عمران خان اکیلا رہ گیا۔ پاکستان تحریک انصاف جلد کسی انویسٹر کے نام پر ٹرانسفر کر دی جائے گی۔عمران خان اَن پاپولر ہو چکا ہے۔ وہ جو ''پاپولر‘‘ تھے وہ سارے کے سارے کنگز پارٹی کی نرسری میں گملے بننے کے لیے لائن میں لگ گئے ہیں۔ تمام تر اندرونی اور بیرونی ATMنئی کنگڈم کے سرمایہ کار مقررہو چکے ہیں۔ فرض کریں ایسا ہی ہے۔ وکالت اور عدالت کی دنیا میں‘ ایسی صورتحال پیش آجائے تومیں ہمیشہ انگریزی کا یہ جملہ استعمال کرتا ہوں''I assume, without conceding‘‘یعنی میں مانتا نہیں‘مگر فرض کر لیتے ہیں۔ مجھ سے پہلے شاعر کو بھی کوئی ایسی ہی بپتا پڑی تھی‘سو وہ بھی کہہ اُٹھا:
جو باتیں کہہ نہیں سکتے اُنہیں ہم فرض کرتے ہیں
چلو میں فرض کرتا ہوں مجھے تم سے محبت ہے
کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی غیر مقبول شخص کی ٹوٹی پھوٹی پارٹی پر پابندی لگائی گئی ہو؟سیاسی پارٹیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ مجھے نہیں ملا۔ مگر پاکستان میں سیاست کو کنٹرولڈ ڈیموکریسی بنا کر چلانے کے خواہشمندوں نے ہمیشہ پڑوسیوں کی چوری شدہ ککڑیوں کو جمع کر کے کنٹرولڈ شیڈ تعمیر کئے۔یہاں اصلی والی ککڑیوں کی توہین مقصود نہیں بلکہ شاعر سیاسی ککڑی برادری کا ذکر کر رہا ہے۔ اتوار کو دن کے پہلے پہر مرکزِ اقتدار اور شہرِ اقتدار کو ایک بڑے زلزلے نے ہلا کر رکھ دیا۔محکمہ ارضیات کے مطابق ریکٹر سکیل پر اس زلزلے کی شدت چھ ناپی گئی۔ ویسے تو ہم بحیثیت قوم ناپ تول میں گڑ بڑ کرنے کو اپنا استحقاق سمجھتے ہیں لیکن کچھ زلزلے ایسے ہیں جن کو ناپنے اور تولنے کا اپنے ہاں کوئی پیمانہ یا آلہ ایجاد ہی نہیں ہوا۔ آئیے ذرا ان زلزلوں پہ گہری نظر ڈالیں جن کے گرداب میں پاکستان پھنسا نہیں بلکہ جان بوجھ کر دھکیلا گیا۔
پہلا زلزلہ : یہ زلزلہ تو وہ ہے‘ جو ارضیاتی اور زمینی ٹیکٹونک پلیٹ میں گڑ بڑ کی وجہ سے نہیں آیا بلکہ یہ زلزلہ معاشیاتی اور راج نیتی پلیٹیں چوری ہونے سے برپا ہوا ہے۔ جس کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے آئیے 75سال پیچھے چلتے ہیں۔ 14اگست 1947ء کے دن ایک روپیہ ایک ڈالر میں بکتا تھا یا ایک ڈالر ایک روپے کا ملتا تھا۔12اپریل2022ء تک تقریباً 75 سال میں ڈالر اورروپے کا فرق 170روپے فی ڈالر تک پہنچ سکا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ڈالر کو 100روپے پر لانے کے شوقینوں نے صرف ایک سال‘ایک ماہ اور 17دن کے اندر اندر روپے کو اتنا بے توقیر کیا کہ آج ڈالر کی قیمت 315روپے بھی کراس کر چکی ہے۔ پاکستان کی معیشت کی جڑوں میں رجیم چینج کے ذریعے بٹھایا گیا یہ زلزلہ 17اگست 2023ء تک ڈالر کو کس بلندی تک اُڑائے گا اور پاکستانی روپے کو کتنی مزید پستی میں گرائے گا؟ اس سوال کا جواب ہم سب جانتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بیان نہیں کرتے‘ جس کے تین پرت ہیں: ایک معیشت میں زلزلے‘ دوسرے انویسٹمنٹ میں زلزلے اور تیسرے پاکستان کی سا لمیت میں زلزلے۔
دوسرا زلزلہ: پاکستان کی یوتھ میں برپا ہے۔ جس کی گہرائی کا اندازہ پاکستانی سپورٹس کی دنیا میں عالمی نام پیدا کرنے والی پاکستانی فٹ بالر کاسانحہ شامل ہے۔ شاہدہ رضا 170دوسرے پاکستانی‘ افغانی اور ایرانی یوتھ کے ہمراہ بے روزگاری سے تنگ آکر اٹلی جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئیں‘ ترکی کی پورٹ ازمیر سے کچھ آگے زیادہ بوجھ کی وجہ سے یہ کشتی پاش پاش ہو کر کلابریا کے پانیوں میں اٹلی پہنچنے سے پہلے سمندر کی تہہ میں چلی گئی۔ آج پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا نوجوان ہو جو ملک سے باہر نہیں جا نا چاہتا۔ برین ڈرین کا یہ عالم ہے کہ ہر پڑھا لکھا لڑکی لڑکا چھوٹے موٹے ڈپلومے‘ سرٹیفکیٹ‘ ڈگری‘ پروفیشنل اور نان پروفیشنل پڑھائی کے لیے باہر جا رہا ہے۔ جن میں سے 90فیصد سے زیادہ مغربی ملکوں میں انصاف‘ رواداری‘ رُول آف لاء اور تحفظ کا ماحول دیکھ کر واپس آنے پر تیار نہیں ہیں۔ جس دنیا میں ہماری یوتھ پہنچ رہی ہے وہاں پارٹ ٹائم جاب کی سہولت ہر کسی کے لیے موجود ہے۔ تنخواہ کے لیے ایک ماہ کا انتظارکوئی نہیں کرواتا۔ اسلام کے تصورِ محنت کے عین مطابق مزدوری قلمی ہو‘ ذہنی ہو یا دستی‘ محنت کرنے والے کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اُسے محنتانہ مل جاتا ہے۔
پاکستان کا کوئی ٹھیکیدار مجھے وہ محکمہ بتا دے جہاں100فیصد میرٹ پر‘ بغیر سفارش یا تعلق داری کے کسی نوجوان کونوکری مل سکتی ہو۔ ہماری یوتھ ہمارا کل ہے۔ جسے ہم آج کے دن میں کچھ بھی نہیں دے پا رہے۔ ہر جگہ بیمار ذہنیت والے ماہرین براجمان ہیں۔
تیسرا زلزلہ: یہ لوئر میڈل کلاس اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے وہ نوجوان ہیں جو پاکستان کا پاسپورٹ لینے کے لیے 5000روپے قیمت ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ ویزے نہیں لگوا سکتے۔ ایئر لائن کا ٹکٹ خریدنا تو اُن کی پہنچ سے بہت دور ہے۔
ذرا ٹھہر جائیے مجھے کچھ یاد آگیا۔ یہ 2009ء میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہے جو ایک سہ پہر کو شروع ہوتا ہے‘پوری رات جاری رہ کر اگلے دن کے پہلے پہر ختم ہوا۔ عدلیہ کو چھوڑ کر ملک کی ساری ایجنسیاں اور ادارے اس پارلیمانی جوائنٹ سیشن میں موجود تھے۔ میں حکومتی بینچز کی جانب سے اس ڈیبیٹ کا لیڈسپیکر تھا۔ ہمیں بتایا گیا: غربت‘ بے روزگاری‘ محرومی اور مظالم دہشت گردی کی نرسریاں اور فیکٹریاں ہیں۔ جس نوجوان کو پاکستان سرکار15‘20ہزار کی نوکری نہیں دے سکتی اُسے کوئی اور 25‘30ہزار روپے ماہانہ میں بھرتی کر لیتا ہے۔
سب سے سادہ سوال یہ ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے 76ویں سال میں پاکستان کی تقدیر بدل دی یا حبیب جالب آج بھی سچ کہہ رہا ہے۔(ملاحظہ کریں کلیاتِ حبیب جالب صفحہ نمبر 181)
بہت میں نے سُنی ہے آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مری تقدیر مولانا
خدارا! شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں
یہ لگتی ہے مرے سینے پہ بن کر تیر مولانا
نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے
یہی ہے جرم میرا اور مری تقصیر مولانا
حقیقت کیا ہے یہ تو آپ جانیں یا خدا جانے
سنا ہے جمی کارٹر آپ کا ہے پیر مولانا
زمینیں ہوں وڈیروں کی‘ مشینیں ہوں لٹیروں کی
خدا نے لکھ کے دی ہے یہ تمہیں تحریر مولانا؟
تقدیر کے ذکر سے چی گویرا یاد آگئے۔ چی گویرا نے کہا‘میں نے قبرستان میں اُن لوگوں کی قبریں بھی دیکھی ہیں جو اپنے حق کے لیے‘ اس لیے نہیں لڑے کہ کہیں مارے نہ جائیں۔آئو اپنے آپ میں جھانکیں۔ قوم کے اجتماعی شعور کا احترام کریں۔ وطن کا استحکام چاہیے اور لوگوں کا سکون اور آرام تو کریں بسم اللہ...؟ عمران اَن پاپولر ہے‘ اکیلا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ختم ہو گئی۔ کھمبے بے زبان ہیں اُن کو ووٹ کون دے گا؟ زباں دراز الیکشن کی تاریخ کا تو اعلان کریں۔ پریس کلب کی پریس کانفرنس سے کب تک جی بھلائیں گے۔