"AYA" (space) message & send to 7575

عشق کے امتحاں جو باقی ہیں

جنگ افضل وہ ہوتی ہے جو مزید جنگوں کا راستہ روکے اور جس کا کوئی سیاسی مقصد ہو۔ ہندوستان کا مقصد کیا تھا؟ کہ پاکستان پر اپنی دھاک بٹھائے۔ اس میں وہ بُری طرح ناکام ہوا ۔ دھاک کیا بیٹھنی تھی لینے کے دینے پڑ گئے۔ ہندوستان کی حیثیت وہ نہیں جو اپنے علاقے میں اسرائیل کی ہے۔ نہ پاکستان کی وہ حیثیت ہے کہ خوامخواہ کا رعب اس پر جمایا جائے‘ لہٰذا ہم دونوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ شانتی سے رہیں اور فضول کی زور آزمائی سے اجتناب کریں۔ ہندوستان بڑا ملک ہوگا لیکن جیسے روس یوکرین میں دیکھ رہا ہے اور امریکہ نے افغانستان اور عراق میں دیکھا جتنا بڑا ملک بھی ہو جنگ گھاٹے کا سودا ہی رہتا ہے۔
اس معرکے میں ہم سرخرو رہے لیکن ہمارے باقی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ ہندوستان میں کم از کم سیاست اور حکمرانی کے اصول وضع ہیں۔ نیتا جو بنتا ہے چناؤ کے ذریعے بنتا ہے۔ ہم اب تک اس قسم کے بنیادی سوال حل نہیں کرسکے اور جب تک ہم سے یہ سوال حل نہ ہوں گے ہمارے پائلٹ جتنے بھی اچھے ہوں‘ ہمارے لڑاکا جہاز ہواؤں میں جتنے کارگر ثابت ہوں‘ ہمیں مسئلہ رہے گا۔ فروری 2024ء کے قومی انتخابات کے نتائج کو جس طریقے سے ہینڈل کیا گیا اُس سے سیاست کا ایک باب ختم ہوا‘ سیاست تو ختم نہیں ہوئی۔ آئندہ انتخابات ہونے ہیں یا نہیں؟ 2024ء کے الیکشن جیسے بھی تھے آئین کے مطابق آئندہ الیکشن 2029ء میں ہونے ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہونے ہیں تو سوال نہیں اٹھے گا کہ کس طریقے سے ہونے ہیں؟ یا پھر وہی سب کچھ رچایا جائے گا جو پچھلی بار رچایا گیا؟ اس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ مسلح افواج کی ذمہ د اری قوم کا دفاع ہے اور ہماری افواج نے ثابت کیا ہے کہ اس فرض کو بخوبی نبھا سکتے ہیں۔ لیکن قوم کی ذمہ داری مسلح افواج کے ساتھ کیا بنتی ہے؟ ایک تو وہ سب کچھ مہیا کرے جو قومی دفاع کیلئے ضروری ہے اور دوم ملک میں ایسا نظام وضع ہو جو قوم کوسیاسی اور نفسیاتی استحکام بخش سکے۔
ایک بات واضح ہے‘ ہم پیچھے کی طرف نہیں جاسکتے‘ سیاسی حقیقتیں اس چیز کی اجازت نہیں دیتیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے‘ پاکستان تحریکِ انصاف کو وہ کچھ نہیں مل سکتا جو کہ اپریل 2022ء میں اُس کے پاس تھا۔ وہ حالات واپس نہیں آ سکتے‘ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں اُسے نہیں مل سکتیں۔ یہ نوشتۂ دیوار ہے۔ لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ کیا پاکستان کے مستقبل کے بارے میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا؟ کہ ووٹ ایک طرف پڑیں اور نتائج کچھ اور ہوں۔ ایسا کوئی کرنا چاہے بھی تو دائمی بنیادوں پر ایسا ہو نہیں سکتا۔ ایسے بندوبست پر ایوبی چھاپ ہو یا ضیاالحق کی مہر‘اُس کی ایک عمر ہوتی ہے اور پھروہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ ایسے سلسلے کو کوئی دائمی حل تو نہیں کہے گا۔
یہ درست ہے کہ اس وقت تو یہی سوچ ہوگی کہ اگلے الیکشنوں کا وقت آیا تو دیکھا جائے گا۔ لیکن جیسے ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ایئرفورس کیلئے فلاں جہاز چاہئیں‘ فلاں ریڈار سسٹم بہترہے‘ ملک کو چلانے کیلئے بھی کچھ اصول طے کرنے پڑتے ہیں۔ اور ستتر سالوں میں ہم یہ نہیں کرسکے۔ مسلح افواج کی کارکردگی قومی حیثیت کا ایک جزو ہوتا ہے۔ قومی حیثیت بہت سی دیگر چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ قومیں کن چیزوں سے جانی جاتی ہیں؟اُن کی معیشت میں کتنا دم ہے۔ اُس قوم کے باشندوں کی صلاحیت یا جسے انگریزی میں پروڈکٹیویٹی کہتے ہیں وہ کتنی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا کیا مقام ہے۔ سیاسی نظام کیسا ہے۔ مجموعی احساسِ تحفظ اُس ملک میں کتنا ہے۔ اس چار روزہ معرکے میں افواج نے تو اپنا لوہا منوا لیا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ تو نہ اخذ کیا جائے کہ ہم نے اپنے تمام مسائل حل کر لیے ہیں۔ قوم تو یہ چاہتی ہے کہ جیسی کارکردگی افواج کی رہی ہے وہی ہنر اور صلاحیت سیاست اور معیشت کے میدانوں میں بھی دیکھی جائے۔ ہواباز ہمارے آسمانوں میں داستانیں رقم کررہے ہوں اور ہزارو ں کی تعداد میں پاکستانی بھکاری سعودیہ اور دوسرے ایسے ممالک سے نکالے جا رہے ہوں۔ جوان اور افسر لمبے لمبے عرصوں تک بارڈروں پر تعینات ہوں اور سینوں پر گولیاں کھا رہے ہوںتو ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ان جیسی دلیری زندگی کے دیگر شعبو ں میں ہم دکھائیں؟ قومی گفتگو ایسی ہونی چاہیے جس پر ہمارے جوان اور افسر ناز کر سکیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارکردگی ایسی ہو کہ ہماری سپاہ اُس پر فخر کر سکے۔ قومی قیادت ایسی ہو کہ سر فخر سے بلند ہو جائیں۔
یہ سب کچھ تب ہوسکتا ہے جب سیاسی تضادات اور پیچیدگیاں ختم ہوں۔ انتخابات ہوں تو متنازع نہ ہوں۔ حکومتیں وہ ہوں جو عوام کے ووٹ لے کر آئی ہوں۔ لیڈر وہ ہوں جو بیساکھیوںکا سہارا نہ لیں۔ معیشت صحیح ڈگر پر ہو۔ مانگے تانگے پر گزارا نہ کرنا ہو۔ ایک زما نہ تھا جب پوری عرب دنیا سے طالب علم یہاں پڑھنے آتے تھے۔ رسالپور ایئرفورس اکیڈمی میں باہر کے کیڈٹ ٹریننگ لینے آتے تھے۔ سٹاف کالج کوئٹہ کا ڈنکا ہر جگہ بجتا تھا۔ بیچ کے جھمیلوں میں وہ مقام ہم نے کھو دیا۔ ایک تو اس افغانستان کے جہاد نے ہمارا ستیاناس کیا۔ جنرل ضیا الحق کی اپنی ترجیحات تھیں اور افغانستان میں حالات ایسے بنے کہ اپنی بقا کو سامنے رکھ کر پوری قوم کو اُس جہاد کے ایندھن میں جھونک دیا۔ لڑائی دوسروں کی تھی ‘ فائدہ بھی اُنہی کا تھا۔ پاکستان پر ایک چھاپ لگ گئی اور ایسی چھاپ کہ آج تک اُسے دھونے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ خواجہ آصف کو کہنا تو نہیں چاہیے تھا کیونکہ ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے لیکن آسٹریلوی خاتون صحافی نے پوچھا تو بغیر سوچے کہہ بیٹھے کہ دہائیوں تک مغرب کا گندا کام ہم کرتے رہے۔ جسے وہ گندا کام کہہ رہے تھے وہ افغان جہاد کی پیداوار تھا۔ بات تو تب بنے جب ہندوستان کے ساتھ اس معرکے کے بعد دیگر مسائل کی طرف ہم دھیان دینے لگیں۔
خطرہ البتہ یہ ہے کہ جو میدان مار جائیں وہ نصیحتوں پر کان نہیں دھرتے۔ میدان مارنے سے اعتماد بڑھ جاتا ہے تو یہاں بھی کیفیت یہی ہوگی کہ جب ہم سرخرو ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ہم کرتے آئے ہیں وہ درست تھا۔ لہٰذا جو اندر ہے اُس کا اندر رہنا ہی بہتر ہے اور جیسی یہاں سیاست چلائی گئی وہی درست راستہ تھا۔ اور اگر یہ درست ہے اور آسمانوں نے بھی فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا ہے تو پھر تبدیلی کس چیز کی اور تبدیلی کی کیا ضرورت؟ میری اپنی دانست میں یہاں یہی سوچ زیادہ پختہ رہے گی اور جو چلے ہوئے کارتوسوں سے سیاسی بندوبست ترتیب دیا گیا ہے اُسی سے کام چلایا جائے گا۔
اللہ معاف کرے لیکن یہ چلے ہوئے کارتوس واقعی ایسے ہی لگتے ہیں۔ معرکے کے حوالے سے یہاں جو تماشے لگے ہیں کہ ساری پلاننگ میاں صاحب کی زیرنگرانی ہوئی اور یہ کہ اصل میں جے ایف تھنڈر کس نے بنائے یہی لوگ ایسے تماشے کر سکتے ہیں۔ افواج نے تو ثابت کیا کہ زندہ قوم ہیں ۔ قوم نے بھی ثابت کیا کہ حملہ ہوا تو قوم اور افواج میں کوئی فرق نہ رہا۔ رنجشیں بھلا دی گئیں‘ گلے گشارے ختم ہو گئے۔ اس موقعے کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ معاشرے میں نفاق کی کیفیت رہی ہے‘ اس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن غلطیاں ہر اطراف سے ہوئیں‘ لہٰذا ماضی کی تلخ یادیں اب بھلا دینی چاہئیں۔ اس کیلئے قوم کو نریندر مودی کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اتحاد کا ایسا موقع فراہم کیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں