یہ ایک نہیں‘ تین کہانیاں ہیں جن میں سے پہلی داستان تین سو سال پرانی ہے۔ تقسیمِ ہند بلکہ تقسیمِ بنگال سے بھی پہلے کی‘ جس پہ ساحر لدھیانوی نے جنم جنم کا اُجلا سچ یوں بولا؛
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیش کی جنتا سِسک سِسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
چلیے پہلے ماضی قریب کی تاریخ کی طرف۔ یہ 29مارچ ہے سال 1971 اور اُردو کا اخبار روزنامہ مشرق میرے ریڈنگ ڈیسک پہ کھلا ہے۔ مگر ابھی نہیں‘ تاریخِ جدید کو چھوڑتے ہیں۔ آئیے 300سال پیچھے ماضی میں چلیں۔ یہ ایسے شخص کے محل نما گھر کی کہانی ہے جسے اس ملک کی حکومت نے بہت بڑا اور خوبصورت پیلس ہونے کے باوجود صدیوں کی نفرت کی علامت کے طور پر غدار محل کا سرکاری نام دے رکھا ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی سرکار نے سیاسی یا مذہبی تعصب کی وجہ سے یا نفرت کے جذبے سے مغلوب ہو کر بدبخت مقتول کے عالیشان گھر کا نام غدار محل رکھ چھوڑا۔غدار محل تعمیر کرنے والے غدارِ اعظم نے حضرت ٹیپو سلطان کی نوکری کی لیکن اس کی ساری وفاداری اور تابعداری سات سمندر پار سے آئے ہوئے غاصب‘ ظالم اور جابر فرنگی کی خدمت گزاری میں گزری۔ جس نے اپنے جانباز مقتدرِ اعلیٰ کے خونِ مسلم کا چند سِکوں کے عوض سودا کیا۔ پھر محل بنایا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اس غدار کی ساری تعریف کو دو مصرعوں میں سمو دیا۔
جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملت‘ ننگِ دیں‘ ننگِ وطن
یہ بھی ہماری تاریخ کا سبق آموز حصہ ہے کہ غدار محل کا باسی بے آبرو ہو کر بے ننگ و نام قتل ہوا۔ وہ اگرچہ ٹائیگر آف میسور کی فوج کا کمان دار تھا لیکن جیسے ہی میر جعفر اپنے انجام کو پہنچا‘ اس کے بعد کسی نے تین سو سال تک اس محل میں آباد ہونے کی کوشش نہ کی۔ تین سو سال گزرنے کے بعد بھی اس محل سے لوگوں کی نفرت میں کمی نہیں آئی بلکہ اس سے نفرت کا اظہار لوگ پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ کرنے لگے ہیں۔ غدار محل سے نفرت کی ایک عوامی مثال یہ ہے کہ جب بھی کوئی اس محل سے گزرتا ہے تو غدار محل کے اوپر تھوک کر آگے بڑھتا ہے۔
جن لوگوں کو استعمار سے نفرت ہے اور خود مختاری کو طرزِ حیات سمجھتے ہیں وہ اس محل کی طرف جائیں تو اس پر جوتیاں بھی برساتے ہیں۔ غدار محل نفرت کی عالمی علامت کے طور پہ پہچانا جاتا ہے کیونکہ اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارے یونیسکو نے اسے ان عمارتوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جنہیں نہ توڑا جا سکتا ہے‘ نہ کسی کے استعمال میں آ سکتی ہیں اور نہ ان کا نام تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آپ یہ سُن کر حیران ہوں گے کہ یونیسکو نے بھی اسے محفوظ عمارتوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے غدار محل کا ہی نام دیا ہے۔ غدار محل بھارت کے حصے میں آنے والے مغربی بنگال میں واقع مرشد آباد کے مقام پر مستقل نشانِ عبرت ہے۔ ساتھ ہی تاریخ کا منہ بولتا اعلان بھی کہ غدار غداری کر کے مر بھی جائیں لیکن تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔ یہ لکھتے کلیجہ پھٹتا ہے‘ یہ ایک وطن فروش اگر حضرت ٹیپو سلطان سے غدار ی نہ کرتا تو جنوب مشرقی ایشیا میں ملتِ اسلامیہ اس قدر بے دست و پا‘ کمزور اور بے توقیر نہ ہوتی۔
اب آئیے مشرقی بنگال کی طرف۔ وہ مشرقی بنگال جسے شاعر مشرق حضرتِ علامہ اقبالؒ کے خواب‘ بابائے قوم حضرت قائداعظم ؒ کی قیادت و سیادت نے مشرقی پاکستان بنا کر 14اگست 1947ء کو ہمارے حوالے کیا۔ جسے قائد و اقبال کے غداروں نے توڑ کر بنگلہ دیش بنا ڈالا۔ مشیر کاظمی نے یومِ اقبال پر وطن ٹوٹنے کی جو منظوم تاریخ لکھی وہ آج یومِ اقبال پر وکالت نامہ لکھتے ہوئے روح و قلب میں گھوم گئی۔
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
ہم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں بڑھتی گئیں دوریاں
کھول تو دوں میں رازِ محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
غدار محل کے تسلسل میں 29مارچ 1971ء کو روزنامہ مشرق کی اشاعت میں یہ سرخیاں لگائیں گئیں۔ شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں حالات پر پوری طرح سے قابو پا لیا گیا۔ سرکاری اور غیرسرکاری ملازمین کام پر واپس آنا شروع ہو گئے۔ مغربی پاکستان میں کالعدم عوامی لیگ کے مخاطب سر بمہر۔ پولیس نے عوامی لیگ کے ریکاڈ پر قبضہ کر لیا۔ عوامی لیگ کے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے۔ جنرل ٹِکا خان کے زخمی ہونے کی تردید۔ اس وقت کے اخباروں کو ''سب اچھا‘‘ کی رپورٹیںچھاپنے کی کھلی اجازت تھی۔ پھر عام آدمی تک سچ کی رسائی کا حال نجیب احمد کے اس شعر کی مانند ہے۔
پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ ہی دیوار گر پڑی
لیکن نہ کھل سکا پسِ دیوار کون ہے
آج‘ جب یہ الفاظ ضبطِ تحریر میں لائے جا رہے ہیں‘ ملک میں یومِ اقبال کی چھٹی ہے۔ میں گولڑہ شریف کے پیچھے مارگلہ پہاڑی پہ بیٹھا چشمِ تصورسے حضرتِ اقبال کے حضور نادم کھڑا ہوں۔ علامہ صاحب پوچھتے ہیں کہ سنا ہے تمہارے والے ملک میں کسی نے میرے گھر کی چار دیواری گرا دی؟ میں چپ رہا۔ علامہ پھر فرمانے لگے تم وکیل ہو‘ میری 80سالہ بہو بھی وکیل ہے۔ اسے دھکے مار کر برسرِ بازار کھینچا گیا۔ اس پہ تم نے کیا کیا؟ میری زبان گنگ ہو گئی۔ پھر حکیم الامت نے سوال کیا‘ میرے پوتے کو جانتے ہو؟ تیری طرح وکیل ہے۔ اس کے گریباں پہ کس نے ہاتھ ڈالا تھا۔ تم لوگ کیسے وکیل ہو‘ کہاں کے منصف۔ میں نے تمہیں شاہین بنایا تھا۔ پھر حضرتِ اقبال جلال میں آگئے‘ فرمانے لگے میرے نام پر چھٹی ایسے کر رہے ہیں جیسے انگریزوں سے آزادی کے بعد ان کے ایجنٹوں کی غلامی کا نظریہ میں نے پیش کیا تھا۔ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب میں نے دیکھا تھا۔ میں اپنی قوم کی طرح دکھی ہوں کیوں میرے گھر کی چار دیواری کی بے حرمتی کی گئی۔ میری بہو کو دھمکایا گیا۔ پھر بھی اپنی قوم کے لیے دعا گو ہوں۔ اللہ اسے ذہنی آزادی نصیب کرے‘ شاہیں جیسی آزادی۔
اقبال ؔتیری قوم کا اقبال کھو گیا
ماضی تو سنہرا ہے مگر حال کھو گیا
تیسری کہانی جاری ہے...