"AYA" (space) message & send to 7575

سوچ بچار کا سامان کہیں گم ہوتا رہا

ہم دونوں ملکوں کے درمیان جو بیان بازی چل رہی ہے اس سے دل بیٹھ سا جاتا ہے کہ کیا وجہ ہے اتنے سالوں میں ہم اپنے تعلقات میں کوئی بہتری نہ لا سکے۔ ہمسایوں سے جان چھڑائی نہیں جا سکتی۔ ہمسائے ہوں اور اتنا کچھ ثقافتی اور تاریخی ورثہ مشترک ہو تو آپس میں رہنے کا طریقہ جسے انگریزی میں co-existence کہتے ہیں‘ کے طور طریقے آ جانے چاہئیں۔ ہمسایوں کے ساتھ مسئلے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ ہمارے مسائل افغانستان سے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بات بات پر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں۔
افغانستان کے ساتھ تو ہمارا مسئلہ بڑا گمبھیر ہے کیونکہ وہ مشترکہ سرحد کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اس کے باوجود پاکستان اور افغانستان میں کوئی جنگ تو نہیں چھڑی سوائے وہ ایک جلال آباد کا معرکہ بے نظیر بھٹو کی پہلی وزارتِ عظمیٰ میں‘ جب ہمارے بھڑکیلے لوگوں نے صلاح دی کہ وہاں کوئی گڑبڑ ہوئی ہے اور اُس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جلال آباد پر چڑھ دوڑنا چاہیے۔ وہ فضول ایڈونچر ہی ثابت ہوا کیونکہ ہماری کوشش کو بُری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ چھیڑ چھاڑ ہوتی رہی ہے لیکن دونوں ممالک کی فوجیں کسی بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کے خلاف حرکت میں نہیں آئیں۔ ہندوستان سے ایسا کیوں نہ ہو سکا‘ اسے ہم المیہ ہی کہہ سکتے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ ورثے میں ملا‘ گو ایک بات ذہن نشین رہے کہ 47ء سے پہلے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کشمیر کا ذکر شاذ ونادر ہی ہوتا تھا۔ مہاراجہ کی حکومت تھی اور جیسی دیگر ریاستیں تھیں‘ سوچ یہی تھی کہ جب باقی ریاستیں اپنا فیصلہ کریں گی تو کشمیر کا بھی کچھ ہو جائے گا۔ اُس وقت یہ کوئی نہ کہتا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اُس کے بغیر پاکستان کا وجود مکمل نہ ہوگا۔ یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے حق میں فیصلہ 26 اکتوبر 1947ء کو دیا‘ یعنی 14 اگست کے دس ہفتے بعد۔ تب تک سرینگر میں کوئی ہندوستانی فوج نہ تھی۔ ہمارے پختون قبائلیوں نے ایک حملہ کر رکھا تھا لیکن قبائلی ہونے کے ناتے لوٹ مار میں زیادہ وقت صَرف ہو رہا تھا۔ کمان اُن کی صحیح ہوتی تو سیدھا سرینگر کا رُخ کرتے اور اُس وقت اُنہیں روکنے کیلئے سرینگر میں کچھ موجود نہ تھا۔ یہ تو 26 اکتوبر کے بعد ہندوستانی یونٹیں بذریعہ ہوائی جہاز سرینگر آنے لگیں۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ 14 اگست سے لے کر 26 اکتوبر تک ہماری سوچ کہاں گم تھی۔ شہ رگ نہتی حالت میں پڑی تھی اور ان دو ماہ میں ہماری طرف سے کچھ نہ ہوا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسا کہ بعد میں سیا چن کے ساتھ ہوا۔ 84ء تک ہم کہتے تھے کہ کاغذوں میں سیاچن ہمارا ہے لیکن وہاں پر قبضہ کسی کا نہ تھا۔ یہ تو کسی سے پوچھا جا سکتا ہے کہ 84ء کے آخر میں اس پر بات ہوئی کہ سیاچن پر اپنا قبضہ جمانا چاہیے۔ سردی پڑنا شروع ہو گئی تھی تو فیصلہ ہوا کہ اگلے موسمِ بہار میں پیش قدمی کی جائے گی۔ ایسی کمبخت بہار آئی کہ ہندوستانی سیاچن پر پہلے پہنچ گئے۔ یعنی پہلے سرینگر اور پھر اتنے سال بعد سیاچن‘ ہم سے کچھ دیر ہو گئی۔
شہ رگ تو اس لحاظ سے بنتی ہے کہ ہمارے سارے دریا کشمیر کے پہاڑوں سے پھوٹتے ہیں لیکن حیرانی کی بات ہے کہ 47ء سے پہلے آپ کو کہیں یہ ذکر نہیں ملے گا کہ مہاراجہ نے فیصلہ ہندوستان کے حق میں کیا تو ہمارے دریاؤں کا کیا بنے گا۔ کوئی حوالہ تو دے کہ فلاں لیڈر نے فلاں وقت دریاؤں کا ذکر کیا۔ یہ تو کشمیر میں جھڑپوں کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کا اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جانا تھا کہ وہاں سے قرارداد آئی کہ جنگ بندی ہونی چاہیے اور کشمیری عوام کی رائے جان کر کشمیر کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ ہمارے کشمیر مؤقف کی بنیاد یہ ہے۔ پنڈت نہرو سے یہ بلنڈر ہونا تھا کہ ہمارا کشمیر پر مؤقف مرتب ہوا۔
بہرحال زندگی جن چیزوں پر منحصر ہے اُن میں سب سے اہم پانی ہے۔ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کا جنم پانی کے اردگرد ہوا۔ یہاں کی تہذیبیں بھی‘ ہڑپہ کی یا موہنجودڑو کی انڈس بیسن کے دریاؤں کی گرد ہی پھیلیں۔ پاکستان کا وجود ان دریاؤں پر منحصر ہے۔ 1960ء میں جب سندھ طاس معاہدے پر دستخط ہوئے تو یہی سوچ تھی کہ پانی کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو گیا ہے۔ تین دریا اگر ہندوستان کے حصے میں آئے ہیں تو چناب‘ جہلم اور انڈس ہماری دائمی ملکیت بن گئے ہیں۔ سوچا جائے تو اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک میں جنگ کے امکان ختم ہو جانے چاہئیں تھے۔ اور کچھ نہیں تو 65ء کی جنگ کی مہم جوئی کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ملک کے سربراہ خودساختہ فیلڈ مارشل تھے‘ معاہدے پر دستخط کرنے والے وہ تھے‘ اُنہیں تو خیال ہونا چاہیے تھا کہ جب پانی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے تو مہم جوئی کی طرف جنون کا جواز نہیں رہتا۔ 65ء کی جنگ ہوئی‘ سترہ دن بعد جنگ بندی ہو گئی‘ تاشقند معاہدہ ہوا جس میں دونوں ممالک نے اقرار کیا کہ مسائل کے حل کیلئے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ جنگ نے نفسیاتی طور پر فیلڈ مارشل کو کمزور کر دیا اور ذوالفقارعلی بھٹو تھے کہ پبلک میں ڈھول پیٹنے لگے کہ تاشقند کے راز افشا کروں گا۔ پنجاب کا ذہن ایسے بنایا کہ امن کے بجائے جلسوں میں ہزار سالہ جنگ کی باتیں ہونے لگیں۔ بھٹو کا مقصد ایک تھا کہ خفیہ طور پر جنرل یحییٰ خان سے مل کر ایوب کا تختہ گول کیا جائے۔ اُس میں وہ کامیاب ہوئے اور جنون کی کیفیت پاکستان اور ہندوستان میں برقرار رہی۔
71ء کی جنگ کے بعد شملہ معاہدے میں ایک بار پھر یہ اقرار ہوا کہ دونوں ممالک اپنے مسائل دو طرفہ طور پر پُرامن طریقے سے حل کریں گے۔ معاہدے کے بعد کے سالوں میں بھٹو اس بارے سوچ رہے تھے کہ آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کر لیا جائے۔ یہ تو نہ ہو سکا لیکن ایک بات توجہ کی مستحق ہے کہ شملہ معاہدے سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے زمانے تک پاکستان نے کشمیر کا ذکر تقریباً ترک کر دیا۔ رسماً ذکر ہو بھی جاتا تو بغیر کسی شدومد کے۔ یہ تو ہندوستان کی کشمیر میں سیاسی ناکامی تھی کہ وہاں کے باشندے 1989ء‘ یعنی جنرل ضیا کی وفات کے بعد‘ ہندوستانی حکمرانی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ ہندوستانی ناکامی تھی کہ مقبوضہ کشمیر میں کبھی ڈھنگ کے الیکشن نہ ہو سکے۔ کشمیر یوں کے سامنے کوئی راستہ نہ رہا سوائے اُٹھ کھڑا ہونے کے۔ یہ اور بات ہے کہ اچھی بھلی اندرونی بغاوت میں مداخلت شروع ہوئی تو اُس کا حلیہ بگڑ گیا اور پھر وہ اندرونی عوامی بغاوت نہ رہی۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔
یہ سب بھی ہو گیا۔ ہندوستان میں کانگریس کی حکومت گئی اور اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ 1998ء میں ہندوستان ایٹمی دھماکے کرتا ہے اور اُس کے جواب میں پاکستان کی طرف سے بھی دھماکے ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد وزیراعظم واجپائی بس پر سوار ہو کر واہگہ اٹاری بارڈر کراس کرتے ہیں اور لاہور میں اُن کا استقبال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کا ہمارا نظام ہی الٹ ہے۔ وزیراعظم نوازشریف بھارتی وزیراعظم کا استقبال کر رہے ہیں اور ہمارے جماعت اسلامی والے دوست لاہور میں ہڑبونگ مچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جماعت نے خود ایسا کیا یا کسی کے اشارے پر‘ یہ سوال رہے گا۔ بہرحال واجپائی دورہ کرکے دہلی واپس پہنچتے ہیں اور دنیا کو پتا چلتا ہے کہ کارگل میں کچھ ہو رہا ہے۔ آج تک پتا نہیں چل سکا کہ کارگل کے پیچھے کون سی سوچ کارفرما تھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں