"AYA" (space) message & send to 7575

سلگتے ارمان

تھوڑے سے وقت میں بہت کچھ ہو گیا اور باتیں بھی بہت ہوئیں۔ جشن منا لیے اور کچھ اعلیٰ قسم کے اعزازات بھی مل گئے۔اس کے بعد اب آگے کو نہیں دیکھنا چاہیے؟ کیونکہ جو دیگر مسائل درپیش تھے وہ اپنی جگہ موجود ہیں۔ طلسم سے نکلیں گے تو ان حقیقتوں کا ادراک ہو گا۔
یہ خوشخبری اپنی جگہ کہ فرانسیسی طیارے بنانے والی کمپنی کے حصص گر گئے اور چینی کمپنی کے حصص اوپر چلے گئے۔ لیکن ہمارے حصص یعنی قوم کے کشکول میں پڑی ہوئی دولت وہ تو ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھی۔ بجٹ کا حساب پورا کرنے کیلئے حسبِ دستور مانگے پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اور جو قرض کی مد میں آئندہ مالی سال میں ادائیگیاں درکار ہوں گی اُن میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ درست ہے ہوا بازوں کی کارکردگی سے خوشی ہوئی‘ جوش و جذبہ دیدنی تھا‘ حتیٰ کہ کچھ لمحے کشکول کی مجبوریاں بھی یاد نہ رہیں۔ لیکن آنکھ ملنے پر اردگرد تو وہی پرانا سماں وہی تلخ حقیقتیں۔
ہاں نصیحتوں کا بازار بھی گرم ہوا کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھایا جائے کہ جو کامیابی چار روزہ معرکے میں نصیب ہوئی ویسی کامیابیاں ہر طرف دیکھنے کو ملیں۔ معیشت کے پہیے تیز رفتار ہو جائیں‘ برآمدات ایسی بڑھیں کہ تمام حساب پورے ہو جائیں۔ درسگاہوں میں ایسے محقق اور سائنسدان ہوں کہ دنیا رشک کرے۔ افسوس کہ یہ سب خواب گاہوں کی باتیں ہیں۔ وقتی جذبہ اپنی جگہ لیکن اصل میں پرانی حقیقتوں نے کوئی نیا لبادہ نہیں اوڑھا۔
ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ فیلڈ مارشل والی تقریب کی کارروائی انگریزی میں کیوں ہوئی۔ یہ درست ہے کہ پورے برصغیر میں انگریزی بہت پڑھی اور بولی جاتی ہے لیکن انگریزی کی ادائیگی وہ نہیں رہی جو ایک زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ جناح صاحب یا ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح کوئی آج کا لیڈر انگریزی بول سکتا ہے؟ اور اگر نہیں تو اردو سے کام کیوں نہیں چلاتے؟ انگریزی تقریر پڑھنے میں جنابِ صدر کو دقت پیش آ رہی تھی اور وزیراعظم صاحب مائیک پر آتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریر یا الفاظ سے کشتی کر رہے ہوں۔ البتہ بیٹن دیتے وقت ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ وزیراعظم کی کوشش تھی کہ صدر صاحب کے ہاتھ نہ لگیں۔سب سے اچنبھے کی بات یہ کہ تقریب تو خوشی کی تھی مگر کچھ حضرات کے چہرے اُترے ہوئے تھے۔ اس عمر میں ایسی تقریبات کا دیکھنا چھوڑ دیا ہے لیکن دوسرے روز کسی نے فون کرکے پوچھا تو پھر یوٹیوب پر جا کر تقریب دیکھی تو واقعی بعض کے چہروں پر ایسے تاثرات تھے جیسے کسی کرب سے گزر رہے ہوں۔سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی۔
اتنا احساس تو اب پیدائشی خوش فہموں کو بھی ہو چکا ہو گا کہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں بہتوں کیلئے بڑا کٹھن ثابت ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں تو عمران خان کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ اُن پر یہ بھاری وقت ہے۔ اقتدا ر سے معزولی تو پرانی بات ہوئی لیکن اُن کی مسلسل قید کسی بڑی ٹریجیڈی سے کم نہیں۔ کہاں اُن کی مقبولیت اور کہاں یہ حقیقت کہ ایک بڑی جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مقید ہیں۔ لیکن ملنے والوں میں اتنا تو سب کہتے ہیں کہ اُن کا چہرہ کبھی لٹکا ہوا نہیں دیکھا۔ اُن کے حوصلے میں کسی نے کبھی کوئی کمی محسوس نہیں کی۔ اس لیے کیا ماجرا ہے کہ جن کے نصیب جاگ اٹھے اور جن کے پاس سب کچھ ہے اُن کے چہرے گِرے ہوئے ہیں۔ اگر اس بات میں کوئی مبالغہ سمجھے تو اس تقریب میں میاں صاحب کا چہرہ دیکھ لے۔
مسئلہ کچھ یوں لگتا ہے کہ معتوب جماعت امید پر جی رہی ہے۔ مصیبتوں کے باوجود دل میں یہ ارمان پالا ہوا ہے کہ رات جتنی اندھیری ہے رات ہی تو ہے‘ گزر جائے گی اور پھر سویرا ہو گا۔ ایسی امید کے سہارے انسان بہت کچھ سہہ لیتا ہے۔ قدرے جوانی میں ایم آر ڈی اور اپوزیشن کے جلسوں میں بھٹکتے پھرتے تھے اس یقین کے ساتھ کہ جنرل ضیا الحق کے دور کا خاتمہ ایک دن تو ہو گا۔ اُس زمانے میں ذاتی حالات خراب رہے ہوں گے لیکن سیاسی مایوسی کبھی سر نہ آئی۔ ہمارے جذبات تو اب پرانے ہو گئے لیکن معتوب جماعت کے نوجوان لوگ ملتے ہیں تو اُن میں وہی کیفیت نظر آتی ہے جو ایک زمانے میں ہماری ہوا کرتی تھی۔ پر جسے حکمران جماعت زبردستی بنایا گیا ہے اُس کی کیفیت بالکل مختلف ہے۔
جناب وزیراعظم تو مزے لے رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے قائم مقام دور میں انوار الحق کاکڑ لے رہے تھے۔ لیکن جیسے عرض کرچکے ہیں بانی (ن) لیگ کی کیفیت کچھ اور نظر آتی ہے۔ یہ احساسِ فراغت تو نہیں کہ تمام دکھاووں کے باوجود وقت کے جبر کے ہاتھوں وہ فارغ ہو گئے ہیں؟ سلگتے ارمان ہیں جو پورے نہیں ہو رہے۔ صدر صاحب کی نظریں بیٹے پر جمی ہوئی ہیں کہ ایک دن اونچی مسند پر بیٹھے گا۔ (ن) لیگی آگے تو لائے گئے ہیں لیکن وہ جو دل میں ایک قرار ہوتا ہے وہ اُنہیں نصیب نہیں ہو رہا کیونکہ جانتے ہیں کہ پنجاب جو اُن کا سیاسی قلعہ تھا اُس میں عوام کی اکثریت اُن سے منہ پھیر چکی ہے۔ اُس اقتدار کا مزہ بھی کیا جو دوسروں کی مرہونِ منت ہو۔
اب یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ اُس باغی نما صوبے میں ہو گا جہاں شورش کی تپش پھیلی ہوئی ہے۔ طاقت کے اصل مراکز اب توجہ وہاں دیں گے کیونکہ پاکستان میں امن کی بحالی کا کام دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا اور دوسرا پاکستانی سیاست کا کچھ کرنا۔ پاکستانی سیاست کا مسئلہ ہنوز یہ ہے کہ اکثریت کی وفاداریاں ناپسندیدہ روشوں کے تابع ہیں۔ ظاہر ہے ناپسندیدہ سرکارِ اعلیٰ کی نظروں میں۔ یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا اس کا جواب اب تک کوئی نہیں دے سکا۔
محمد حنیف لکھاری ہیں‘ انگریزی میں کتب لکھی ہیں۔ آج کل بی بی سی پر پنجابی میں پاکستان کے حالات پر کچھ کہہ دیتے ہیں۔ کیا کمال کی اُن کی پنجابی ہے اور سیدھے منہ ایسا کچھ کہہ دیتے ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ وہ مکالمے ایسے ہیں کہ یہاں کہیں چھپ نہیں سکتے۔ اور یہی اظہار کے حوالے سے وطنِ عزیز کا پرابلم بن چکا ہے کہ بات کرنے میں وہ آزادی نہیں رہی جو ہوا کرتی تھی۔ احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے الفاظ کا چناؤ پھونک پھونک کر کرنا پڑتا ہے۔
نریندر مودی اور بھاجپا حکومت کے باوجود وہاں پھر بھی کرن تھاپر جیسے صحافی موجود ہیں۔ باہر بیٹھے پاکستانی تو توپیں چلا سکتے ہیں لیکن یہاں مشکل ہو جاتی ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے اور اس کی طرف کچھ توجہ دینی چاہیے۔ طاقت کے مراکز مضبوط ہو چکے ہیں۔ مضبوط تو پہلے بھی تھے لیکن سیاسی حوالے سے پوزیشن بہتر ہو گئی ہے۔ اس سے کچھ اعتماد پیدا ہو تاکہ نرمی کی کچھ گنجائش نکلے۔ طیاروں کی اُڑان دیکھ لی‘ پاکستان کی اُڑان بھی تو دیکھیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں