"AYA" (space) message & send to 7575

کچھ تو قرار آیا

جس مایوسی اور بیزاری کا اظہار ہم سے ہوتا رہتا ہے وہ تمام کیفیت پڑوسیوں سے اس چار روزہ معرکے میں زائل ہو گئی۔ مانا کہ ہم بڑے امن کے پردھان ہیں‘ شانتی چاہتے ہیں‘ لیکن یہ کیا ہوا کہ محلے میں یا کہیں آس پاس سے کوئی رعب جمانے کی کوشش کرے اور آگے سے چپ رہیں اور سب کچھ برداشت کر لیں۔ زندگی میں ایسا نہیں ہوتا‘ نہ ہونا چاہیے۔ محلے کی بدمعاشی اچھی نہ لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پڑوسی ملک جو ہم سے کئی گنا بڑا ہے اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کرے اور ہمیں اچھا لگے؟ پہل ہمارے ہمسائے نے کی اور کرنے میں کچھ زیادہ ہی گھمنڈ دکھا دیا گیا‘ لیکن جواب کرارا آیا۔ یہ بعد کی باتیں ہیں کہ جسے ہم ازراہِ احتیاط اسٹیبلشمنٹ کے نام سے نوازتے ہیں‘ کیا کر رہی ہے اور کیا اُسے کرنا چاہیے۔ اندرونی جھگڑے رہتے ہیں اور رہیں گے اور ان کا ہونا بھی زندگی کی دلیل ہے لیکن فی الحال تو وہ مزہ قائم ہے جو 10مئی کے حملوں سے پیدا ہوا۔
ہندوستانی حملوں کا سامنا تو ہو چکا تھا اور ہندوستانی انکار کے باوجود دنیا پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ جن فرانسیسی لڑاکا طیاروں پر بڑا ناز تھا اُن کی سبکی کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی سوچ رہے تھے کہ ہمارا مکمل جواب کب آئے گا۔ 10مئی کی صبح کو معلوم ہو گیا کہ حملہ ہوا اور خوب ہوا۔ دیہات میں ہم کیا کہتے ہیں کہ چماٹ کسی کو لگائیں آواز تو آئے‘ نہیں تو اُس چماٹ کا مزہ کیا۔ پوری مشرقی سرحد کے جتنے جنگی ٹھکانے تھے وہ ہمارے ہوائی حملے کی زد میں آئے۔ بیشتر ہندوستانی جنگ تو اُن کے ٹی وی چینلوں پر لڑی جا رہی تھی لیکن اس حملے کے بعد اُن چینلوں میں وہ دم نہ رہا‘ وہ جھاگ بھی بیٹھ گئی۔ غصہ تو تھا لیکن دانتوںکو پیسنے تک رہ گیا۔ بڑا چرچا تھا اُن کے ایئر ڈیفنس کا کہ روسی ساخت کے ایس 400 نظام نصب کر دیے گئے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے کوئی حملہ آور جہاز بچ نہیں سکے گا۔ یہ طیارہ شکن نظام اتنا ہی کارگر ثابت ہوتا تو ہمارے کئی جہاز وہیں گر کر تباہ ہو جاتے۔ اور ایسا ہوتا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی بغلیں کیسی بجتیں۔ لیکن بھرپور حملہ ہوا اور ہمارے تمام کے تمام جہاز بحفاظت واپس آگئے۔ سچ پوچھیے تو مزہ وہ آیا جو سکاٹ لینڈ کی پرانی سے پرانی حفظانِ صحت سے متعلق حفاظتی دوا مہیا نہ کر سکے۔
ہندوستانی جہاز تو گرے‘ خبروں کے مطابق ہوائی اڈوں اور دوسری فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا‘ لیکن سب سے مہلک نقصان تو مودی جی کی 56 انچ کی چھاتی کو پہنچا۔ اس معرکے سے پہلے مودی سرکار کا لہجہ ایسا ہو چکا تھا کہ جیسے ہندوستان کی علاقائی برتری نہ صرف ثابت ہو چکی ہے بلکہ اُسے تسلیم بھی کر لیا گیا ہے۔ اب تو اُن کے اپنے لوگ 56 انچ کی چھاتی کا مذاق اڑانے لگے ہیں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ ایک ہندوستانی مہیلا ہیں جو اُن کے سوشل میڈیا میں خاصی مقبول ہیں‘ نیہا سنگھ راٹھور۔ گاتی بھی ہیں اور انداز و اسلوب بہت عمدہ ہے۔ ایسا بینڈ مودی جی کا بجاتی ہیں کہ مزہ آ جاتا ہے۔ دیکھنے کے قابل ہے اور آپ دیکھیں تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں۔
ایک اور بات اچھی ہوئی ہے‘ اُن کے خارجہ امور کے وزیر ایس جے شنکر کچھ زیادہ ہی چہکا کرتے تھے۔ اور پاکستان بارے اُن کا انداز کچھ حقارت آمیز ہوا کرتا تھا۔ اس چار روزہ معرکے کے بعد مہاراج کے لہجے کی خاصی درستگی ہو گئی ہے۔ ویسے سوچا جائے تو کیا کیا نمونے ہمارے ہمسایہ ملک نے پال رکھے ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلوں پر بندوق بازوں کی کمی نہیں لیکن ہندوستان کے ٹی وی چینلوں کے توپچیوں سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اچھے خاصے بھلے مانس اور ذہین لوگ ٹی وی سکرینوں پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور ذکر پاکستان کا چھڑے تو ہوش و حواس اور عقل کھو بیٹھتے ہیں۔ اور ایسی ایسی لایعنی گفتگو فرمانے لگتے ہیں کہ سننے والا حیران رہ جائے۔ کیسی کیسی خبریں ان چار دنوں میں اڑائی گئیں۔ ایک ٹی وی چینل نے کہا اسلام آباد تباہ ہو گیا ہے‘ ایک نے کہا کہ کراچی کی آبادیوں میں آگ لگ گئی ہے۔ یہاں تک بھی کچھ لوگ گئے کہ جنرل عاصم منیر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ۔ بے وزنی کام تو یہاں بھی ہوتا ہے لیکن اس انتہا تک ہمارا بڑے سے بڑا مجاہد نہیں پہنچ پاتا۔
ایک بات پر پاکستانی میڈیا بجا طور پر شاد ہو سکتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ اور ہم میں سے بہت ہیں جو کہتے نہیں تھکتے کہ لوگوں کو اٹھایا نہیں جانا چاہیے اور یہ کہ بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں آپ کو ایسی گفتگو ہندوستانی میڈیا میں نہیں ملے گی۔ وہاں کوئی کہنے کو تیار نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کا ایک مسئلہ ہے کہ وہاں کی مسلم آبادی ہندوستانی تسلط اور حکمرانی سے خوش نہیں۔ ہندوستانیوں نے اپنے آپ کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو خرابی بھی ہے وہ پاکستان کی وجہ سے ہے۔ وہاں بے چینی اور کوئی شورش ہے تو اُس کے پیچھے پاکستان ہے۔ کوئی کہنے کو تیار نہیں کہ اپنے رویوں کو پرکھیں‘ اپنے گریبان میں جھانکیں۔ تاریخِ کشمیر سمجھنے کیلئے بھی وہاں کی سرکار اور سرکاری لوگ تیار نہیں۔ ہندوستانی یہ یاد کرنے کو تیار نہیں کہ شیخ محمد عبداللہ جو پاکستان مخالف تھے‘ چلتے چلتے ہندوستان سے نالاں کیوں ہو گئے۔ اُنہیں کیوں گرفتارکیا گیا؟ 1973ء کے شملہ معاہدہ کے بعد پاکستان نے مقبوضہ کشمیرسے ہاتھ اٹھا لیا تھا۔ سترہ سال تک ہم نے کشمیر کا ذکر کرنا چھوڑ دیا۔ 1989ء میں وادیٔ کشمیر میں جو بغاوت اٹھی اُس کے پیچھے پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ کشمیری ہندوستانی تسلط سے تنگ آ چکے تھے۔ حزب المجاہدین کے لیڈر سید صلاح الدین مقبوضہ کشمیر میں رہتے تھے اور ایک ریاستی الیکشن میں امیدوار بھی تھے۔ کوئی سیاسی راستہ نہ رہا تو مجبوراً پاکستان آ گئے اور یہاں سے پھر جہادی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ لیکن ہندوستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر کے باشندے ہندوستان سے کیوں نفرت کرتے ہیں۔ اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے؟
ایک بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ جب تک ہندوستان کی باگ ڈور ان آر ایس ایس والوں کے ہاتھوں میں ہے ہمارے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ ان کی تمام سیاست مسلمان اور پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔ ہم جیسے کہتے تھے کہ نظریاتی انتہا پسندی ہمارا خاصا ہے لیکن تعصب کی عینکوں کے بغیر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ آر ایس ایس اور بی جے پی والے اُس ہڈی کے بنے ہوئے ہیں کہ پاکستان کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھ سکتے۔ امن کے چاہنے والے ہندوستان میں بہت ہیں لیکن یہ جو بی جے پی برانڈ کی سیاست ہے اس کی بنیاد نفرت اور تعصب ہے۔ ان کے مقابلے میں پنڈت جواہر لال نہرو جیسے ہندوستانی نیتا فرشتے لگتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گاندھی جی کو نہیں بخشا‘ انہوں نے پاکستان کو کیا بخشنا ہے۔
پر ہمیں بھی کچھ خیال کرنا چاہیے۔ اس معرکے میں کامیابی ہمارے سروں کو نہ چڑھ جائے۔ ہمیں قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ ہندوستانی میڈیا آگ اُگلتا ہے تو ہم اُس کی تقلید کریں۔ ہمارا اعتماد بڑھا ہے‘ اندرونی رنجشوں کی کیفیت زائل ہوئی ہے۔ قومی وحد ت کا تصور اُجاگر ہوا ہے۔ پر یہ کیفیت گھمنڈ میں نہ بدلے۔ کوشش اب یہ ہو کہ پی اے ایف جیسی کارکردگی معاشی اور سیاسی میدانوں میں بھی دکھائی جائے۔ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت ہم میں ہے‘ اس صلاحیت کو اب بروئے کار لایا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں