اٹک سے پشاور۔ گلگت‘ ہزارہ‘ ہکلہ سے میانوالی‘ بھکر‘ ڈی آئی خان۔ اسلام آباد سے کشمیر۔ کہوٹہ ٹرائی اینگل سے جہلم تا لاہور۔ ملتان سے بھائی پھیرو یا خوشاب سرگودھا سے گوجرنوالہ۔ اب اس شہرمیں داخل ہونے والے شاہزادے کو صرف ہنسی آتی ہے‘ رونا نہیں آتا۔ کیونکہ پاکستان کو معاشی ترقی اور جمہوری نظام سے ویلڈنگ کے ذریعے اتنا پکاجوڑ دیا گیا ہے کہ ہر طرف‘ ہر شہر کے دروازے پر‘ ہر گلی کی نُکڑ پر اور ہر چوک کے فوارے پر ''ڈرائی پورٹس‘‘ کا جال بچھا دیا گیا۔ اتنے کنٹینرکہ دنیا کی ساری ڈرائی پورٹس اکٹھی ہو جائیں تو بھی گنتی میں جدید پاکستانی ڈرائی پورٹس کنٹینروں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ایک اور ہنسنے ہنسانے والی بات یہ بھی ہے کہ ان کنٹینروں پر عمران خان کی تصاویر‘ PTI کے جھنڈے اور حقیقی آزادی کے نعرے پینٹ کر دیے گئے۔ ان ڈرائی پورٹس کی برکت سے پچھلے تین دن اسلام آباد میں ہر چیز ڈبل مہنگی ہوئی۔ ریڑھی اور چھابے والے کے ریٹ سپر مارکیٹ والے ہو گئے اور سپر مارکیٹ والوں کے ریٹ ٹوکیو اور لندن والے۔ تین دن تک نارتھ پاکستان سے جو پھل‘ سبزی‘ فروٹ کیپٹل اور پنجاب کے شہروں کو سپلائی ہوتا ہے‘ وہ دھوپ میں کھڑے ٹرکوں پر رکھے رکھے منڈی میں لے جانے کے قابل نہیں رہا۔ اسلام آباد میں شہرکی ہر گلی‘ ہر سڑک اور ہر سیکٹر میں علیحدہ علیحدہ ڈرائی پورٹس بنائے گئے۔ ڈیجیٹل سہولتوں کو رہنے دیں‘ لینڈ لائن فون بھی معطل رہے۔ ہزاروں کنٹینروں‘ لاٹھیوں‘ آنسو گیس کے گولوں سمیت ہر طرح کی سہولت سے محروم ہزاروں نوجوان ڈی چوک پہنچے۔ شہر میں ہزاروں سکیورٹی اہلکار‘ چھ بڑے قریبی سیکٹروں کی سٹریٹ لائٹس بند کر کے جھاڑیوں میں چھپ گئے۔ جو گاڑی سڑک پر آتی‘ اُس میں فیملی ہے‘ مریض ہے یا احتجاجی یوتھ یا سینئر سٹیزن‘ سب کے شیشوں اور بونٹ پر اندھیرے سے نکل کر ڈنڈے برسائے جاتے رہے۔
یہ وکالت نامہ اتوار کو شام سات بجے لکھا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی ٹولیوں کی شکل میں نوجوان اور خواتین بلیو ایریا کی مین جناح ایونیو‘ جس کے مشرقی کونے پر ڈی چوک ہے‘ پر موجود نعرے لگا رہے ہیں‘ جن کی وڈیوز سوشل میڈیا پر مسلسل لائیو شیئر ہو رہی ہیں۔ یہ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ کا پہلا احتجاج ہے‘ جس میں احتجاجیوں کا لیڈر اڈیالہ جیل میں بند ہے۔ اس شہر میں اُن کا کوئی میزبان نہیں‘ کوئی سٹیج نہیں‘ کوئی لائوڈ سپیکر نہیں۔ عہدیدار کہیں پچھلی صفوں میں رہ گئے اور عام لوگ خود اپنا کاز اور مقدمہ Lead and Plead کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کا عملی مفہوم‘ اندھے بہرے‘ گلے سڑے اور بوسیدہ نظام تک پہنچا رہے ہوں:
اندھیر ی رات کو یہ معجزہ دکھائیں گے ہم
چراغ اگر نہ جلا تو دل کو جلائیں گے ہم
ہماری کوہ کنی کے ہیں مختلف معیار
پہاڑ کاٹ کر رستے نئے بنائیں گے ہم
ہفتے کے روز ایک عدد ''معلوم‘‘ نمبر سے کال آئی‘ ایک انتہائی ہمدردانہ مشورہ دینے کے لیے۔ آپ انقلاب کی تاریخ‘ انقلابیوں کے عزائم‘ بھگت سنگھ‘ نوجوانوں کی طاقت‘ رُول آف لاء‘ آئین کی بالادستی پر کیوں وقت ضائع کرتے ہیں‘ موجودہ شدید تنائو کے منظرنامے پہ لکھیں۔ سنگل ریمیڈی بتائیں کہ مسئلے کا حل کیا ہے۔ ساتھ ارشاد فرمایا: آپ کا لکھا ہوا ہضم نہیں ہوتا۔ یہ مشورہ سُن کر شہر میں داخل ہونے والے شاہزادے کی طرح مجھے بھی ہنسی آ گئی۔ موصوف کو بتایا: اسلام آباد میں ہر طرح کے ہاضمے کی خرابی کے لیے گولڑہ پھکّی بڑی مشہور ہے‘ استعمال کیا کریں۔ مشورہ چونکہ ہمدردانہ ہے اس لیے مجھےTimothy Snyder کی تصنیف‘ جس کا عنوان On Tyranny: Twenty Lessons from the Twentieth Century ہے‘ یاد آ گئی۔ بیسویں صدی کے اس مشہور یورپین تاریخ دان کی یہ کتاب 2017ء میں چھپی۔ 20 میں سے 10 پوائنٹ جو جابرانہ طرزِ حکومت میں استعمال ہوتے ہیں‘ کچھ یوں ہیں:
Timothy کا پہلا پوائنٹ: جابر حکمران کہتے ہیں شہر بند کر دو‘ معاشی سرگرمیوں اور کھانے پینے کی چیزوں کی ترسیل روکتے ہیں۔ یہ احساس کیے بغیر کہ اکانومی اس کا کتنا خمیازہ بھگتے گی۔
دوسرا پوائنٹ: اختلاف کنٹرول کرنے کے لیے لوگ اُٹھائے جاتے ہیں‘ اُنہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ لوگ قیدی بنائے جاتے ہیں تاکہ سارے عوام پر خوف کا دبدبہ بیٹھ جائے۔
تیسرا پوائنٹ: جبراً مسلط ہونے والے حکمران لوگوں کی محبت اور عام آدمی کا اعتماد جیتنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ نہ ناراض عوام کو راضی کرنے کا سوچتے ہیں۔ جس سے وہ لوگوں سے Disconnect ہو جاتے ہیں۔
چوتھا پوائنٹ: غیر منتخب حکمران آزادیٔ رائے کو سینسر کرتے ہیں۔ تنقید کو دباتے ہیں تاکہ اختلافی آوازوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہ بچے۔
پانچواں پوائنٹ: جابرانہ حکمرانی میں الیکشن یا احتساب کا تصور نہیں۔ اس لیے جابر حکمران ظلم وتشدد کو گورننس کا راز سمجھتے ہیں اور عوام کی ضرورتوں سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔
چھٹا پوائنٹ: جبر کے نظام میں حقیقت کو توڑ مروڑ کے ذریعے غلط بیانی کا چولا پہنایا جاتا ہے اور شخصی کنٹرول قائم رکھنے کے لیے ہر طرح کا جھوٹ بولا جا تا ہے۔
ساتواں پوائنٹ: جبروت کی حکمرانی‘ شہریوں اور اداروں میں اعتماد کی بنیاد اُڑا دیتی ہے۔ جس کی جگہ شک و شبہ اور تقسیم پیدا ہوتی ہے۔
آٹھواں پوائنٹ: معیشت کمزور ترین گورننس کا شکار ہوتی ہے اور لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
نواں پوائنٹ: تخلیق‘ تعمیر اور کلچر کا گلا گھونٹ کر قوم کو بغیر کسی شناخت اور قوتِ اظہار کے ہجوم میں بدلا جاتا ہے۔
Timothy کی کتاب کا دسواں پوائنٹ انگریزی میں پڑھ لیجیے: Frustration turns into fury as people's voices remain unheard, pushing the nation toward unrest.
قارئینِ وکالت نامہ یہ بات توجہ کرنے والی ہے کہ بیسویں صدی کا یورپ‘ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے‘ جہاں قوم کے سوچنے‘ سمجھنے اور لکھنے والے قوم کے زخموں کو عام کرتے ہیں تاکہ اُن کا علاج ڈھونڈا جائے اور اُن پہ مرہم رکھا جائے۔ اپنے ہاں اختلاف‘ آہ و زاری کا علاج ڈنڈے سے اور بے بسی‘ کمزوری اور فاقہ کشی کا خاتمہ آنسو گیس کے گولوں سے ہو رہا ہے۔ یہ لفظ لکھے جا رہے تھے تب لاہور سے راولپنڈی تک احتجاج کرنے والے نہتے لوگوں پر پچھلے تین دن میں پچاس سے زائد FIR's کاٹی جا چکی تھیں‘ باقی لکھی جا رہی ہیں۔ اسی ہفتے فیصل آباد‘ میانوالی اور بہاولپورمیں بھی آزادیٔ اظہار پر لوہے کی دیوار گرانے کے شوق میں درجنوں پرچے کاٹے گئے۔ دو ہزار کے قریب لوگ گرفتار کر لیے گئے یا غائب۔ فیڈریشن کے چار میں سے ایک یونٹ کا چیف ایگزیکٹو غائب کر دیاگیا۔ علی امین گنڈاپور صوبائی پارلیمنٹ میں سنگل لارجسٹ پارٹی کا لیڈر آف دی ہائوس ہے۔ وزارتِ داخلہ کہتی ہے ہمیں نہیں معلوم چیف منسٹر کہاں بھاگ گیا۔
سنگل ریمیڈی ریاستی طاقت کے استعمال کے بجائے ہمیشہ سے ریاست کے لوگوں کی آواز سننے میں موجود ہے۔ یا اُولی الا بصار...! دستور پڑھ لیں۔