Covid-19اور ٹڈّی دَل کے حملے کے بعد ملکی تاریخ کا تیسرا بڑا اٹیک ہے پبلک پر مہنگائی اور افراطِ زر کا اٹیک۔ کورونا وائرس جان لیوا تھا‘ ٹڈی دَل کسان اکانومی کا دشمن‘ مگر دونوں آئے اور قدرت کی مہربانی سے گزر گئے۔ جبکہ مہنگائی مڈل کلاس‘ لوئر مڈل کلاس اور غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والوں کے گلے مسلسل گھونٹتی چلی جا رہی ہے۔ حالانکہ ہماری ریاست کے ادارے اس قدر طاقتور ہیں جتنے طاقتور کسی اور سرزمین کو شاید ہی نصیب ہوئے ہوں گے۔ دنیا کے کسی ملک کا کوئی حکومتی ادارہ جو کچھ نہیں کر سکتا‘ وہ کرشمے ہمارے ہاں کھلے عام ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے ادارے اتنے طاقتور ہیں کہ سیاستدانوں کو سیاست چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ان کی طاقت کی رینج اس قدر ہے کہ صحافیوں کو صحافت چھوڑنے پر بھی مجبور کر لیتے ہیں۔
اسی طرح تین کام اور بھی ہیں جو پاکستان میں کوئی ادارہ نہیں کر کے دکھا سکتا۔ ہم سب خوب جاتنے ہیں کہ ملک کا کوئی ادارہ مہنگائی مافیا کو پرائس ہائیک چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ نہ ہی کوئی ادارہ اربوں کھربوں کی کرپشن کرنے والے کسی اکنامک ہِٹ مین کو کرپشن چھوڑنے پر آج تک مجبور کر سکا ہے۔ سارے دعوے‘ تمام تر بڑھکیں لگانے کے باوجود بھی کوئی ادارہ پاکستان کے عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کو ایکسٹرا جوڈیشل کِلنگ بذریعہ تشدد اور حراستی ٹارچر کے چڑھدے طوفان کو نہیں روک سکا۔ اب یہ طوفان کمزور اور زیر دست طبقات سے ہوتا ہوا طاقتوروں کے دروازے کراس کر گیا ہے۔
ایکسٹرا جوڈیشل ٹارچر اور کسٹوڈیل ٹارچر دو علیحدہ علیحدہ دنیائیں ہیں جن کے بارے میں انسانی تاریخ کبھی خاموش نہیں رہی بلکہ ٹارچر کی کئی قسمیں ہمیشہ سے نئے نئے طریقے پر موجود رہی ہیں۔ ٹارچر کی قسموں کی طرح ٹارچر کی وجوہات بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مثلاً کسی شخص پر شدید درد اور کرب والی چوٹیں اور زخم لگانا بطور قانونی سزا‘ کسی سے اپنی مرضی کا اعترافِ جرم کرنے کے لیے شدید درد ناک ٹارچر کرنا‘ کسی تحقیق و تفتیش کے لیے‘ معلومات کے حصول کے لیے تشدد کرنا یا تھرڈ پارٹی کو حراساں کرنے کے لیے تشدد کیے جانے کی قسمیں تاریخ میں موجود ہیں۔ لیکن یہ سب زمانۂ جہالت کے رواجی قوانین میں تھیں۔ آئین سازی اور دستور گری کے بعد تشدد کی ان قسموں کو دنیا کے لگ بھگ سبھی ممالک میں قانوناً جرم بنا دیا گیا۔ کسی کو سزا دینی ہو تو تب بھی احترامِ آدمیت کو ملحوظِ خاطر رکھنا‘ تحریری دستور آنے کے بعد ہر شہری کا حق مان لیا گیا۔ اسی لیے ان میں ایکسٹرا جوڈیشل اور کسٹودیل ٹارچر دونوں قسموں کے حوالے سے ریاست کو آئین‘ قانون‘ ضابطے اور دستوری پابندیوں میں جکڑا جاتا ہے۔
سال 1967ء میں جب امریکہ نے ویتنام پر حملہ کرکے جنگ شروع کی تو Viet Cong Soldier کا مقدمہ عالمی سطح پر بہت مشہور ہوا تھا جس کو کسٹڈی میں لینے کے بعد امریکن فوجیوں نے غیرانسانی اور کربناک تشدد سے ٹارچر کیا تھا۔ ریاست کے اہلکاروں کو کسی بھی ضابطے کے تحت ایکسٹرا جوڈیشل اور کسٹوڈیل ٹارچر یا کِلنگ کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ اندراجِ مقدمہ‘ منصفانہ تفتیش‘ فیئر ٹرائل‘ حقِ دفاع‘ پھر سزا‘ اپیل در اپیل اور نظر ثانی جیسے قانونی تحفظات ساری دنیا کے شہریوں کو حاصل ہیں‘ پاکستان سمیت۔ لیکن ہمارے ہاں دستور کو چند کاغذوں کا چیتھڑا کہنے والے حکمران بھی عشروں برسرِ اقتدار رہے ہیں۔ غیر دستوری طریقے سے مخالف دھڑے کی سوچ رکھنے والے شہریوں‘ سیاسی کارکنوں‘ یوتھ اور خواتین کو ایکسٹرا جوڈیشل اور کسٹوڈیل ٹارچر کا نشانہ بنانا آج بھی سکہ رائج الوقت ہے۔ خاص طور سے 12اپریل 2022ء کی رجیم چینج اور نو مئی 2023ء کے واقعات کے بعد ہزاروں چار دیواریوں کو پھلانگا گیا۔ ایکسٹرا جوڈیشل یا کسٹوڈیل ٹارچرکے ہولناک مناظر فلم بند ہو کر سوشل میڈیا کے ریکارڈ میں محفوظ ہوئے۔ صوبائی لاء اینڈ آرڈر قائم رکھنے کی ذمہ دار پولیس فورسز اور دوسری LEA کی اس عرصے میں چاندی ہو گئی۔ صرف میرے لاء فرم کے دفاتر میں ایسے درجنوں واقعات‘ مقدمات‘ شکایات اور استغاثوں کی صورت میں آئے جن میں چھاپے کے دوران گھریلو سامان‘ زیورات‘ نقدی‘ قیمتی الیکٹرانک ڈیوائسز چھین کر لوٹنے کی دلخراش داستانیں بھی شامل ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اس ٹارچر کو بعض اداروں کے بعض اہلکاروں نے نیکسٹ لیول پر پہنچا چھوڑا۔ مخالفین کی دکانیں‘ حویلیاں‘ گھر‘ فارم ہاؤسز اور فیکٹریاں توڑنے کے تصویری خبر نامے محض مقتدر اشرافیہ کے خلاف اظہارِ رائے رکھنے کے جرم میں سرزد کیے گئے جس کے نتیجے کے طور پر ریاستی طاقت‘ اسلحے‘ وسائل اور اختیارات سے مسلح لوگوں کے لیے آئین و قانون کاغذی کہانی بن کر رہ گیا۔ بڑی تعداد میں ایسی دستاویزی شہادتیں موجود ہیں جن کے ذریعے کسی سیاسی شخصیت یا سرکاری عہدیدار نے چِٹ لکھ کر مخالف کو گرفتار کروایا‘ کسی پر ایکسٹرا جوڈیشل یا کسٹوڈیل ٹارچر کروایا یا کسی کو رِہا کروا دیا‘ بیانِ حلفی لینے کے بعد یا ہاتھ گرم کرنے کے بعد۔
بات شروع ہوئی تھی Covid-19اور ٹڈّی دَل سے۔ اگر آپ صرف رپورٹ شدہ واقعات پر نظر ڈالیں تو ایکسٹرا جوڈیشل اور کسٹوڈیل ٹارچر کی وبا نے پاکستان کو کورونا وائرس اور ٹڈّی دَل سے زیادہ لمبے عرصے کے لیے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے تین خوفناک کیس سٹڈی صرف دو ہفتوں کے اندر میڈیا اور سوشل میڈیا پر رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان میں سے پہلی کیس سٹڈی بہاول نگر کے تھانہ مدرسہ پولیس کی وڈیوز سے دو قسطوں میں پبلک ہوئی۔ پہلی قسط میں پنجاب پولیس کے ملازم بغیر کسی سرچ وارنٹ‘ مجسٹریٹ یا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 103کو پامال کرتے ہوئے‘ عورتوں کے بال کھینچتے‘ اُنہیں گھسیٹتے اور بے رحمی سے ڈنڈے‘ لاتیں‘ مکے مارتے نظر آرہے ہیں۔ جبکہ دوسری قسط میں مارنے والے جوابی طور پر مار کھاتے اور ساتھ روتے ہوئے ملتے ہیں۔ تشدد کی یہ دونوں صورتیں قابلِ مذمت ہیں۔
دوسرا کیس سٹڈی سندھ کے ایئر پورٹ پر پاپا کی پری کے ساتھ ایئر پورٹ فورس کے جوان کا جانورانہ تشدد ہے۔ محض چند سال کی بچی‘ جو باپ کی محبت میں سرشار اُس کی طرف بھاگی‘ سرکاری وردی والے قوم کے نوکر نے معصوم بچی سے بلی کے بچے سے بدتر سلوک کیا۔
تیسرا کیس سٹڈی‘ دوسرے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر باوردی شخص کا خالی ہاتھ مسافروں پر تشدد‘ ان پر کرسیاں پھینکنا‘ حقارت سے تھوکنا اورغلیظ زبان کا کھلا استعمال ہے۔ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں آ گِرے۔ یہاں پہ تاریخ کا تازہ سبق یاد آیا‘ جب چارلی وِلسن کی 'مقدس جنگ‘ کے لیے ساری دنیا کے جنگجو اکٹھے کیے گئے تب کسی نے نہ سوچا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد یہ نان سٹیٹ ایکٹرز‘ جو صرف گوریلا وار فیئر لڑنا جانتے ہیں‘ جنگ کے خاتمے کے بعد جنگ کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ یہیں سے خانہ جنگی کا آغاز ہوا جس نے بے شمار ملکوں کو تاراج کرکے رکھ دیا۔ ایسے موقع پر عربی میں کہتے ہیں ''یا وَیل‘‘۔