کسی اور ملک میں ایسا ہو سکتا ہے کہ دھماکوں والے دن کو قومی چھٹی قرار دے دیں؟ اور جو ہمارے عقلمندوں نے اشتہار چھپوایا ہے اُس کے مطابق ''وطن کے ہم رکھوالے ہیں‘ ہم 28مئی والے ہیں‘ نہ جھکے تھے نہ جھکیں گے‘ ایٹمی قوت بنایا تھا‘ معاشی قوت بنائیں گے‘‘۔ یہ ہماری اجتماعی عقلمندی کی ایک جھلک ہے۔ وہ انگریزی کا محاورہ ہے جس کا کوئی خاص اردو نعم البدل نہیں کہ فلاں چیز گڈ ٹیسٹ میں نہیں۔ اردو میں غالباً یہ ہوگا کہ ذوق کے تقاضوں پر فلاں چیز پورا نہیں اُترتی۔ ہمارے دوست عرفان صدیقی اور پرویز رشید کس کام کے لیے ہیں؟ وہ کچھ سمجھا نہیں سکتے کہ ایسی حرکتیں اچھی نہیں لگتیں۔ اور پھر بغیر سوچے قومی تعطیل کا اعلان ہو جاتا ہے۔ کوئی پروا نہیں کہ امتحانات جاری ہیں اور ملک بھر کے طلبہ اس فضول حرکت سے متاثر ہوں گے۔
ایٹمی قوت کے بارے میں ہمارا دعویٰ کیا ہے؟ کہ ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہو گیا ہے۔ایسے ماحول میں جب خیبرپختونخوا سے لے کر بلوچستان تک آئے روز حملے ہو رہے ہیں اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے‘ تقریباً دو جنگیں چھڑی ہوئی ہیں ۔ ہمارا ایٹمی پروگرام ایک خاص تناظر میں شروع کیا گیا تھا اور یہ بات نہ بھولی جائے کہ شروع کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو تھا‘ کوئی اورنہیں۔ اور اس پروگرام میں کلیدی کردار اس شخص نے ادا کیا جو مرتے دم تک افسوس کرتا رہا کہ یہ ایسی قوم ہے جس نے میری قدر نہ کی۔ اب تناظر وہ نہیں رہا‘ تقاضے بدل چکے ہیں۔ جو ہماری معاشی حالت ہو گئی ہے اس میں کسی ایٹمی قوت نے ہماری بہتری کا سامان کون سا پیدا کیا ہے؟ ایران کے پاس تو کوئی ا یٹمی قوت نہیں لیکن ان کی بین الاقوامی پوزیشن دیکھ لیں اور پھر اپنی پوزیشن پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ مانا کہ ہمارے جیسے ملک کیلئے ایٹمی قوت ہونا ایک اچھا خاصا کارنامہ ہے لیکن کچھ اور بھی تو کرنا چاہیے۔ ناقابلِ تسخیر ہماری معیشت ہونی چاہیے۔ قرضوں کے تلے ہمیں دبے نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سنا ہے کس طرح ہمارا تمسخر اڑاتا ہے؟ ہماری قومی پہچان تو اس وقت ہمارا کشکول بنا ہوا ہے۔ جب ملک سے باہر ہمارا کوئی بڑا جاتا ہے تو دستک اس یا کسی اور دروازے پر دینے کا عزم ہوتا ہے۔ تھوڑا بہت مل جائے تو سرکاری حلقے یہاں بھنگڑے ڈالنے لگتے ہیں حالانکہ اصل میں ملتا کم ہے اوروعدے کردیے جاتے ہیں۔کئی وعدے تو سالوں پرانے ہیں اور ہم اُنہی پر گزارا کررہے ہیں۔
بات وہ کی جائے جو جچتی ہو۔ ہمارے امیر طبقات کمرکسنے کیلئے تیار نہیں‘ کسی قربانی کیلئے آمادہ نہیں۔ بس چھوٹے یا بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ بڑھکیں ماری جاتے ہیں۔دبئی لیکس سے پتا نہیں چلا کہ ہمارے ہاں کے کرم فرماؤں کی کتنی جائیدادیں باہر ہیں؟ یہاں سے کمایا یا لوٹا ہوا پیسہ تو سارا باہر کر دیا گیا ہے۔ گوشت سارا نوچ لیا گیا ہے اور پیچھے ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے اور پھر مکے لہراتے ہوئے یہ دعوے کہ دفاع ناقابلِ تسخیر ہوگیا ہے۔اب تو ہمارے جوانوں اور افسرو ں کی شہادتوں کی خبریں پڑھی نہیں جاتیں‘ اتنا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ شہادتیں تو قوم کیلئے ویک اَپ کال ہونی چاہئیں تھیں کہ فرسودہ خیالات کو پیچھے چھوڑیں اورنئے عزم سے پاکستان کے مسائل کا سامنا کریں۔ لیکن جائیدادیں باہر‘ پیسہ باہر‘ بچے باہر پڑھتے ہیں اور وہیں سیٹل ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے امیرطبقات کیلئے تو پاکستان اب ایک ٹرانزٹ کیمپ بنا ہوا ہے۔ پاکستان کو ہاتھ لگایا اورپھرباہر چلے گئے۔
ان دنوں( ن) لیگ کی قیادت کیلئے دو صائب مشورے آئے ہیں۔ پنجاب کے نئے گورنرسردارسلیم حیدر نے کہا کہ نوازشریف کے بھائی وزیراعظم ہیں اور اُن کی بیٹی چیف منسٹرپنجاب۔ اگر ان کے ساتھ زیادتی ہوئی بھی ہے تو اس کا ازالہ ہوچکا ہے‘ لہٰذا اُنہیں اب رونا دھونا بند کرنا چاہیے۔ یہ کھلے عام انہوں نے کہا ہے اور( ن) لیگ والے اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔ دوسرا صائب مشورہ جناب خورشید شاہ کی طرف سے آیا ہے کہ نوازشریف (ن) لیگی صدارت پر پھر جھپٹا مارتے ہیں تو اُن کے اپنے بھائی وزیراعظم شہبازشریف کے خلاف عدمِ اعتماد کا اظہار ہوگا‘ لہٰذا انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ جماعت کے چیئرمین قسم کی چیز بنے رہیں لیکن صدارت کی طرف نہ جائیں۔ آخرجب نوازشریف خودوزیراعظم تھے تو ساتھ ہی (ن) لیگ کی صدارت بھی پاس رکھی ہوئی تھی۔ وہ ایسا کرسکتے تھے تو شہبازشریف کیوں نہیں؟ لیکن بس ہرچیز کی طلب ایسی ہے ختم نہیں ہوتی۔ ان کو تو ہمارے بڑوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ اتنا کچھ مل گیا ہے‘ مقدمات ختم‘ واپسی کے راستے صاف اور پھر یہ جو الیکشن اورفارم47 کی مہربانیاں ہوئیں اسی پر انسان کو اکتفا کرنا چاہیے اور ہاتھ اٹھا کر آسمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ فارم47 کی مہربانیاں نہ ہوتیں تو ڈاکٹر یاسمین راشد کے ہاتھوں پٹ گئے تھے‘ وہ یاسمین راشد جو اَب تک جیل میں ہیں اورجنہوں نے الیکشن جیل سے ہی لڑاتھا۔لیکن دل کو تسکین کہاں سے آئے؟ صدارت کے بجائے میاں صاحب کو تو کسی دوردراز مقام پرایسی خانقاہ کی تلاش ہونی چاہیے جس سے ان کے دل میں کچھ سکون آئے۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹوں کا فائدہ کیا جب حرص کی داستان ختم ہونے کا نام نہ لے؟چھجو تو اپنے ایک ٹوٹے ہوئے چوبارے سے راضی تھا‘ ہم ہیں اوریہ ہیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود راضی نہیں ہوتے۔
لوگوں کی سمجھ نہیں آتی۔ عرصے سے ان کی یہ عادت رہی کہ رمضان کے آخری ایام حرم شریف میں گزارنے ہیں۔ رہنا محلوں میں لیکن سفید ٹوپی پہنے وہاں حاضری دینی۔ اتنا کرنے سے تو سکون ملنا چاہیے‘ قناعت کا کچھ مفہوم سمجھ آجانا چاہیے۔ لیکن ہمارے کتنے لوگ ہیں حاضریاں دے کرآتے ہیں اور پھردیس میں واپس آکر وہی کام اوروہی دھندے وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے چھوڑ کر گئے تھے۔ہمارے چکوال کے قومی اسمبلی کے دو حلقے ہیں۔بشکریہ فارم 47جو دونوں ایم این اے بنے یا بنائے گئے ہیں‘ ان میں خاص طور پر ایک ہیں جن کی نصیحت بھری گفتگو ختم ہی نہیں ہوتی۔لیکن فارم 47کا درویشی چغہ پہنا ہوا ہے اور کوئی ملال نہیں۔کوئی ندامت بھرا جملہ ان کے نیک لبوں سے ادا نہیں ہوا جس میں کہیں کہ ہمیں مہربانی کس انداز سے ہوئی۔ کچھ جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمن سے ایسے لوگ سیکھ لیں۔ اُنہیں صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر کامیاب قرار دیا گیا تھا لیکن اُنہوں نے فوراً اعلان کیا کہ میں اس سیٹ کا حقدار نہیں کیونکہ جیتنے والا پی ٹی آئی کا آدمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی باتوں میں ایک رعب اور وزن ہے۔فارم47کے رنگے ہوئے ہوتے تو ایسا اعتماد اُن کا ہوسکتا تھا؟
پر دیکھیے وقت کبھی رُکتا نہیں‘ یہ وقت بھی کٹ جائے گا۔ کتنے دور ہم نے دیکھے ہیں جو لگتے تھے کہ کبھی ختم نہ ہوں گے۔ لیکن ایوب‘ یحییٰ‘ ضیا‘ مشرف اورکتنے اور آئے اور اپنے وقت پر چلے گئے۔پچھلے دو اڑھائی برس میں کیا کچھ نہیں ہوالیکن جو حقیقتیں ہیں وہ مٹ نہیں سکیں۔ کیا ہوا کہ کوئی پابندِسلاسل ہے‘ کیا اُن کا نام مٹ گیا ہے؟ کیا صیاد اُن سے زیادہ طاقتورہو گئے ہیں؟ موازنہ کرنا ہے توپریشانی کا اندازہ لگائیں کہ پریشان چہرے کون سے ہیں۔ جواب آپ کو خود ہی مل جائے گا۔
اور ایک بات جو اچھی ہوئی ہے وہ ماننی پڑے گی۔ جو ہمار اقومی حمام ہے اُس میں اب کوئی ڈھکاچھپا نہیں رہا۔بے لباس کا لفظ شاید اچھا نہ لگے تو نہیں استعمال کرتے لیکن سب بے نقاب تو ہوگئے ہیں۔