھرپور مدد کی اورجہاں تک حماس اور حزب اللہ کا تعلق ہے‘ یہ تنظیمیں بغیر ایرانی حمایت کے اتنا کچھ نہ کرسکتیں۔ یمن میں حوثیوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے‘ اُن کے پیچھے بھی ایرانی حمایت ہے۔ اور یہ جو حالیہ دنوں میں ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا اوراسرائیلی سوچ یہ تھی کہ ایران کی طرف سے اتنی جوابی کارروائی نہ ہو گی لیکن ایران نے واضح کیا کہ اُس کی طرف سے جواب آئے گا اور جب جواب آیا اسرائیل اور امریکہ دونوں حیران ہوکررہ گئے۔
پاکستانی میڈیا بھی عجیب ہے‘ اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد یہاں ایسی ایسی باتیں کی گئیں کہ دیکھیں جی نقصان تو کچھ ہوا نہیں‘ یہ محض دکھاوے کی بات تھی۔ لیکن ایسا طفلانہ ردِ عمل اسرائیل اورامریکہ کا نہیں رہا۔ امریکہ کو عین وقت پر اسرائیل سے اطلاع ملی کہ دمشق پر حملہ ہونے والا ہے اوراس بات پر امریکہ کچھ زیادہ خوش نہ تھا۔ جہاں تک ا سرائیل کا تعلق ہے وہاں اس بات کا برملا اعتراف کیا جارہا ہے کہ اسرائیل ممکنہ ردِعمل کا صحیح اندازہ نہ لگا سکا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو یہ توقع نہ تھی کہ اتنا بڑا تین سو ڈرون اور میزائلوں پر مشتمل ایرانی جواب آئے گا۔ایران کا مقصد اسرائیل کو بتانا تھا کہ وہ اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ اُس کے ڈرون اورمیزائل اسرائیل تک پہنچ سکتے ہیں۔اس میں وہ کامیاب ہوا۔ ڈرون تو بہت آہستہ پرواز کرتے ہیں۔ ایرانی حملہ ہوا تو اسرائیل‘ امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس کو گھنٹوں کی وارننگ ملی۔ اتنا وقت جب ملا تو ڈرون پروازوں کو گرانا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہ تھا۔ لیکن اسرائیل سے یہ بات چھپی نہیں کہ کئی ایرانی میزائل اسرائیلی طیارہ شکن نظام کے باوجود اسرائیلی ٹارگٹوں پرجا گرے تھے۔ حملے کے دوران ایران نے یہ بھی پیغام دیا کہ ایک بڑی جنگ چھیڑنا اُس کا مقصد نہیں۔ اورجب حملہ ہوچکا توایران کی طرف سے کہا گیا کہ جو کرنا تھا کرلیا‘ مزید کوئی حملہ نہیں ہوگا بشرطیکہ اسرائیل کی طر ف سے کوئی مزیدجارحیت نہ ہوئی۔
ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف سے بہت کچھ ہوتا رہا ہے۔ ایرانی سرزمین پر ایک سے زیادہ ایرانی نیوکلیئرسائنسدانوں پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ ایران نے جواب اپنے طریقے سے دیا لیکن یہ جو دمشق میں اُس کی قونصلیٹ پر حملہ تھا اور جس میں ایران انقلابی گارڈ کے ایک دو سرکردہ کمانڈرمارے گئے اس کا خاطرخواہ جواب دینا ایران پر لازم ہوگیا تھااور اُس نے جواب دیا۔
اندازہ تو لگانا چاہیے کہ اسرائیل اور اُس کے حمایتی امریکہ کا پلڑا کتنا بھاری ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہر لحاظ سے اسرائیل طاقتور ترین ملک ہے۔ اسرائیل کو امریکہ کی اندھی سپورٹ حاصل ہے۔ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی اسرائیل کے حامی ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ایک ایک بلین ڈالر کو ترستے ہیں۔ جوایمرجنسی امدادی پیکیج امریکی کانگریس میں یوکرین‘ تائیوان اوراسرائیل کیلئے پاس ہوا ہے اُس میں ساڑھے 24بلین ڈالر صرف اسرائیل کیلئے ہیں۔ یہ اُس کے علاوہ ہے جو ویسے امریکی امداد اسرائیل کو ملتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس ایران پر امریکی معاشی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ امریکی پابندیوں کے ڈر سے کتنے ممالک ہیں جو ایران سے معاشی اور تجارتی تعلقات بنانے سے ہچکچاتے ہیں۔ہمارا دیکھ لیں‘ وہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ کب ہوا تھا اورامریکی ڈر کی وجہ سے ہم آج تک اُس پر کچھ نہیں کرسکے۔لیکن ان سب کمزوریوں کے باوجود ایران امریکہ کے خلاف کھڑا تو ہے۔ایران جو کچھ بھی کرتا ہے سوچ سمجھ کرکرتا ہے‘ خواہ مخواہ کا اُبال پن اُس کی پالیسی کا حصہ نہیں۔ لیکن انقلابِ ایران نے جو راہ اپنے لیے متعین کی تھی اُس پر ایران ڈٹا ہواہے۔ اسرائیل کو کسی اور عرب یا مسلم ملک سے ڈر نہیں۔بیشتر سے تو اُس کے تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ بیشتر عرب ممالک فلسطین کے محاذ سے دستبردارہو چکے ہیں۔ زبانی جمع خرچ ہوتا ہے‘ کچھ مالی امداد بھی فلسطینی اتھارٹی اور حماس کی ہوجاتی ہے لیکن عملی طور پر بیشترعرب اور مسلم ممالک نے فلسطین کے مسئلے سے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔امریکہ کی یہ بہت بڑی جیوپولیٹکل فتح ہے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کیلئے بہرحال یہ پریشانی کا باعث ہے کہ مزاحمت کی چنگاریاں بھی اُس علاقے میں اب تک سلگ رہی ہیں۔ اس مزاحمتی صورتحال میں سب سے بڑا کردار ایران کا ہے۔
1973ء کی عرب اسرائیلی جنگ شروع ہوئی توذوالفقار علی بھٹو جو پاکستان کے وزیراعظم تھے‘ نے عربوں کی محض لفظی مدد نہ کی بلکہ ہمارے کئی ایئرفورس کے پائلٹ شام کے لڑاکا طیاروں کو اڑانے کیلئے وہاں گئے۔ ہم وہ داستان بھول چکے ہیں‘ شام والے اب تک نہیں بھولے۔یہی وجہ تھی کہ شام کے سربراہ حافظ الاسد بھٹو خاندان کی اتنی عزت کرتے تھے۔ آج ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ ہم اتنے احتیاط کے مارے ہو گئے ہیں کہ اسرائیل کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں۔اورہم نے کیا کرنا ہے؟ تبصرے ہی کرسکتے ہیں اور وہ بھی گول مول انداز سے کرتے ہیں کہ کہیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے‘ سعودی عرب ہمارے کسی بیان پر اعتراض نہ کرے۔مجموعی قومی نااہلی اُن گہرائیوں میں جاچکی ہے کہ اقبال کا درس تو دور کی بات رہی‘ ہم کچھ بھی بامعنی کردار ادا کرنے سے قاصر لگتے ہیں۔ کسی کا نام لوں توطرفداری کا الزام لگ جائے گا لیکن اِس سارے غزہ کے قضیے میں جو ہم نے تقریباًچپ سادھ رکھی ہے اس سے ہماری قومی عزت میں کوئی اضافہ تو نہیں ہوا۔