"SBA" (space) message & send to 7575

غلامانہ طرزِ انصاف سے بغاوت

24اکتوبر 1954ء کو جو بحث شروع ہوئی تھی‘ 4اپریل 2023ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اُسے دفنا دیا۔ یہ تھا نظریۂ ضرورت جس کے تناظر میں 3 ججز کا بار بار ذکر آتا ہے۔ پاکستان کی مارشل لاء زدہ تاریخ اور سازشی تھیوریاں تاریخ بنا کر پیش کرنے والے غلاموں نے ملکی تاریخ کے اس اہم باب کو کبھی مطالعۂ پاکستان کا حصہ ہی نہیں بننے دیا۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں‘ دنیاوی حاجتوں والے بندگانِ شکم‘ بے لاگ واقعات کو تاریخ سمجھتے ہی نہیں۔ ان کی محبوب قائد کہتی ہے History میں مجھے Fictionسب سے زیادہ پسند ہے۔
1857ء میں فرنگی راج کے مقامی غلاموں میر جعفروں اور میر صادقوں نے اسی لیے غلامی سے آزادی کی طرف خون آلود سفر کی پہلی منزل کو ''غدر‘‘ قرار دیا تھا۔ جن 3 ججز کا ذکر پاکستان میں رو ل آف لاء کے حوالے سے کبھی نہیں مِٹ سکتا‘ اُن کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے:
جسٹس اوّل: پہلے نمبر پر سندھ چیفس کورٹ کے چیف جسٹس آنجہانی جارج کانسٹنٹائن آتے ہیں۔ جنہوں نے اُس وقت کے گورنر جنرل‘ جسے لوگ بیمارِ وطن اور غدارِ وطن کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ ملک غلام محمد کی جانب سے توڑی گئی اسمبلی کا فیصلہ مسترد کر دیا تھا۔ ساتھ ہی پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین کی آئینی پٹیشن پر لینڈ مارک ججمنٹ صادر کی جسے اُس وقت کی سپریم کورٹ‘ جو فیڈرل کورٹ کہلاتی تھی‘ میں چیلنج کر دیا گیا۔
جسٹس دوم: جب مولوی تمیزالدین کیس کا فیصلہ فیڈرل کورٹ میں چیلنج ہوا تو اُس کے فریقین میں سے ایک بذاتِ خود اُس وقت کا عسکری سربراہ بھی شامل تھا۔ جسٹس منیر‘ جو جیورِسٹ کی حیثیت سے خاصا نام کما چکے تھے‘ وہ 1954ء کے طاقتور اور مقتدر سسلین مافیا کے سامنے آسانی سے ڈھیر ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں اس بہترین دماغ کو صرف ایک فیصلے نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اس کوڑے دان سے اٹھنے والے شدید ترین بدبودار بھبھوکے یوں ہیں:
جسٹس منیر نے غلامانہ طرزِ انصاف کی ساری حدیں پار کر دکھائیں۔ اُس کا فیصلہ پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ اسے لکھنے والا کوئی پاکستانی تھا اور وہ بھی ملک کے اعلیٰ ترین جوڈیشل فورم کا سربراہ۔ اس طوقِ غلامی کا ایک حصہ کہتا ہے:
"It does not make the slightest difference if the Queen is called the Queen of Pakistan or the Head of the Commonwealth"
جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں دلیل یہ لکھی کہ سارے برطانوی قوانین پاکستان بن جانے کے بعد بھی اس آزاد وطن پر لازماً لاگو ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے جسٹس منیر نے کہا کہ اس سے ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑتا کہ Queen of Englandکو Queen of Pakistanکہا جائے یا ملکۂ برطانیہ کو ہیڈ آف کامن ویلتھ کے نام سے پکارا جائے۔ اس دلیل کا اصل مقصد یہ تھا کہ جسٹس منیر دورِ غلامی کے قدیم ترین طوق بھی سینے پر سجانا چاہتے تھے یا سر پہ رکھنا چاہ رہے تھے۔
پاکستان کی روٹیاں توڑنے والے منصف نے قدیم رومن لاء کا سہارا لیا جو صدیوں پرانا تھا اور Codified legislationبھی نہیں تھا۔ بنیادی طور پر جسٹس منیر بہت بودے دلائل کے تنکوں کا سہارا لے کر کالے کوے کو سفید کر دکھانے کی کوشش میں لگے رہے۔ چنانچہ رومن لاء کی مثال اس بے تکے انداز میں دے ڈالی:
"The well-being of the people is the supreme law"
رومن لاء ملوکیت کے زمانے میں بنا تھا۔ جہاں قانون کا ماخذ ''بادشاہ کی مرضی‘‘ آخری فیصلہ کے اصول سے جڑا ہوا تھا۔ پاکستان کی جس اسمبلی کو توڑنے کے لیے یہ دلیل سامنے رکھی گئی‘ وہ ہماری پہلی Constituent یعنی آئین ساز اسمبلی تھی۔ جسے غلامانہ طرزِ انصاف کے مارے ہوئے قلم نے ایک سٹروک سے ہوا میں اڑا کر رکھ دیا۔ اس طرح کے فیصلے لکھنے والے کو Pen Pusherکہا جاتا ہے۔
جسٹس سوم: مگر اسی فیڈرل کورٹ میں ایک مردِ قلندر بھی انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ جس کا محترم نام آج بھی نہ صرف بڑے ادب سے لیا جاتا ہے بلکہ وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے‘ آلون رابٹ کارنیلیئس جنہیں عرفِ عام میں اے آر کارنیلیئس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس اے آر کارنیلیئس صاحب نے جسٹس منیر کی ہر سطحی Observationاور دلیل کا بھر پور جواب دیا۔ اس سے کھل کر اختلاف کا اظہار کیا اور ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے اسے ججز چیمبر کے اندر بھی قائل کرنے کی کوشش کی۔ تاریخ نہیں بتاتی کے اُس دور میں وڈیو لیکس تھے یا نہیں تھے مگر تاریخ میں اتنا ثبوت موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جسٹس منیر کے فیصلے نے غلامانہ ذہنیت کا مستقل دروازہ کھول دیا۔ جسٹس منیر کے فیصلے کا درد ناک انجام پاکستان کے آئینی نظام کو بھگتنا پڑا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مقدمے کی بحث کے دوران شہباز شریف کی طرح ملک غلام محمد خود عدالت میں حاضر ہو گیا اور چھاتی پر ہاتھ رکھ کر فیڈرل کورٹ کے بنچ کو یقین دلایا کہ آپ اسمبلی بحال نہ کریں ہم فوراً الیکشن کرا دیں گے۔ متحدہ پاکستان میں اس فیصلے کے 16سال بعد پہلے الیکشن 1970ء میں منعقد ہو سکے۔
قوم نے آج تک 5مارشل لاء دیکھے اور ہر مارشل لاء کی باقیات کالے کرتوتوں پہ کلف لگے ہوئے سفید شلوار قمیص اور کالے دھن سے بھری ہوئی کالی جیکٹ پاکستان کی ریاست پر مسلط ہوتی چلی گئی۔ غلامانہ ذہنیت آج بھی پاکستان کے آئینی نظام پر حملہ آور ہے۔ ابھی ایک مہینہ پہلے اس ذہنیت نے اپنے آپ کو بار بار بے لباس کیا۔ وہ جو کہتے تھے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑو ہم فوراً الیکشن کروادیں گے۔ وہ الیکشن کرانے سے انکاری ہوگئے۔ 5ہفتے کے لیے لاہور کو محاصرے میں لیا گیا اور شہر کو میدانِ جنگ بنا دیا گیا۔ غلامانہ ذہنیت کے سب سے بڑے مینار نے کہا جو لوگ عدالتی فیصلہ نہیں مانتے وہ انسان نہیں‘ جانور ہیں۔ ان کے طبلچی بولے لاہور میں مجسٹریٹ کے سمن کی تعمیل کے لیے حملہ کیا گیا۔ ہم عدلیہ کا فیصلہ نافذ کر کے چھوڑیں گے۔ جمعرات کی شام اسی غلامانہ ذہنیت نے غیر نمائندہ اسمبلی سے اپنی جوڈیشل اتھارٹی پر تبرا کیا۔ آئین کے آرٹیکل 68میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ میں کسی جج یا عدالت کے Conductپر بحث ہو سکتی ہے نہ قرارداد۔ وہ غلامانہ ذہنیت جسے 18ویں صدی والے فرنگی آقا آج بھی کھلی بانہوں سے کھلی منی لانڈرنگ سمیت قبول کرتے ہیں۔ وہ اپنی سب سے بڑی آئینی عدالت کا فیصلہ اور 90روز میں الیکشن کروانے کی اپنے آئین والی کمانڈ ماننے سے انکاری ہیں۔
سپریم کورٹ کے فل بنچ نے آئین کے مطابق پنجاب‘ کے پی میں الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا صادر کیا‘ جسٹس منیر کے فیصلے کی پیداوار پوری ٹیم نظریۂ ضرورت دفنائے چلے جانے پر نوحہ کناں ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سپریم کورٹ نے نظریۂ ضرورت نہیں دفنایا بلکہ غلامانہ ذہنیت والوں کے ماورائے آئین ارمان دفنا دیے۔ پی ڈی ایم کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ الیکشن کی تیاری کرے‘ عید کی تیاری کرے یا بھاگنے کی تیاری کرے۔
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ 'وڈیو‘ نے کام کیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں