"SBA" (space) message & send to 7575

قمر یا چاند

ڈاکٹر صاحب کا ایک ہاتھ گاڑی کے سٹیرنگ پر تھا دوسرے ہاتھ میں موبائل فون۔ وہ کسی فون سُننے والے کو بار بار چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے: مریض کو وینٹی لیٹر پر مت ڈالنا۔ نو وینٹی لیٹر۔ سانس اور نبض پر مت جائو غور سے سنو غور سے۔ ڈاکٹر صاحب کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔ آخر میں یہ جملہ بول کر فون بند کر دیا کہ میں ابھی پہنچ جاتا ہوں۔ ٹریفک کے اژدھام میں ڈاکٹر صاحب کو ایک ورکشاپ نظر آ گئی۔ انہوں نے گاڑی وہاں چھوڑی اور دوڑ کر ہیوی موٹر بائیک والے رکشے میں بیٹھ گئے۔ بینکاک کی سڑکوں پر اس رکشے کو تُگ تُگ کہا جاتا ہے۔ جیسے تیسے بھاگتا ہوا ڈاکٹر آئی سی یو میں پہنچا‘ اور مریض کی ڈوبتی سانسوں میں مسیحائی کی روح پھونک دی۔ قمر چوہدری بولتے چلے گئے۔ وہ نرسیں تھیں یا مامتا کا کوئی روپ۔ ہسپتال کے ہر کوریڈور میں مفت جوس کے ڈبے اور پانی کی فری بوتلیں رکھی تھیں۔ باتھ روم ایسے کہ فائیو سٹار ہوٹل کے واش رومز کو بھی شرما دینے والے۔ عملہ اس قدر شفیق جیسے بچھڑے ہوئے مہربان بہن بھائی۔ باپ پر فدا، عفت مآب بیٹی عائشہ نے اپنے قمر بابا اور ہمارے چاند کو گُردہ عطیہ کرکے گہنا جانے سے بچا لیا۔ الحمدللہ۔ 
یہ آج سے تقریباً 20 برس پہلے کا قصہ ہے۔ ان دنوں میری اماں جی کے گائوں کلیام اعوان کے علاقے جلہاری معظم شاہ سے تعلق رکھنے والے ملک نذیر اعوان اٹک میں سیشن جج تعینات تھے۔ ہمارے دوست اور خطہ پوٹھوہار کے عالمی شہرت یافتہ کرکٹ سُپر سٹار پنڈی ایکسپریس شعیب اختر کا تعلق بھی جلہاری معظم شاہ سے ہی ہے۔ ان کی عدالت میں دوہرے قتل کے ایک مشہور مقدمے میں پیش ہونے کے لیے اٹک جوڈیشل کمپلیکس جانا ہوا۔ دن بھر مقدمے کا ٹرائل ہوتا رہا۔ واپسی پر کامرہ کینٹ کے وسط میں صاف ستھرے ریسٹورنٹ میں دن کا کھانا شام کو کھایا۔ غروب آفتاب سے تھوڑا پہلے حسن ابدال کراس کرکے واہ آرڈیننس فیکٹری کی غربی جانب جی ٹی روڈ سے بذریعہ ترنول اسلام آباد کی طرف مُڑ گئے۔ پی او ایف کے مین گیٹ سے پون کلومیٹر پہلے‘ بائیں جانب سڑک کے کنارے کرسیاں اور چارپائیاں سلیقے سے رکھی تھیں۔ دو عدد ٹریکٹر کچی لنک روڈ بنا رہے تھے۔ میں نے گاڑی کرسیوں کی طرف موڑ لی‘ جہاں چائے کا دور چل رہا تھا۔ گھنے بالوں اور گول چہرے والے بھلے مانس شخص نے آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا۔ ہم بھی چائے میں شریک ہو گئے۔ پتا چلا کہ ہائوسنگ کالونی بن رہی ہے۔ میں نے پلاٹ کا ریٹ پوچھا۔ جواب مِلا: آپ جو بھی رقم دیں گے اس میں پلاٹ بُک ہو جائے گا۔ میری جیب سے صرف 35 ہزار روپے نکلے جو میں نے پراجیکٹ کے مالک کے ہاتھ میں تھما دیے۔ نہ کوئی لکھت پڑھت نہ ہی رسید۔ یہ میری بھائی قمر چوہدری سے پہلی مُلاقات تھی۔
وقت، مصروفیات اور وکالت عربی گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑتے رہے۔ اس عرصے کے دوران بھائی قمر چوہدری کسی قانونی مشورے کے لیے ایک یا دو دفعہ میرے لا آفس آئے‘ اور میں بھی اتنی ہی دفعہ ان کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے ان کی طرف جا سکا۔ پلاٹ کی بُکنگ کے11 سال بعد بھائی قمر چوہدری کے سٹاف کا ایک آدمی میرے لا آفس آیا۔ اس نے شبیر مُنشی کو 18 لاکھ روپے کا چیک پکڑا کر بتایا: آپ کا پلاٹ فروخت ہو چُکا ہے‘ اور قمر چوہدری صاحب نے اس کی قیمت بھجوائی ہے۔
4 روز پہلے کی ہماری ملاقات 20 سالوں میں زیادہ سے زیادہ ساتویں یا آٹھویں مُلاقات ہو گی۔ اگرچہ میں اور اسلام آباد کا شہر ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں‘ لیکن میری شام میں شہرِ اقتدار کی پبلک ریلیشننگ کبھی شامل نہیں رہی۔ وقت کم ہو تو لا آفس کے بعد فیملی کے پاس‘ اگر تھوڑا زیادہ ہو تو مارگلہ ہلز مجھے اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ یہ شہر صحیح معنوں میں میرا حلقہ ہے۔ حلقۂ انتخاب سے حلقۂ احباب تک۔ احباب کا تذکرہ آ ہی گیا ہے تو ان کا شکریہ واجب ہو گیا‘ جن غیر سیاسی مہربان دوستوں نے عشروں سے احبابِ بابر اعوان کا حلقہ بنا کر میری کبھی نہ ختم ہونے والی رہنمائی اور محبت کے دریا بہا رکھے ہیں۔
بھائی قمر چوہدری اپنی ذات میں محبت کا ایسا سمندر ہیں‘ جسے حرص، لالچ، ہوس، کمرشلائزیشن، کارپوریٹ کاری گری پر مبنی کاروبار اور مارکیٹ اکانومی چُھو تک نہیں سکی۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ اس زمانے میں کتنے لوگ ہیں‘ جو آپ کی سرمایہ کاری کہے بغیر جاری رکھیں۔ آپ کی بھولی ہوئی امانت جتلائے بغیر محفوظ رکھیں‘ اور آپ کی محنت کے سرمائے میں اضافے کو پوری دیانت داری کے ساتھ ازخود لوٹا بھی سکیں۔ کتنے قابلِ فخر ہوتے ہیں ایسے ماں باپ جن کی تربیت اندھیروں میں ایسے چاند پیدا کرتی ہے۔ ماں باپ کا ذکر ایک پوٹھوہاری محاورے سے ذہن میں آیا ہے‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب اولاد اچھا کام کرے تو لوگ اسے جنم دینے والی اور اس کے والد کو ''بھاگوان‘‘ یعنی نصیبوں والے یا بخت آور کہتے ہیں۔ کارِ صالح کرنے والے کو شاباش کم ملتی ہے لیکن اسے پیدا کرنے والوں کو بے شمار۔ اگر اولاد کے لچھن کالے کرتوتوں میں تبدیل ہو جائیں تو سب سے پہلی گالی بے گناہ مگر جنم دینے والے جوڑے کو پڑتی ہے۔ ناجانے کیوں ایک اور بات بھی میرے ذہن میں آ رہی ہے جو میں آپ سے ضرور شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ کہ عمومی بھلائی اور فلاح انسانیت کا کام کرنے والے صرف وہ ہی نہیں جن کو ٹی وی سکرینوں پر کوریج ملتی ہے‘ یا پھر پرنٹ میڈیا کے کلر ایڈیشن میں جگہ۔ اچھے لوگ صرف مشہور این جی اوز میں ہی نہیں پائے جاتے۔ نا ہی سرکار سے بھاری امداد ملنے کے بعد لوگوں میں خیر بانٹنے والے ہی بہترین آدمی ہوتے ہیں۔ آج کے سماج میں بہت سے روشن چاند‘ بھائی قمر چوہدری جیسے بھی ہیں‘ جو ہم وطنوں کے درمیان چمکنے سے زیادہ اپنے ہم نفسوں کے لیے تڑپنے میں زیادہ چاشنی تلاش کرتے ہیں۔
بھائی قمر چوہدری بتا رہے تھے کہ جس ہوٹل میں وہ علاج کی غرض سے ٹھہرے وہاں صفائی اور ہائوس کیپنگ والوں سے ان کی دوستی ہو گئی۔ کہنے لگے: میں تو مسافر کے طور پر ان کا تھوڑا بہت خیال رکھتا رہا‘ لیکن جس روز سرجری کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے جانا تھا‘ اس دن ہوٹل سٹاف نے مجھے بے دام زندگی بھر کے لیے خرید لیا۔ نہ صرف میرے فلور کا سٹاف بلکہ ہوٹل کے گیسٹ ریلیشن اور فرنٹ آفس کا سٹاف ''سواس تیکا‘‘ کے انداز میں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ پہلے انہوں نے تھائی زبان میں گڑگڑا کر کوئی دعا پڑھی پھر وہ زاروقطار رونے لگے۔ میں یہ گفتگو سن کر خود ایک کیفیت میں کھو گیا۔ مجھے سال 2010ء یاد آیا جب اے ایف آئی سی راولپنڈی کے آئی سی یو میں داخل ہوا۔ تب ہمارا ایک اور بین الاقوامی ستارہ جہلم والے جنرل اظہر حسین کیانی اس ہسپتال کے کمانڈنٹ تھے۔ پچھلے ہفتے تین ماہ کے بعد روٹین کا چیک اپ کروانے کے لیے میں پشاور روڈ کینٹ میں واقع اے ایف آئی سی پہنچا۔ وہی گیٹ وہی دروازہ لیکن اندر داخل ہوا تو خوشگوار حیرتوں کا ایک جہان میرا منتظر تھا۔ اے ایف آئی سی کا نیا آئی سی یو کسی بھی امریکی ہسپتال سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ سینٹرل لندن کے کوئین میری ہسپتال کا آئی سی یو میں نے دیکھ رکھا ہے‘ جو اے ایف آئی سی کے موجودہ کمانڈنٹ میجر جنرل ڈاکٹر صفدر ملک کی نگرانی میں نئے بنائے گئے آئی سی یو کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایسے معجزے اس ملک میں ہو رہے ہیں جہاں 20 کروڑ لوگوں کے لیے صحت کا بجٹ اڑھائی فیصد رکھا جاتا ہے۔ لیکن خالی سڑک پر 1 لاکھ لوگوں کے لیے دوڑنے والی بسوں کا بجٹ اور 2 لاکھ لوگوں کے لیے چلنے والی اورنج ٹرین کا بجٹ سینکڑوں ارب سے تجاوز کر جاتا ہے۔ 
میں ان لوگوں کو چاند کہوں یا قمر جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر دوسروں کے لیے جینے کی جرأت رکھتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں