چار، پانچ اچھے خاصے بڑے لوگ اور پِدّی جتنا کلیجہ۔
میں پہلے ہنس دیا۔ پھر کہا: جو کام اب سی پیک کے ذریعے ہو رہا ہے‘ یہی تو شہیدِ ملت لیاقت علی خان نے کرنے کو کہا تھا۔ پوٹھوہاری وسیب کی دیہاتی دانش بھی یہی بتاتی ہے:
''دُور دے سجناں دے، راہ تکنے فضول ہوندے‘‘
سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت پِدّی جتنا کلیجہ رکھنے والے امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے منتظر تھے۔ لیکن شیر دل لانس نائیک محفوظ شہید نے چھاتی میں گولیاں کھا کر‘ ٹانگیں بھی گنوا کر مورچہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ایران، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کوریا، وینزویلا اور ملائشیا اسی سفر کے راہی ہیں۔
امریکہ سے اچھے تعلقات ضروری ہیں لیکن دو طرفہ۔ کسی بھی دوسرے ملک سے مصالحت کی بنیاد ہمیشہ قومی مصلحت پر رکھی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے‘ آزاد قومیں اور ان کی آزاد لیڈرشِپ صدیوں سے ایسا ہی کرتی چلی آئی ہے۔ ایک ٹیلی فون کال پر لیٹ جانے والے۔ در، در پر ''اقامے‘‘ کی بھیک مانگنے کے لیے جھولی پھیلانے والے۔ نسلوں سے خوف زدہ۔ سہمے ہوئے گُونگے لیڈر خاموش ہیں۔ قوم فارن پالیسی کے نگہبان تنخواہ دار لشکر پر تین حرف بھیج رہی ہے۔ ایل این جی وزیرِ اعظم کہتا ہے‘ سعودی عرب جا رہا ہوں۔ ارے شیرو، دلیرو، جری بہادرو، بیان پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا۔ ساتھ پاکستان پر حملے کی دھمکی یو ایس کے سیکرٹری خارجہ ریکس وین ٹیلرسن نے دی۔ تمہاری دھرتی اماں جی پر حملے کا اعلان بھی کر دیا۔ سعودی عرب نے کیا، کیا ہے؟
کیا او آئی سی حملہ آور ہو رہی ہے؟ چاروں پِدّی پہلوان، چاروں شانے چِت ہو گئے۔ کہنے لگے: اگر حملہ ہو گیا تو پھر۔ یہ اندھیرے کے پیامبر روشنی سے ڈرتے ہیں۔ امریکہ کے دو عدد اعلیٰ ترین عہدے داروں نے جو بیانات جاری کیے‘ وہ ہمیں خوف زدہ نہیں کر سکتے‘ بلکہ ان کے بیان میں سے پاکستان کے لیے نئے مواقع دریافت ہوئے ہیں۔ جنرل باجوہ اور کامریڈ رضا ربانی نے دھرتی ماں کا حق ادا کیا۔ صبح سویرے رضا کو فون کر کے خراجِ تحسین پیش کیا۔ دلیری پر داد دی۔
آ ئیے پاکستان کے لیے اس ٹرمپ کارڈ کو زمینی حقائق میں تلاش کرتے ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار نے امریکہ کے لیے گمبھیر اندرونی چیلنج کھڑے کر دیے ان میں سے کچھ یہ ہیں:
پہلا چیلنج: امریکہ کے طول و عرض میں سفید امریکیوں کی بالا دستی
(white supremacy) کی خوفناک مہم چل نکلی ہے‘ جس کے نتیجے میں امریکنوں کی تاریخ کے بدترین تصادم ہو رہے ہیں۔ دو واقعات میں گورے امریکی شہریوں نے اپنے رنگ دار ہم وطنوں پر تیز رفتار گاڑیاں دوڑا دیں۔ گوری گولیوں سے مارے جانے والے رنگ دار امریکی اور زخمی اس کے علاوہ ہیں۔ گوروں کی بالا دستی کے حق میں انتہائی اشتعال انگیز ریلیاں بھی نکل رہی ہیں۔
دوسرا چیلنج: یو ایس کے پڑوسی ملکوں کی سرحدوںپر دیواریں اُگانا۔ کئی نسلوں سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مقیم، رنگ دار لاطینی امریکنوں کو نکال باہر کرنے کے حکومتی اعلانات۔
تیسرا چیلنج: ساری دنیا کے مسلمانوں کو ٹریول بین‘ عالمی تنہائی اور اچھوت بنا دینے کی دھمکیاں، غیر ضروری اقدامات ہیں۔ ایسے اقدامات جن کے خلاف نہ صرف امریکی رائے عامہ میں ری ایکشن ہوا بلکہ امریکہ کی آزاد عدلیہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس طرح کے ایگزیکٹو آرڈرز کو ردّی کی ٹوکری میں دے مارا۔
چوتھا چیلنج: صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سارے امریکی میڈیا کا مورچہ ہے‘ جس کے نتیجے میں صدر صاحب اول فول بیانات، بے معنی اور لا یعنی ٹویٹس جاری کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ٹویٹ نے امریکی صدر کا دورہء برطانیہ مشکوک بنا ڈالا۔ ٹویٹ کے بعد برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے نے امریکی صدر کے خلاف سخت بیان جاری کیا‘ اور یوں برطانیہ میں صدر ٹرمپ کی آمد کے خلاف بڑے مارچ منظم ہونا شروع ہو چُکے ہیں۔
پانچواں چیلنج: امریکی صدر کی اپنے ملک کی ایک مضبوط ترین لابی یہودیوں سے لفظی گولہ باری ہے‘ جس کے بطن سے امریکی معیشت کے لئے چیلنجز در پیش ہونا صہیونی لابی کا نپا تُلا ردِ عمل ہے۔
یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ امریکہ اب 9/11 والا امریکہ نہیں رہا۔ تب کا امریکہ دنیا کی واحد سُپر طاقت تھی۔ آج اسے یوکرائن سے شروع کر کے شام تک روس کا سامنا ہے۔ دوسری ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھی 1970ء والا پاکستان نہیں۔ ایک دوسرے سے ہزار میل دور مشرقی اور مغربی پاکستان۔ درمیان میں بھارت جیسا ازلی دُشمن۔ یہ ناقابلِ تسخیر حقیقت بھی جان لیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان باہمی سلامتی کے دو معاہدے موجود ہیں۔ ساتھ ہی ایک اور علاقائی تبدیلی بھی ذہن میں رہے۔ امریکہ کے پروردہ مشرقِ وسطیٰ میں پراکسی جنگ لڑنے والوں کو کھلی پسپائی کا سامنا ہے‘ جس کے نتیجے میں امریکہ افغانستان کے ذریعے سابق روسی ریاستوں کے طویل بارڈر کو ڈیورنڈ لائن 2 بنانے میں دل چسپی رکھتا ہے۔ یوں روس علاقائی سلامتی میں پاکستان کا ایک اور قدرتی اِتحادی ہے۔ جاری عشرے میں روس کے ساتھ دفاعی امور میں پاکستان کی پارٹنرشپ امریکہ سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں امریکہ کی پارٹنرشپ روس نے پہلے ہی ری پلیس کر دی۔
اس پسِ منظر میں پاکستان کے مہربان علاقائی دوست چین کی جانب سے امریکی صدر اور وزیرِ خارجہ کے بیان پر پہلا ردِ عمل کئی معنے رکھتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ علا قائی بدامنی کا بہانہ بنا کر امریکہ سی پیک کے ارد گرد بُوٹ زمین پر اُتارنے سے باز رہے۔ آسان لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے چین نے امریکہ کے لئے ''وارننگ شاٹ‘‘ فائر کیا۔ قوم اپنے مسلح اداروں کے ساتھ کھڑ ی ہے۔ آئینی ادارے، دفاعِ وطن، علاقائی سلامتی اور ملکی خود مختاری کے محاذ پر شانہ بشانہ ایستادہ ہیں‘ لیکن یہ شیر، لومڑ، گیدڑ اور بندر‘ جو پاکستان کی ہر مشکل میں راحت محسوس کرتے ہیں‘ سب کہاں کھڑے ہیں۔ قوم جاننا چاہتی ہے غیرت مند وزیر اعظم‘ انتہائی بہادر کابینہ اور اپنی فوج کے خلاف تقریریں کرنے میں مشہور وزیرِ خارجہ کہاں ہیں؟ سسلین مافیا نے پانچ سال میں پاکستان کو جو خارجہ پالیسی دی‘ ٹرمپ اور ٹلرسن کے بیانات اسی کا شاخسانہ ہیں۔ امریکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر لفظوں کی آگ برسا رہا ہے۔ پھونکنی اور ہتھوڑے والے قومی اداروں کے خلاف ہر مہم کی فنڈنگ کر رہے ہیں۔ اسی لئے قوم ایک دفعہ پھر کرپٹ سویلین بالا دستی کے دعوے داروں سے کوئی توقع نہیں رکھتی۔ اگر میں غلط ہوں تو حکومت ٹرمپ کے خلاف پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے اور پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کے اعلان پر روڈ میپ دے۔ مرغی انڈے کی تر قی، سریے جنگلے کی ترقی، شوگر گنے کی ترقی، میگا پراجیکٹس کی ترقی، سستے تندوروں کی ترقی، لیپ ٹاپ کی ترقی، بڑے بڑے محلات کی ترقی، غیر ملکی اکائونٹس کی ترقی، پورے ٹبرّ کی ترقی اور سارے مافیا کی ترقی مل کر ''شاید‘‘ جمہوریت تو کہلا سکتی ہے‘ لیکن ماں دھرتی کے ایک انچ کا تحفظ کرنے کے قابل نہیں۔ اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو وطن آزار مُردو، کچھ کر کے دکھا دو۔ کچھ کر نہیں سکتے تو موت کی خاموشی توڑو۔ جس ماں کو لوٹ کر کھاتے ہو اُسے دھرتی ماتا سمجھ لو۔ اتنی غیرت کا مظاہرہ تو کرو جتنا تمہارا یار مُودی اپنی ''گائو ماتا‘‘ کیلئے کر رہا ہے۔
ہماری مٹی نئے زمانے کے معبدوں میں اذان دے گی
ہمارے پرچم کی سر بلندی کو، یہ زمین آسمان دے گی