ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سب سے کم عمر صدر‘ جن کا تعلق Massachusetts سے تھا‘ وہ پہلے پاپولر امریکن صدر کہلائے۔ یہ تھے John Fitzergerald Kennedy۔ جو ایک سیاستکار امریکی کے گھر 29 مئی 1917ء کو پیدا ہوئے۔ امریکہ کے 35ویں منتخب صدر کینیڈی کا عرصۂ صدارت سال 1961ء سے لے کر 22 نومبر 1963ء تک تھا‘ کہ جس روز اُنہیں ایک پبلک ریلی میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ امریکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ کینیڈی کے بعد امریکہ کا دوسرا سب سے پاپولر صدر Donald John Trump ہے۔ 45ویں امریکی صدر ٹرمپ کا عرصۂ صدارت سال 2017ء سے سال 2021ء تک تھا۔ اس ریپبلکن صدر کی عمر اس وقت 77سال ہے ۔ اس نے 14 جون 1946ء کے روز ایک بڑے کاروباری گھر میں جنم لیا۔ ٹرمپ نے دوسرے عرصۂ صدارت کو حاصل کرنے کے لیے جوبائیڈن کا مقابلہ کیا اور پبلک ووٹ اور سپورٹ نے جوبائیڈن کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔ مگر ٹرمپ کے کیمپ نے بائیڈن کے الیکشن کو مینڈیٹ چوری قرار دیا اور امریکہ میں بائیڈن ایڈمنسٹریشن کی اس مبینہ مینڈیٹ چوری کے خلاف تاریخ ساز مظاہرے کیے اور بھرپور احتجاجی مہم چلائی۔ ایسی مہم جو امریکہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں چلی اور جو مہم امریکہ کے آنے والے الیکشن تک چلتی ہی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی مقبولیت اپنی انتہائوں سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ چنانچہ امریکن اسٹیبلشمنٹ نے ٹرمپ کو آنے والے صدارتی الیکشن کے بیلٹ پیپر سے غائب کرنے کے مقدمات میں تین ریاستوں سے مستقل حکمِ امتناعی حاصل کر لیا۔ ان تینوں فیصلوں کے خلاف اس مہینے کی چار تاریخ کو ٹرمپ کا کیس حتمی اپیل کے لیے امریکی سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جیسے بڑے ملک اور جوڈیشل سسٹم میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد صرف 9 ہے، چیف جسٹس آف امریکہ سمیت۔ امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر تینوں ریاستوں کے فیصلے غیر قانونی قرار دے دیے۔ دنیا کی سب سے بڑی صدارت کے حصول کی دوڑ میں یہ ایک بڑا سرپرائز ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے اس تازہ فیصلے کے پانچ اہم نکات پڑھنے کے قابل ہیں:
ٹرمپ فیصلے کا پہلا نکتہ: کولوراڈو سے ٹرمپ کو اگلے الیکشن کے بیلٹ پیپر Ban کے فیصلے سمیت مختلف ریاستوں میں چلنے والی ٹرمپ مخالف فیصلوں کی سیریز‘ سپریم کورٹ نے بروقت اُڑا کر ٹرمپ - بائیڈن فیئر مقابلے کا ماحول پیدا کیا جس سے ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں واپسی کا راستہ کھل گیا۔
ٹرمپ فیصلے کا دوسرا نکتہ: US سپریم کورٹ کے فیصلے نے امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کی کلاز نمبر 3‘ جو امریکن سول وار کے بعد ڈالی گئی تھی‘ کو مسترد کر ڈالا۔ ترمیم کے مطابق صدارتی الیکشن کے نتائج کے خلاف مہم چلانے پر امیدوار کو اگلے الیکشن سے روکا جا سکتا ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نے اسے فری اینڈ فیئر الیکشن کے تصور سے متصادم قرار دے دیا۔
ٹرمپ فیصلے کا تیسرا نکتہ: سپریم کورٹ کے 9 فاضل ججوں نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ صدر جیسے اہم امریکی عہدے کے کسی امیدوار کو الیکشن بیلٹ پیپر سے باہر کرنا State Vs Federal Rights at heart of Issue کے اصول کے سراسر خلاف ہے۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ امریکن فیڈریشن کی طرف سے شہریوں کو ملنے والے بنیادی حقوق کو امریکن سٹیٹ کی طاقت بھی ختم نہیں کر سکتی ۔
ٹرمپ فیصلے کا چوتھا نکتہ: یو ایس سپریم کورٹ کے فیصلے کے چوتھے پوائنٹ کے مطابق صدرِ امریکہ کے الیکشنز فیڈرل سبجیکٹ میں آتے ہیں جس کے تحت کسی بھی ریاست کو کسی صدارتی امیدوار کا نام بیلٹ پیپر سے ہٹانے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی طے کر دیا کہ ریاست کی یکجہتی کا مطلب یہ نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ قانونی کارروائی کے پیچھے چُھپ کر صدارتی امیدوار کو انتخابی میدان سے باہر کر چھوڑے۔
ٹرمپ فیصلے کا پانچواں نکتہ: اس فیصلے کے شریک ججز‘ جسٹس Amy Coney Barrett‘ جسٹس Sonia Sotomayor‘ جسٹس Elena Kagan اور جسٹس Ketanji Brown Jackson‘ نے اپنے علیحدہ علیحدہ اضافی نوٹ بھی شامل کیے جبکہ سارے 9 فاضل ججز نے فیئر الیکشن کے تصور کو وسیع کینوس پر پھیلانے کے موضوع پہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ مگر الیکشن میں آزادانہ مقابلے کو قانونی موشگافیوں سے ختم کرنے کا سلسلہ روک دیا۔ قانونی حلقوں میں امریکن سپریم کورٹ کا فیصلہ سراہا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اگر ہم اپنے ملک میں دیکھیں تو 5 سال کے بجائے 6 سال بعد منعقد ہونے والے جنرل الیکشن سے سب سے پاپولر پارٹی اور اُس کے لیڈر کو انتخابی شناخت سے محروم کر کے بیلٹ پیپر سے بھی غائب کر دیا گیا۔ اس کے باوجود پاکستان کے کروڑوں لوگوں نے فاشسٹ ہتھکنڈوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا اور پاپولر ووٹ کے ذریعے سے قیدی نمبر 804 کی بے شناخت پارٹی کو فیڈریشن کے سارے یونٹوں میں بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا۔ جس کا منہ بولتا ثبوت پورے ملک سے اَپ لوڈ ہونے والے فارم 45 پر درج اولین انتخابی نتائج ہیں۔ جن کو پچھلے ایک ماہ سے زیادہ عرصے میں مسلسل بڑی ڈھٹائی سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔
اب واپس چلتے ہیں بھٹو ریفرنس کی طرف۔ جس پہ میری پہلی گفتگو بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ دبئی میں ہوئی۔ اُن دنوں ان کے شوہر دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ مجھے محترمہ نے فون کر کے بلایا۔ اُن کی ناتوانی کا یہ عالم تھا کہ وہ گھر کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے تھے اس لیے اُنہیں میڈیکل سپورٹ سمیت‘ رہائش کے عقب میں واقع انیکسی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اقتدار ملنے کی صورت میں ریفرنس کے آئیڈیے سے اتفاق کیا۔ یہی نہیں بلکہ اپنے وزیراعظم بننے کی صورت میں نئے صدر کا نام بھی شیئر کیا۔ بی بی کا کہنا تھا: اب میں پچھلے دو صدور کی طرح کا Stab back کرنے والا صدر نہیں لائوں گی۔ صدر وہ ہو گا جو میرے ساتھ نہیں بلکہ میرے لیے آگے کھڑا ہوتا ہے۔ بی بی نے یہ بھی کہا کہ اب آصف دبئی میں رہ کر بچے سنبھالیں گے اور میں پاکستان میں حکومت سنبھالوں گی۔ عاقل ریواڑوی کے بقول:
دل کی دنیا بسی کی بسی ہی رہی‘ اک گیا دوسرا اپنے گھر رہ گیا
آہ نکلی تو آباد غم ہو گئے‘ غم جو نکلا تو دردِ جگر رہ گیا
بھٹو ریفرنس سے سیکھنے والا سبق یہ ہے کہ زندہ سابق وزیراعظم شیر دل قیدی 804 کو بھی انصاف ملے۔ فوری انصاف! کون نہیں جانتا: Justice delayed is Justice Denied۔