میں پہلے کسی وکالت نامے میں ذکر کر چکا کہ استاد برہان الدین ربانی کی حلف برداری میں شرکت کے لیے ان کی دعوت پر کابل جانا ہوا تھا۔ تب ہماری فلائٹ کی لینڈنگ بگرام ایئر بیس پہ ہوئی۔ اُن دنوں بگرام صرف ایک نواحی ایئر پورٹ ہوا کرتا تھا۔ بگرام ایئر پورٹ کابل سے شمال کی جانب 40 میل کے فاصلے پر تین اطراف سے پہاڑیوں میں گھری ہوئی وادی میں واقع چھوٹی سی لینڈنگ سٹرپ رکھتا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں کابل انٹرنیشنل ایئر پورٹ ان دنوں کابل شہر کے نواحی علاقے چہار آسیاب سے آنے والے طالبان کے مارٹر گولوں کی زد میں تھا۔ ایئر ٹریفک کے لیے بین الاقوامی ایئر پورٹ بالکل ناکارہ بن چکا تھا۔
بگرام ایئر پورٹ امریکی ایئر بیس میں تبدیل ہونے کے بعد کئی حوالوں سے غیر انسانی اور زبردست سیاسی تاریخ کا مرکز بن چکا ہے‘ جس کے غیر انسانی سلوک کے ایک حصے میں ڈکٹیٹر کے عہد میں پاکستان سے ڈالر پکڑ کر گرفتار کروائے گئے افغان وزیر خارجہ وکیل احمد متوکل پر روا رکھے گئے مظالم کی داستان‘ جبکہ اس کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والی ایسی ہی اغوا کاری اور مسلسل آج تک جاری غیر انسانی سلوک کی گونج ہے۔ ان دونوں ضمیر کے قیدیوں کو امریکہ پہنچائے جانے کی داستانِ مظالم بھی کبھی بھلائی نہیں جا سکے گی۔
امریکی افواج نے سخت رسوائی کے عالم میں جس طرح بگرام ایئر بیس کو خالی کیا تھا‘ ساتھ ساتھ جس بے ہمتی سے ان کا پروردہ صدر اشرف غنی ڈالروں کے تھیلے لے کر ملک سے بھاگ نکلا‘ ان واقعات کو بھی تاریخ کے صفحات سے خارج یا سوشل میڈیا کی یادداشت سے ڈیلیٹ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی افواج کی پسپائی کی یہ داستان بالکل ویسے ہی ہے جیسے عشروں پہلے ویتنام سے امریکہ کی بدنامِ زمانہ پسپائی ہوئی تھی۔ آج ایک بار پھر شعلہ بیان صدرِ امریکہ نے آگ برساتا ہوا دو نکاتی دھمکی آمیز بیان جاری کیا ہے۔ پہلا یہ کہ افغانستان کی بگرام ایئر بیس کو افغان فورسز فوراً خالی کرکے امریکی افواج کے حوالے کر دیں۔ اس کے بعد غیر ذمہ دارانہ‘ غیر پارلیمانی اور غیر سفارتی زبان میں امریکی صدر نے مزید کہا کہ اگر طالبان نے بگرام ایئر بیس خالی کر کے امریکہ کے سامنے سرنڈر نہ کیا تو پھر کچھ ''بہت ہی برا‘‘ ہونے جا رہا ہے۔ سپر پاور کے صدر کی طرف سے اس بیان کا جواب طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر متقی نے بڑی دلیری سے دیا جس میں صدر ٹرمپ کے بیان کے دونوں حصے زیر تبصرہ لائے گئے۔ افغان وزیر خارجہ امیر متقی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا: بگرام ایئر بیس پھر سے امریکہ کے حوالے کرنا دور کی بات ہے‘ ہم افغان سرزمین کے دو انچ پر بھی کسی غیرملکی کو قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ صدر ٹرمپ کی جارحانہ دھمکی کے جواب میں امیر متقی بولے: امریکہ ہمیں دھمکیاں نہ دے‘ اس لیے کہ ہم امریکی جارحیت کے جواب میں اگلے 20 سال پھر سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔
پرسنل نوٹ پر ایک بات قارئین وکالت نامہ سے شیئر کر دیتا ہوں وہ یہ کہ میری متقی صاحب سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ پہلی ملاقات اس عرصے کی ہے جب طالبان ابھی افغانستان میں برسرِ اقتدار نہیں آئے تھے۔ ان دنوں مختلف متحارب افغان گروپس کے درمیان پاکستان نے ایک لویہ جرگہ منعقد کروایا جس میں سرکاری طور پر میں بھی شامل تھا۔ دوسری ملاقات کے وقت میں وفاقی کابینہ کا رکن تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی اور وزیر خارجہ کے ہمراہ امیر متقی کے استقبال کے لیے پہنچا۔ پاکستانی حکام نے جب میرا تعارف امیر متقی صاحب سے کروانا چاہا تو وہ مجھ سے ہاتھ ملانے کے بجائے میرا بازو پکڑ کر بغل گیر ہو گئے اور کہنے لگے کہ بابر اعوان صاحب! آپ کے جگری یار نواب اسلم رئیسانی کا کیا حال ہے؟ یہ واقعہ یہاں اس لیے درج کرنا ضروری تھا تاکہ بتایا جا سکے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ‘ دونوں ہی افغانستان اور پاکستان کے لوگوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ ان کی مقامی انفارمر اور این جی اوز سے آگے بڑھ کر پبلک ڈپلومیسی سو فیصد زیرو ہے کیونکہ وہ سفارت کی زبان کے بجائے طاقت کی زبان پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے انہیں معلوم ہی نہیں کہ افغان لیڈرشپ کی اکثریت شیرِ پنج شیر احمد شاہ مسعود سمیت کسی نہ کسی عرصے میں یا اسلام آباد میں مقیم رہے یا پھرکوئٹہ بلوچستان میں۔ اسی لیے امریکہ اور اس کے ہمنوا کوئٹہ شوریٰ‘ کوئٹہ شوریٰ کا شعور مچاتے آئے ہیں۔
اب آئیے ایک باریک بات کی طرف جو ان دنوں ملین ڈالر سوال بن گئی ہے۔ اس کے جواب کے دو حصے یہ ہیں۔
پہلا حصہ‘ Chinese President Xi Jinping defeats US President Trump: بگرام تنازع کا میدان اگرچہ افغانستان ہے لیکن وہ اس کا مرکزی فریق ہرگز نہیں۔ ذرا گہری نظر سے دیکھیں‘ یہ بات بالکل واضح ہے کہ براعظم افریقہ‘ لاطینی امریکہ‘ یورپ اور ایشیا میں چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فائر برانڈ پالیسیوں کو چاروں شانے چت کروا دیا۔ چین نے نہ کسی غیر ملکی سرزمین پر اپنی فوج اتاری‘ نہ اسلحے کا سنگل فائر کیا۔ اس کے باوجود آج چین یورپ میں سب سے بڑا ٹریڈر‘ جبکہ روس یورپ میں سب سے بڑا گیس اور پٹرولیم سمیت انرجی کا سپلائر ہے۔ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کا حمایت یافتہ امریکی میڈیا اسی لیے ان دنوں تقریباً تمام مغربی ملکوں پر مسلسل غصہ کر رہا ہے۔ امریکی صدر قیمتی منرلز کے شکاری ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی غیر منتخب فارم 47 لیڈرشپ پر اپنے سٹرٹیجک مقاصد کے لیے مسلسل دباؤ رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو بے مقصد شاید کسی سے سلام لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔
دوسرا حصہ‘ Minus Palestine: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 10مسلم ملکوں کے سربراہان کو اپنی خدمت میں حاضری دینے کے لیے وائٹ ہاؤس طلب کیا جن میں سے مشرقِ وسطیٰ تنازع سے براہِ راست متعلقہ صرف دو ممالک تھے۔ ایک سعودی عرب‘ جس کا اسرائیل کے ''مقبوضہ شہر‘‘ تبوک سے آمنا سامنا ہے۔ درمیان میں بحیرۂ احمر کی ایک پٹی یا تنگنائے پڑتی ہے۔ موجودہ سعودی عرب کے کئی علاقے گریٹر اسرائیل کا حصہ دکھائے گئے ہیں۔ دوسرا متعلقہ ملک قطر ہے۔ قدرتی وسائل اور معیشت میں بھاری بھرکم لیکن آبادی اور جغرافیائی طور پر ننھا مُنا سا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس اکٹھ کا مقصد کیا تھا؟ ماسوائے اسرائیل کو راضی کرنے کے لیے مسلم جرگے میں سے فلسطین کو مائنس وَن کرنا اور کیا؟ ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے غزہ کے باسیوں کی معتبر تحریک حماس پر الزام لگایا کہ وہ جنگ بندی نہیں ہونے دے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے صرف دو سال کے عرصے میں اقوامِ متحدہ میں 21 مرتبہ جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔
سوئے ادب نہ ہو یا ہو تو کیاکوئی بتا سکتا ہے کہ ان دس ممالک میں سے کون سا ملک ہے جو امریکہ کی مرضی کے بغیر غزہ کے بھوکوں کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا یا پانی کا ایک قطرہ پہنچا کر ثوابِ دارین حاصل کرے گا۔ بقول شاعر:
دل میں وہ درد نہاں ہے کہ بتائیں کس کو؟
ہاں اگر ہے تو کوئی محرمِ اسرار سنے
میں تو سو مرتبہ تیشے کی زباں سے کہہ دوں
تُو جو افسانۂ فرہاد! بس اک بار سنے