جو آپ پڑھ چکے‘ ہم سب سُن چکے اور دیکھ چکے وہ جنگی رپورٹنگ تھی۔ جہاں ہم آج کھڑے ہیں اُسے پاک‘ بھارت عارضی جنگ بندی کی وجہ سے آپ عارضی پوسٹ وار پیریڈ کہہ لیں۔ اقوامِ عالم کی تمام رپورٹ شدہ جدید وقدیم جنگوں میں فتح ایک فریق کی ہو سکتی ہے‘ لیکن نقصان لازماً دونوں فریقوں کا ہوتا ہے۔ چاہے نقصان جانی ہو‘ مالی اثاثوں کا‘ نفسیاتی یا پھر سیاسی وجغرافیائی۔ حالیہ جنگ کا پیٹرن بھارت نے روٹین کے اپنے فالس فلیگ آپریشن سے طے کیا لیکن یہ ایشیا میں لڑی جانے والی اپنی طرز کی پہلی جنگ ہے۔ پاک‘ بھارت 1965ء اور 1971ء کے بعد یہ تیسری بڑی جنگ ہے جو 54 سال بعد لڑی گئی۔ اس جنگ کے میدان اور محاذ ہی نہیں بلکہ حرب وضرب کے ہتھیار واوزار بھی جدید ترین الیکٹرانک وار فیئر ٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ ایک بات البتہ بلاشبہ 1965ء اور1971ء کی جنگوں والی تھی۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم ترین شاہین ایم ایم عالم‘ سیسل چودھری‘ سرفراز رفیقی اور یونس حسن خواجہ شہید تھے۔ 1971ء میں ایسٹ پاکستان کے سرنڈر کا المیہ سارے منظرنامے پر چھا گیا مگر آج ایک بار پھر پاکستان ایئر فورس King of Skies ثابت ہوئی ہے۔ قوم اپنے وطن کے ان جانبازوں کو کبھی نہیں بھولے گی‘ جن میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے عیسٰی نگری کے بشیر عالم بھٹی مسیح کے بیٹے‘ نوجوان فائٹر پائلٹ کامران بھٹی مسیح نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ گروپ کیپٹن کامران عالم بھٹی نے بھارت کے اندر گھس کر جس پیشہ ورانہ مہارت اور بے جگری سے دشمن کی ایئربیس اُڑائی‘ وہ سچی داستان ٹام کروز کی فلم ٹاپ گن میوورِک سے بڑھ کر ہے۔ پاک‘ بھارت جنگ کے پوسٹ وار منظرنامے کے چند قابلِ ذکر اور قابلِ توجہ پہلو یہ ہیں۔
پاک‘ بھارت جنگ کے مڈل ایسٹ اور عالمِ اسلام پر اثرات: ایفرو عرب ممالک نے پچھلے سات‘ آٹھ عشروں میں بیرونی دشمنوں کے اَن گنت مظالم سہے ہیں۔ کبھی یورپین توسیع پسند ملکوں کے ہاتھوں اور کبھی امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور نیٹو اتحادیوں کے فائر پاور کے تلے۔ پہلی بار مسلم اُمہ اور عالم عرب نے ایک مسلم ملک پاکستان کی طرف سے ہندوتوا کے پجاریوں پر آگ وآہن کی یلغار دیکھی ہے۔ عرب سوشل میڈیا پر ایک معروف سکالر نے عربی زبان میں کمال کا تبصرہ کیا۔ موصوف روح کی گہرائیوں سے لکھتے ہیں: لقد مضی وقت طویل وھذہ العیون المحرومۃ لا تری سوی مشھدِ واحد۔''بہت وقت گزرگیا‘ میری ان محروم آنکھوں نے ایک ہی منظر کو بار بار دیکھا ہے۔ ظالموں کو مسلمانوں پر آسمان سے آگ اور آہن برساتے ہوئے۔ کبھی عراق کے آسمان شعلوں سے بھر گئے۔ کبھی فلسطین کی گلیاں لہو سے رنگین ہو گئیں۔ کبھی افغانستان کے پہاڑ لرز اُٹھے اور پھر کبھی شام ولبنان کی زمین پر آسمان سے قیامت نازل ہوئی‘‘۔
آگے لکھتے ہیں: ولَکن الیوم... الیوم رات ھذہ العیون مشھدا روی ظما السنین۔ راینا صقور باکستان تُمطر عبدۃ البقر نارا۔ لیکن آج...! آج آخرکار میری ان آنکھوں نے وہ منظر دیکھ لیا جس نے برسوں کی پیاس بجھا دی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شاہینوں نے گائو پوجنے والوں پر آسمان سے آگ کی بارش برسائی۔ دل کی دھڑکنیں سجدہ ریز ہو گئیں۔ مزید آگے چل کر روح میں اُتر جانے والی بات اس صاحب ِ فہم عرب نے یوں کہہ ڈالی: نزل بردّ الی اُعماق القلب لایمکن وصفہ بالکلمات۔ ایسا سکون دل کی گہرائیوں میں اُترا جو لفظوں میں بیان ہو ہی نہیں سکتا۔ اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریف‘ ہزار بار شکر کہ تو نے ہمیں یہ دن دکھایا۔ یہ تیرا ہی فضل ہے کہ مظلوموں کی دعائیں سنی گئیں۔ اپنے جذبات کا اختتام شیخ نے ان معنی خیز لفظوں سے کیا: وسقط صاعقۃ من السماء علی الظالمین ۔ تیرے فضل سے ظالموں پر آسمان سے بجلی گری۔ پاک‘ بھارت جنگ 2025ء نے قائداعظم اور اقبال کا دو قومی نظریہ پھر سے تروتازہ کر دیا ہے۔
چین کی لازوال دوستی کا ثبوت: عظیم پڑوسی ودوست عوامی جمہوریہ چین نے تازہ پاک‘ بھارت جنگ میں دو طرح کی امداد کی۔ پہلی امداد کا کچھ حصہ برطانیہ کے معروف اخبار The Telegrapgh میں ٹاپ سٹوری کے طور پر شائع ہو چکا۔ مجھے شہرِ اقتدار سے جو پتا چلا وہ اُس سے بھی بڑھ کر ہے۔ یوں سمجھیے چین کے صدر شی جن پنگ صاحب نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا بلکہ اُن کی حمایت ہمارے لیے لوہے کی دیوارِ چین ثابت ہوئی۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس کا موقع چین کو ایک امریکی نیوز نیٹ ورک نے فراہم کر دیا۔ اینکر نے چینی نمائندہ پروفیسر سے سوال پوچھا: آج ہمارے پاس سٹیلائٹ تصویریں اور مصدقہ میڈیا رپورٹس ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے چین مشرقی سرحدوں سے پاکستان کو چین کی لاجسٹک سپلائی‘ پاکستان کے لیے فیول اور اسلحہ پہنچا رہی ہے۔ آپ یہ مانتے ہیں یا انکار کرتے ہیں؟ چینی نمائندے نے انڈین نژاد اینکر سے کہا: میرا پہلا جواب یہ ہے کہ میں انڈیا اور اس کی قوم کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ اس وقت چین کی معیشت بھارت کی معیشت سے سائز میں 500 فیصد بڑی ہے۔ دوسرا یہ کہ چین اور پاکستان آئرن کلیڈ الائیز (آہن پوش اتحادی) ہیں۔ اس وجہ سے جب بھی پاکستان کی sovereignty یا جغرافیائی integrity کو کسی بھی ملک سے خطرہ ہوگا تو یاد رکھنا چین پاکستان کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حق کا ہر حال میں تحفظ کرے گا۔ اس بارے میں کسی کو کوئی غلط سوچ نہیں رکھنی چاہیے۔ میں اپنی بات پھر سے دہراتا ہوں۔ یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور اسے دیکھ کر ہم سب کو اجتماعی طور پر چین کے حقِ دوستی کو اثاثہ سمجھ کر اُس کا تحفظ کرنا چاہیے۔
ہماری جنگیں اور امریکہ: موجودہ پاک بھارت لڑائی پر گفتگو کے لیے دونوں ملکوں کے DG ملٹری آپریشنز آج ملاقات کریں گے۔ کاش بھارت یہ ملاقات پہلے کر لیتا۔ چین اور بھارت کا بارڈر پاکستان اور بھارت کے بارڈر سے بھی طویل ہے۔ بھارت‘ چین میں جنگیں بھی لڑی جا چکی ہیں۔ ایک بات پر پاکستان کے عوام سخت کنفیوژن کا شکار ہیں‘ وہ ہے ہماری جنگوں میں امریکہ بہادر کی ثالثی اور امریکہ بہادر کے عہدیداروں کے ٹیلی فون۔ کارگل کے لیے نواز شریف کو فون‘ مشرف کے دور میں رمزفیلڈ کا فون۔ جنرل باجوہ کے زمانے میں ڈونلڈ لُو کے فون۔ یہاں پاک بھارت برابر ٹھہرے‘ دونوں کو ایک ایک امریکی کال نے میز پر لا بٹھایا۔ کیا ہی اچھا ہوتا پاک بھارت تحریری شملہ معاہدے کے تحت خود اکٹھے بیٹھ جاتے۔
سیز فائر واہگہ کے پار تک‘ یا آر بھی ہوگا: پاک بھارت جنگ کے دوران عمران خان‘ پی ٹی آئی اور اُس کے سوشل میڈیا نے کروڑوں پاکستانیو ں کے ساتھ مل کر قومی یکجہتی کا پیغام بھیجا۔ آج ہم اپنے بچوں‘ عورتوں‘ شہریوں اور جوانوں کے تازہ قاتلوں کے ساتھ بیٹھیں گے۔ جنگوں میں مذاکرات بہتر حل نکالتے ہیں۔ قوم موجودہ نظام سے جاننا چاہتی ہے اگر واہگہ پار والوں سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو واہگہ آر والوں سے کیوں نہیں؟ یہ تو سارے خالی ہاتھ ہیں‘ کسی کو مارا نہیں بلکہ خود مرے ہیں اور رول آف لاء‘ آئینی حقوق اور شہری آزادیوں کی آواز اُٹھائی ہے۔ اس یکجہتی کے ماحول کو شہباز‘ نواز برقرار رکھیں گے یا بھارت سے سیز فائر کر کے اپنی توپوں کا رخ پھر عمران خان کی طرف کر لیں گے۔ پوسٹ وار‘ قومی یکجہتی کے لیے سب سے بڑا قومی سوال یہی ہے۔
ایک تاریک ستارہ ہے اُفق پر غلطاں
ایک المناک خموشی ہے پسِ پردۂ ساز
کن چٹانوں سے کروں سنگ دلی کا شکوہ
اے فضائوں کے سخن فہم‘ صبا کے ہمراز