"SBA" (space) message & send to 7575

ملک کیسے بچتے ہیں؟

یہ دو ایسے ملکوں کی آپ بیتی ہے جن پر ساری دنیا کی ایٹمی اور فوجی طاقتوں نے اکٹھے ہو کر ساری دنیا کے سارے بم گرا دیے۔ اِن میں پہلا ملک جاپان ہے‘ جو دو ایٹم بم ہیروشیما اور ناگا ساکی کی چھاتی پر کھانے کے بعد بھی بچ گیا۔ 6اگست 1945ء کو لٹل بوائے نامی امریکی ایٹم بم گرائے جانے سے پہلے جاپان کے جزیرے ہیروشیما کی کل آبادی تین لاکھ‘ پینتالیس ہزار شہریوں پر مشتمل تھی۔ ایٹمی دھماکے کے بعد ہیروشیما کے ایک لاکھ چالیس ہزار نہتے جاپانی آگ اور خون کے شعلوں کا ایندھن بن گئے۔ بم گرانے والوں کا خیال تھا کہ یہ شہر پھر کبھی آباد نہیں ہو سکتا۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آج اسی تباہ شدہ ہیروشیما کی آبادی گیارہ لاکھ ننانوے ہزار‘ 3سو اکانوے شہریوں سے آگے جا چکی ہے۔
جاپان کی لیڈر شپ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بتایا کہ ملک ایٹم بم گرنے کے بعد بھی کیسے بچتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہی ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جانے کے صرف تین دن کے بعد 9 اگست 1945ء کو ناگا ساکی پر دوسرا ایٹم بم Fat Man گرا دیا گیا۔ اُس قیامت خیز دن ناگا ساکی کی آبادی دو لاکھ‘ تریسٹھ ہزار تھی جس میں سے اسّی ہزار کے قریب بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن گئے۔ ناگاساکی کے عوام اور جاپان کی لیڈرشپ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دوسری مرتبہ بتایا کہ ملک پر دو ایٹم بم گرا دیے جائیں‘ تب بھی ملک کیسے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اب ناگا ساکی کی آبادی چار لاکھ‘ سات ہزار‘ چھ سو چوبیس افراد پر مشتمل ہے۔
ملک بچانے کا ایک دوسرا فارمولا بھی ہے۔ وہ جو ان دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آزمایا جا رہا ہے۔ تقریباً چھ عشرے پہلے پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہوا تھا۔ امداد کے نام پر جو قرض ہمیں ملتا آیا ہے‘ اسے Bait Aid کہتے ہیں یعنی روٹی کا ایسا ٹکڑا جس کے اندر تیز دھار والی کُنڈی چھپی ہوئی ہے‘ جو روٹی منہ میں ڈالتے ہی شکار کا گلا چیر دے گی۔ فخر کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا وزیر خزانہ پھر سے NRO دے کر امپورٹ کیا گیا ہے جسے ایک بار نہیں دو بار نواز شریف اور تیسری بار شاہد خاقان عباسی کے دور میں آزمایا جا چکا ہے۔ وہ جب بھی وزارت سے نکلا‘ کسی نہ کسی محل میں پناہ گزین ہوا مگر معیشت کومے میں گئی‘ پھر وینٹی لیٹر پر منتقل ہوئی۔ لوگ اس برآمد شدہ قیمتی مال کی دوبارہ نہیں بلکہ سہ بارہ درآمد پر پریشان ہیں۔ سادہ وجہ یہ ہے کہ وینٹی لیٹر کے بعد اگلی منزل Mortuary ہوتی ہے۔ اس فارمولے کو ''ملک سے لٹے ہوئے پیسے کیسے بچتے ہیں‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
جاپان کے بعد دوسری کہانی جرمنی کی ہے۔ اس کا آغاز سیکنڈ ورلڈ وار کے ختم ہونے کے دن یعنی 2 ستمبر 1945ء کو ہوا۔ جرمنی کے چھپن سالہ Great Fewherer ایڈولف ہٹلر نے اپنی گرل فرینڈ تینتیس سالہ ایوا برائون کے ہمراہ 30 اپریل 1945ء کو خودکشی کر لی۔ جرمنی کی مسلح افواج کے لیے Bundeswehr آرمڈ فورسز کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ یہ فوج مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ نازی جرمنی کو اتحادیوں نے ایسٹ جرمنی اور ویسٹ جرمنی میں تقسیم کر ڈالا۔ 13 اگست 1961ء کے روز دیوارِ برلن تعمیر ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں مشرقی جرمنی USSR کے شکنجے میں چلا گیا۔ مغربی جرمنی Colonial کیپٹل ازم کا غلام بنا دیا گیا۔ جرمنی کے ایک کروڑ کے لگ بھگ شہری عورتیں‘ بچے اور بوڑھے‘ اتحادیوں کے بارود نے جلا کر خاک و خون میں نہلا دیے۔ پورے جرمنی کی ایک چوتھائی عمارتیں مکمل طور پر برباد ہو گئیں۔ جرمنی کے چھوٹے بڑے 114 شہر صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ ان شہروں کے جو کھنڈرات باقی بچے‘ ان کی کوئی اینٹ بھی ایسی نہیں تھی جس پر کوئی بم یا گولہ نہ گرا ہو۔ بجلی‘ بندرگاہ‘ انڈسٹری‘ کرنسی‘ سڑک‘ سکول‘ بازار‘ پیداوار اور زراعت سب کچھ اجڑ گیا۔ جرمنی کے سرنڈر کے دس سال بعد 1955ء تک ملک کے ڈیڑھ کروڑ لوگ اپنے گھروں کے بجائے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ ان کے صحن میں بمباری کے گڑھے تھے اور چھتیں ہوا میں اڑ چکی تھیں۔ پوری نازی پارٹی کی لیڈر شپ کا ٹرائل‘ فائرنگ سکواڈ سے شوٹنگ اور Hot Persuite کے ذریعے صفایا کر دیا گیا۔
ایک جرمنی کے خلاف جن ملکوں کی فوجیں لڑ رہی تھیں ان میں سوویت یونین‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ فرانس‘ چین‘ آسٹریلیا‘ بلجیم‘ کینیڈا‘ کاسٹا ریکا‘ کیوبا‘ ڈومینیکن ریپبلک‘ یونان‘ چیکو سلاواکیا‘ ایل سیلواڈور‘ گوئٹے مالا‘ ہیٹی‘ ہنڈراس‘ ہندوستان‘ لکسمبرگ‘ نیدرلینڈ‘ نیوزی لینڈ‘ نکارا گوا‘ ناروے‘ پاناما‘ پولینڈ‘ سائوتھ افریقہ‘ یوگوسلاویہ‘ میکسیکو‘ فلپائن‘ ایتھوپیا‘ عراق‘ برازیل‘ بولیویا‘ ایران‘ کولمبیا‘ لائبیریا‘ ایکواڈور‘ پیرو‘ چلی‘ پیراگوئے‘ وینزویلا‘ یوروگوئے‘ ترکی‘ مصر‘ شام اور لبنان بحیثیت ملک شامل تھے جبکہ برصغیرِ ہند‘ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں ان سارے ملکوں سے بھی بے شمار فوجی اکٹھے کیے گئے جن کی کسی ادارے کے پاس صحیح تعداد ہی نہیں ہے لیکن وہ یقینا لاکھوں سے زیادہ تھے۔ یہ زیادہ تر برطانیہ اور فرانس کی کالونیاں تھیں۔
ہزاروں لڑاکا طیارے‘ ہزاروں جنگی کشتیاں‘ ہزاروں بمبار طیارے اور اَن گنت جنگی بحری جہاز‘ ایئر کرافٹ کیریئر اور آبدوزیں بھی جرمنی کے اوپر حملے میں شامل تھیں۔ اس وقت جرمن آرمی کی کل تعداد ایک کروڑ چھتیس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھی جبکہ جرمن ٹینک صرف آٹھ ہزار پانچ سو تھے۔ جرمنی کے مقابلے میں اکیلی USA آرمی کی تعداد ایک کروڑ اسّی لاکھ تھی۔ اکیلے امریکی فوج کے ٹینک جرمنی کے ٹینکوں کے تقریباً برابر تھے‘ آٹھ ہزار سے کچھ زائد۔ UK آرمڈ فورسز کے کل لڑاکا فوجی ایک کروڑ تینتالیس لاکھ جرمنی پر حملہ آور تھے۔ اس کے علاوہ تاجِ برطانیہ کے ٹینکوں کی تعداد 5 ہزار تھی۔ USSR آرمڈ فورسز کی تعداد تین کروڑ چالیس لاکھ تھی‘ جبکہ سوویت یونین کے بائیس ہزار ٹینکس اکیلے جرمنی کے خلاف صف آراء تھے۔(جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں