فائر بندی کا مطلب جنگ کا خاتمہ ہر گز نہیں ہوتا جبکہ سیز فائر وقتی طور پر فائرنگ روکے رکھنے کو کہتے ہیں۔ فائر بندی سے لام بندی‘ یعنی جنگ کی تیاریاں‘ کہاں نقصان ہوا‘ کیوں ہوا‘ معرکے میں کیا کمی رہ گئی اور اگلے معرکے کی پلاننگ‘ یہ سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جنگ کے موضوع پر دنیا کے بڑے سکالرز‘ عظیم جنگجو اور کامیاب جرنیلوں کی کتابیں اور اقوال انتہائی سبق آموز ہیں۔ فرانسیسی جنگجو نپولین بونا پارٹ کا جنگ کے بارے میں یہ قول مجھے ذاتی طور پر بہت اچھا لگتا ہے کہ سب سے کامیاب جنگ وہ ہے جو ٹل جائے۔ جدید دنیا میں جتنی بھی اینٹی وار تحریکیں چلتی آرہی ہیں‘ ان کا بنیادی مقصد بھی جنگ ٹالنا ہی ہے۔ جنگوں پر گہری نظر رکھنے والے عالی دماغوں نے ایک اور گرہ بھی کھولی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بادشاہ کمزور ہو جاتے ہیں‘ عام آدمی غربت‘ کرپشن اور بے رحمی سے تنگ آجاتے ہیں تو ایسے ماحول میں کمزور بادشاہ جنگ چھیڑ کر لوگوں کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کا بہترین وار کرتا ہے۔
ممتاز امریکی تاریخ دان جوڑی Will Durant اور اس کی شریکِ حیات Ariel Durant نے انسانی تاریخ کا پانچ ہزار سالہ جنگی انسائیکلو پیڈیا تحریر کیا۔ 1968ء میں چھپنے والی اس کتاب‘ جو گیارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے‘ اس کا ٹائٹل ہے The Story of Civilization۔ ڈیورینٹ جوڑی کی کتاب کی گہرائی کی اندازہ لگانے کیلئے وہ 12 وجوہات دیکھنا ضروری ہیں جو ڈیورینٹ کے سکول آف تھاٹ کے مطابق جنگ کا باعث بنتی ہیں۔ پہلی جغرافیہ‘ دوسری بائیولوجی‘ تیسری نسل‘ چوتھی کردار‘ پانچویں اقدار‘ چھٹی مذہب‘ ساتویں معیشت‘ آٹھویں سوشلزم‘ نویں حکومت‘ دسویں جنگ برائے گروتھ‘ گیارہویں جنگ برائے زوال اور بارہویں جنگ کے ذریعے ترقی‘ جنگ چھیڑنے کی وجوہات بتائی گئیں۔
جنگ کے موضوع پر سب سے مشہور تصنیف The Art of Warہے جو پانچویں صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی۔ پوری دنیا کی فوجوں کے سٹرٹیجی میکرز کو پڑھائی جانے والی یہ کتاب قدیم چین کے عظیم ملٹری سٹریٹیجسٹ Sun Tzu کی معرکہ آرا تصنیف ہے۔ مصنف کو دنیا میں ''ماسٹر سَن‘‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ آرٹ آف وار نے مشرق و مغرب کی تمام بڑی افواج کی سٹرٹیجی اور ایکشن‘ دونوں کو متاثر کیا۔ اس چھوٹی سی کتاب کے 13 باب The most influential strategy text in warfare کہلاتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کا انٹرو یعنی ابتدائیہ تمام ہوا۔ خدا نہ کرے اس کا دوسرا‘ جسے آپ اگلا فیز بھی کہہ سکتے ہیں‘ وہ آئے۔ لیکن ایسا ہونا ناممکنات میں سے نہیں۔ ہمارے سابق سیکرٹری خارجہ جناب ظفر ہلالی اور معروف صحافی آفتاب اقبال کی تازہ تحریریں بھی میرے جیسے خیالات کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کو دو جہتی سٹرٹیجی کی فوری ضرورت ہے۔
عارضی جنگ بندی میں مستقل قومی یکجہتی کیسے ممکن؟: پری 7مئی پیریڈ محض چند دن پہلے کی بات ہے۔ پاکستان پر بھارتی حملے سے پہلے پاکستان کے لوگوں کے لیے کوئی نقطۂ اِتصال موجود نہیں تھا۔ ہماری فضاؤں میں جنگ کے خطرناک بادل آئے لیکن ان کے ساتھ قومی یکجہتی کی روح افزا گھٹائیں بھی ظاہر ہو گئیں۔ اس ماحول کو برقرار رکھنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ وہ ہے جو پنجاب اور مرکز میں حکمران اپنا چکے ہیں۔ اس زہر آب والی دیگ کا یک دانۂ چاول یہاں پیش کرنا کافی رہے گا۔ پورے پاکستان میں قوم نے بھارت کی پاک فضائیہ کے ہاتھوں دُرگت پر خوشیاں منائیں۔ اس خوشی میں پی ٹی آئی بھی شریک تھی‘ جس کی سوشل میڈیا ٹیم نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی مجموعی پوسٹوں سے کئی گنا زیادہ‘ سوشل میڈیا سے بھارت کو جواب دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کا پاکستان میں نہ کوئی مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اُس کی برابری۔ ٹویٹر؍ایکس پر 8مئی سے 12 مئی تک جو پوسٹ لگیں ان میں 'کی ورڈ‘ مودی کو شامل کر کے مسلم لیگ (ن) کے اکاؤنٹ سے دو پوسٹیں لگائی گئیں جن کو 10037لوگوں نے دیکھا۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے مودی کا نام لے کر 45 پوسٹیں لگائی گئیں جنہیں 35 لاکھ 77 ہزار 939 فالوورز نے دیکھا۔ چند دن پہلے جن بچوں کو سرکار ڈیجیٹل دہشت گرد قرار دے رہی تھی وقت آنے پر انہوں نے مادرِ وطن کے دفاع کا حق ادا کر دیا۔ وہ قرض بھی اتارے جو ان پر ابھی واجب ہی نہیں تھے۔ اسی قومی خوشی کے اظہار کے لیے لاہور کے تھانہ نصیر آبادکے علاقے میں ایک بھرپور پُرامن جلوس نکلا جس کی میڈیا نے کوریج کی۔ بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستانی آپریشن بنیانٌ مرصوص کی شاندار کامیابی پر لاہور میں پاکستان زندہ باد ریلی نکالنے پر پی ٹی آئی کے خلاف تھانہ نصیر آباد میں ایک سب انسپکٹر نے ضابطہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 290اور 291کے تحت پرچہ درج کر ڈالا۔ اس ایف آئی آر کی دوسری لائن میں لکھا ہے: میں‘ نفری تلاش بد رویہ گان (گمراہ لوگ) کٹ گلاب دیوی موجود تھا۔ مین روڈ پر کافی رَش لگا اور مین روڈ بلاک ہو چکا تھا۔ عین موقع پر پہنچا تو چند اشخاص ہلڑ بازی اور نعرہ بازی کر رہے تھے۔ باامداد ہمرائیاں میں نے تین لوگ قابو کر لیے جن میں نمبر ایک پر ...... آئیے یہاں رک جاتے ہیں۔
پہلے پاکستان پینل کوڈ مجریہ 1860ء کی دفعہ 290اور 291پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ دونوں دفعات Non Cognizableہیں‘ جس کا اُردو زبان میں مطلب ہے ناقابلِ دست اندازیٔ پولیس جرائم۔ ایف آئی آر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے لیکن نہ کسی ادارے اور نہ علاقہ مجسٹریٹ نے اس کا نوٹس لیا۔ کیونکہ ایسے جرائم کے حوالے سے پاکستان پینل کوڈ میں واضح طور پہ لکھا ہوا ہے کہ پولیس پرچہ درج کرنے سے پہلے علاقہ مجسٹریٹ سے تحریری اجازت لے گی۔ اُوپر مذکور ایف آئی آر میں سب انسپکٹر نے سیدھا پرچہ کاٹا کیونکہ ایسا پرچہ کاٹنا ان دنوں پرائز پوسٹنگ اور فاسٹ ٹریک پروموشن کی بنیاد ہے۔ کیا ایسے ماورائے قانون جاہلانہ اقدامات سے قومی وحدت مضبوط ہو گی اور قومی یکجہتی کا خواب پورا ہو سکتا ہے؟ اسکا جواب میں بھی جانتا ہوں‘ آپ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں اور فیصلہ ساز بھی۔ اجتماعی ہم آہنگی کا اصل راستہ پچھلے ساڑھے تین سالوں کی غلطیوں کو سدھارنے میں ہے‘ جس دوران ہزاروں سیاسی کارکنوں پر دہشتگردی اور بغاوت کے پرچے درج ہوئے‘ جو عدم استحکام کا اولین سبب بن گئے۔ بھارتی حملے کے جواب میں قوم نے ثابت کیا کہ کسی بھی مشترکہ قومی سوال پر سب اکٹھے ہو سکتے ہیں مگر قوم کو اکٹھا کرنیوالوں کو کچھ بنیادی شعور تو ہو۔ دوسرا راستہ بھی اسی دوراہے سے کھلے گا۔ اَنا‘ غصہ اور انتقام کے پہاڑ سے نیچے اترنے کے بعد۔
عالمی میڈیا کے کچھ سنجیدہ حلقے نیوکلیئر لیکیج کی خبریں چلا رہے ہیں۔ ایک صحافی نے پنٹاگان کے ترجمان سے بھی یہی سوال پوچھا ہے۔ قومی ہم آہنگی اور عوام کی یکجہتی کا مستقل راستہ منٹوں میں کھل سکتا ہے کیونکہ قوم نے بِلا تشکیک و تفریق 6-0کی کامیابی مان لی۔ فیصلہ سازو! ہمت دکھاؤ‘ کسی شک و شبہ کے بغیر انتخابی شکست بھی تسلیم کرکے قوم کی امانت اصل وارثوں کو لوٹا دو‘ جنہیں قوم نے اپنے ووٹ سے وارث چُنا ہے۔ عمران خان کے بیٹوں قاسم اور سلیمان نے بھی یہی کہا ہے: جبر کے راستے یکجہتی کی منزل نہیں مل سکتی۔
سحر جیتے گی یا شامِ غریباں دیکھتے رہنا
یہ سر جھکتے ہیں یا دیوارِ زنداں دیکھتے رہنا
ہر اک اہلِ لہو نے بازیٔ ایماں لگا دی ہے
جو اَب کی بار ہو گا وہ چراغاں دیکھتے رہنا