"SBA" (space) message & send to 7575

?Who am Iقاسم کے ابا

دور دور تک لوگوں کی قطاریں تھیں‘ پُرجوش‘ پُرعزم اور کھلکھلاتے چہرے‘ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں اکٹھے تھے۔ ہوائی جہاز کا دروازہ کھلا وہ بائونسرز مارنے والے والے سٹیپ لیتا ہوا ایک فاتح کی طرح آگے بڑھا۔ لوگوں کے استقبالی شور نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔
ایک اندھیرے کونے میں کچھ مشکوک سے چہرے ایک اُترے ہوئے منہ والے کردار کو گھیرے کھڑے تھے۔ یہیں سے عمران خان کے سفر کی نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔ وہ کہانی جو خان صاحب کی اپنی زبان سے میں نے سُنی‘ وہ میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تین‘ چار نسلوں کی کہانی ہماری خاندانی تاریخ ہوتی ہے اور اپنی ذات کے عرفان کا پس منظر بھی۔ جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں تقریباً 600 سال پہلے برکی قبیلہ آباد تھا‘ جس کے پُرکھوں نے ہندوستان کے ضلع جالندھر میں ہجرت کی۔ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم اسی ضلع میں پید ا ہوئے۔
جالندھر کا ضلع پارٹیشن آف انڈیا کے وقت پاکستان کے حصے میں آیا تھا مگر بعد میں تقسیم ہند کمیشن کے سربراہ Cyril Radcliffe نے جالندھر کو بھارت کے ہاتھوں بیچ دیا۔
اس قبیلے کے جدِ امجد نے جنوبی وزیرستان سے ہجرت کر کے جالندھر میں جو بستی آباد کی اُ س کا نام ''بستی پٹھان‘‘ رکھا گیا۔ جالندھر شہر میں اسلامیہ کالج قائم کرنے کی کوششوں میں اس خاندان نے سب سے نمایاں کردار ادا کیا۔ بعد میں جب تحریکِ پاکستان شروع ہوئی اور حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کو جالندھر میں تشریف لانے کی دعوت دی گئی تو اُنہوں نے بستی پٹھان کا دورہ بھی کیا تھا۔ والدہ کی طرف سے عمران خان کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے اور شوکت خانم مرحومہ جالندھر کے سیشن جج جناب احمد حسن خان کے گھر پیدا ہوئیں۔ احمد حسن خان کے بزرگ‘ احمد شاہ خان برٹش انڈیا کے زمانے میں سول سروس میں شامل تھے۔ احمد شاہ خان نے اہم عہدوں پر کام کیا جس میں ڈسٹرکٹ کمشنر اور سینسر کمشنر کے عہدے بھی شامل تھے۔ شوکت خانم کے والد احمد حسن خان نے تحریکِ پاکستان کے زمانے میں حضرت قائداعظم کو جالندھر میں اپنے اجداد کی بسائی ہوئی بستی میں خوش آمدید کہنے کا اعزاز حاصل کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ خاندان لاہور کے ایک ایسے علاقے میں آ کر آباد ہوا جو عمران خان کے نانا کے بھائی خان بہادر محمد زمان خان (پوسٹ ماسٹر جنرل) کے نام سے موسوم ہے اور یہ علاقہ زمان پارک کے نام سے مشہور ہے۔ جسے خان صاحب کی رہائش گاہ بننے کے بعد عالمی شہرت ملی۔
میانوالی‘ بھکر اور اُس کے قرب و جوار میں بڑی تعداد میں پٹھان قبائل آباد ہیں۔ مولانا عبدالستار خان نیازی‘ ڈاکٹر اجمل خان نیازی‘ مولانا کوثر نیازی‘ منیر نیازی جیسے خطیب قلم کار شاعر اور سکالرز اسی علاقے میں پیدا ہوئے۔ لالہ عطا اللہ خان نیازی بھی میانوالیے ہیں‘ جن کا خاندان عیسیٰ خیل کہلاتا ہے۔
عمران خان کا خاندان شیر مان خیل کہلاتا ہے اور یہ علاقے کا بہت بڑا خاندان ہے۔ بہت سے نامی گرامی کھلاڑی سول سرونٹ اور فوجی جرنیل شیر مان خیل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر دنیائے کرکٹ کے روشن ترین ستارے جاوید برکی‘ ماجد خان اور مصباح الحق اسی خاندان سے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی والدہ شوکت خانم کی خاندانی جانب سے اُن کے دو کزن پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان بھی رہے‘ جبکہ اُن کا بیٹا عمران خان پاکستان کرکٹ کا کپتان بنا اور 1992ء میں ورلڈ کرکٹ کا Champion بھی۔
پشتو زبان کی حروفِ تہجی ایجاد کرنے والے زرخیز ذہن پیر روشن بابا کہے جاتے ہیں۔ ان کا اصلی نام بایزید خان ہے جوکُرد خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور تُرک ہیں۔ اعوان قبیلے کے جدِ امجد قطب شاہ کی طرح جو نسلاً عرب تھے۔ بایزید خان بھی محمود غزنونی کی فوج کے ساتھ نقلِ مکانی کر کے ہندوستان میں آ بسے تھے۔ عمران خان کے خاندان کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اُن کے زیادہ تر چچا زاد مسلم لیگ (ن) کے رکن‘ بڑے حمایتی یا پھر ارکانِ اسمبلی چلے آتے ہیں۔ عمران خان کی بیگم جمائمہ خان نے عمران خان کی چاروں بہنوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران کی بہنیں اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ سلجھی ہوئی اور مضبوط کردار کی حامل خواتین ہیں‘ جو باوقار اور خود مختار زندگی گزار رہی ہیں۔
عمران خان نے جو کہانی لاہور ایئر پورٹ سے باہر آنے کی سنائی تھی‘ آئیے! اُس کی طرف واپس چلتے ہیں۔ وہ میچ جیت کر واپس لاہور ایئرپورٹ اُترے‘ اُس وقت لاکھوں لوگ کرکٹ ٹیم کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ سے لاہور شہر کی سڑکوں تک موجود تھے۔ اُترے ہوئے چہرے والے مشکوک کردار نے صلاح کاروں سے پوچھا کہ شہر لاہور میں خان کا اتنا بڑا استقبال کیسے روکا جائے؟ پستہ قد موٹے پیٹ والا مشورہ دان آگے بڑھا اور قریب جا کر اس کے کان میں کچھ کہا‘ جو سنتے ہی اُترا ہوا چہرا کھل اٹھا اور اس کے منہ سے پنجابی میں یہ جملہ نکلا ''اے ہوئی نا گل‘‘۔ خان نے کہا کہ اُس وقت کے حکمران نے بڑی چالاکی سے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور سیدھا گورنر ہائوس کے اندر لے گیا۔ پھر بڑے مزے سے یہ بھی بتایا کہ میرا استقبالی ہجوم سڑکوں پر دیکھتا رہ گیا۔ یہ سُن کر میں ہنس پڑا جبکہ خان صاحب نے اپنی غیر سیاسی سادگی پر خودہی زور دار قہقہہ لگا دیا۔
مطلقِ العنان بادشاہِ ہند اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں حضرت وارث شاہؒ کے مرشد کو پھانسی دی گئی۔ بابا بلھے شاہ بھی اُس کے نشانے پر تھے۔ بلھے شاہ نے بڑی کیفیت میں کہا تھا:
چل بُلّیا اُوتھے چلیے‘ جتھے سارے ہوون اَنّہے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانڑیں‘ نہ کوئی سانوں مَنّے
جس کا نام مٹانے کے لیے شہر سے باہر اُس کی قبر بنائی گئی‘ آج اُس بلّھے شاہ کے مزار پر عقیدت مندوں کا ہجوم کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مگر وہ جس نے اپنی زندگی میں مقبرہ بنوایا‘ مقبرے کے نام پر پہلے محل بنا اور اپنے نام پر پورا شہر بسایا‘ آج اُس بے نام اور بے چراغ قبر پر وقت کی عبرت کے سائے ہیں اور کچھ نہیں۔ قاسم کے ابّا کہوں یا عمران احمد خان نیازی‘ یہ دونوں پیچھے رہ گئے ہیں۔ آگے اُس کا دیا ہوا شعور ہے جس نے تورا بورا کی سنگلاخ چٹانوں سے لے کر چڑھتے پنجاب کے زرخیز میدانوں تک‘ تین نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ وہ صرفUrban Elite آواز نہیں بلکہ دلوں کا حکمران ہے اور دل کبھی زور زبردستی سے فتح نہیں کیے جا سکتے۔ شورش کاشمیری کیا خوب کہہ گئے وقت کے حکمرانوں کے نام :
نفرت کی زَد میں ہوں تو بڑے سخت جان ہیں
ہم اہلِ دل ہیں، ہم کو محبت سے مار دے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں