"SBA" (space) message & send to 7575

پاک افغان کشیدگی‘ دہشت گردی کنٹرول یا خاتمہ …(2)

آگے بڑھنے سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں دہشت گردی کے موضوع پر تین متنازع تصورات‘ جو ساری دنیا کے وکلا‘ ججز اور بین الاقوامی تھنکرز فورمز پہ زیربحث چلے آتے ہیں۔ پاکستان کی پانچوں ہائی کورٹس میں اس بحث سے متعلقہ فیصلے صادر کیے گئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بنچ نے بھی غلام حسین کیس میں اس پہ لینڈ مارک فیصلہ دیا‘ جو PLD سال 2020ء سپریم کورٹ صفحہ 61 پر موجود ہے۔
قارئینِ وکالت نامہ کے لیے اس بحث کی قانونی موشگافیوں اور گمبھیرتا چھوڑ کر اسے یوں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسا متنازع موضوع ہے جسے بعض غاصب ریاستیں اپنے نسل کُشی کے ایجنڈے کے حق میں استعمال کرتی ہیں۔ سب سے بڑی مثال اسرائیل کی ریاست سے ملتی ہے۔ ساتھ ساتھ تقریباً سارا یورپ‘ برطانیہ اور امریکہ نے بھی وقتاً فوقتاً امپیریل ازم اور کالونیل ازم کی گرفت مضبوط بنانے کے لیے دہشت گردی کو آزادی پسند عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا۔ انڈین مقبوضہ کشمیر اور اسرائیلی مقبوضہ فلسطین اس کے دو بڑے کیس سٹڈی ہیں جہاں دونوں ملکوں میں باہر سے آنے والے غاصب سرزمین کے اصل مالکوں کو دہشت گرد کہتے ہیں جبکہ اصل مالک اپنی سرزمین غاصبوں کے قبضے سے چھڑانے کی جدوجہد کو تحریکِ آزادی کا نام دیتے ہیں۔ ان آزادی پسند عوام کا مؤقف سو فیصد بجا اور آزادی کے لیے ان کی جدوجہد قانونی طور پر درست ہے۔ افغانستان اس سلسلے کی تیسری مثال ہے جہاں پشتون اور غیر پشتون‘ ہزارے اور بہت سے دوسری لسانی اور قبائلی گروہ کیمونسٹ انقلاب کے بعد سے ایک دوسرے کو دہشت گرد کہہ کر اپنے لاکھوں لوگوں کو اپنے ہاتھوں مار چکے ہیں۔
اس کی دوسری مثال Totalitarian States سے ملتی ہے جہاں آہنی دیوار کے پیچھے سوسائٹی کو قتل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ کبھی کلچرل طریقے سے‘ کبھی لسانی بینر تلے‘ کبھی مذہبی پاپائیت کے نام پر اور کبھی سکیورٹی ریاست اور ہائبرڈ نظام وغیرہ کے ذریعے۔ پاکستان شروع کے عشروں ہی سے ایسے تنازعات کا مارا ہوا معاشرہ ہے جہاں سیاسی مخالفت‘ Status Quo کے لیے حرفِ انکار‘ فردِ واحد کی غلامی سے تکرار کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالا گیا۔
تیسری قسم کے ایسے ممالک اس صف میں آتے ہیں جو باقاعدہ دہشت گردی کو سٹرٹیجک اثاثہ سمجھ کر ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ اس ایکسپورٹ کو ریسیو کرنے والے ملک دوسری وتیسری دنیا میں آباد ہیں۔ جس ملک کے ہاں جتنے معدنی‘ قدرتی‘ پٹرولیم‘ سونے‘ ہیرے جواہرات کے ذخائر ہیں وہاں وار لارڈ پیدا کر کے اُن کی فنڈنگ اور ایمونیشن سپلائی کے ذریعے ریاست کی جڑیں کھوکھلی کی جاتی ہیں۔ ایشیا‘ لاطنی امریکہ اور افریقہ‘ تینوں براعظم ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس لیے جس ملک کی سرکار دہشت گردی کا سہارا لے کر نعرہ بازی میں پڑ جائے وہاں کے لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ‘بجا طور پر ہر معاملے میں۔
حالیہ پاک افغان کشیدگی 1979ء کے واقعات کا ایکشن ری پلے ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ پہلے ہم نے امریکہ کے کہنے پر 35‘ 40 لاکھ افغانوں کو پاکستان میں دراندازی کے ذریعے لا بسایا۔ اب چونکہ یو ایس کی ترجیحات بدل گئی ہیں لہٰذا وہی مہاجرین جو کسی زمانے میں برادرانِ اسلام تھے‘ اسلامی انقلاب کے داعی اور پاکستان کے لیے وفا کے پتلے تھے اب وہ نمک حرام ڈکلیئر ہو گئے۔ ان افغان مہاجروں کی تین نسلیں پاکستان میں پیدا ہوئیں‘ افغانستان کے اندر کا کلچر جن کے لیے سو فیصد اجنبی ہے۔ اسی لیے کئی بار ان مہاجرین کو پاکستان سے نکالا گیا۔ ہم انہیں میران شاہ‘ طورخم اور چمن بارڈر سے ٹرکوں لاریوں پر لاد کر چھوڑ آئے‘ یہ اگلے دس دن میں گدھوں اور خچروں پر چڑھ کر پہاڑی راستوں سے پھر شہری آبادیوں میں واپس آ جاتے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر دو مرتبہ نیشنل ایکشن پلان بناتے وقت Input دینے کا موقع ملا۔ پھر یہ پلان بغیر کسی ویژن کے رنگ برنگی ایسی بیورو کریسی کے حوالے ہو گیا جس کا ویژن نوکری سے شروع ہوتا ہے اور مراعات حاصل ہونے پر ''The End‘‘ کر دیتا ہے۔ اس صورتحال کو سپائرل کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں: مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی۔ عوامی سطح پر افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی حمایت موجود تھی‘ اب صورتحال بدل چکی ہے جس کی بڑی وجہ صدر ٹرمپ کے دو مختلف پریس ٹاک کے بیانات ہیں۔ آج عام آدمی سے بات کریں تو وہ بھی کہے گا کہ ہمیں امریکہ لڑا رہا ہے یعنی ہم کسی پراکسی جنگ کے لیے ٹریپ ہوگئے۔ آئیے اس منظر نامے کے دو نکات کو قریب سے دیکھتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا بیان: یہ بیان کوئی انوکھا لاڈلا ہی دے سکتا ہے۔ بہرحال ہماری ہائبرڈ سرکار نے امریکی صدر کو نوبیل پرائز کا چاند لا دینے کا بیڑا اُٹھایا ہوا ہے۔ اس لیے ٹرمپ صاحب بھی چاند سے نیچے کسی چیز پر راضی نہیں ہو رہے۔ پہلی پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا: بگرام سے چین کے ایٹمی اثاثے ایک گھنٹے کی فلائٹ پر ہیں۔ اس لیے ٹرمپ کھیلن کو مانگے بگرام۔ ہماری علاقائی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے مغربی ماہرین جو ٹرمپ کے ناقد ہیں‘ کہتے ہیں کہ ٹرمپ دو پیری کھیل رہا ہے۔ ایک طرف افغانستان سے نان سٹیٹ ایکٹر پاکستان پر حملہ آور ہوئے جنہیں جنگ رکوانے کے دعویدار امن کے نوبیل پرائز کے پاکستانی امیدوار نے اس در اندازی کو رکوانے کے لیے نہ کوئی بیان دیا اور نہ اپنا AfPak سپیشل انوائے بھیجنے کا تکلف کیا۔ اس دوران ہم امریکیوں کو دہشت گردی کنٹرول کرنے اور علاقائی دہشت گردی کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر حقِ وفاداری ادا کرتے رہے۔ لہٰذا! جہاں ہم آج کھڑے ہیں وہ خوشخبری کا مقام ہے نہ ہی خوشی کا۔ مگر اس بارے سوچے گا کون ؟وزیردفاع یا وزیرِ داخلہ؟ جنہیں جگت بازی سے فرصت نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا بیان: اسرائیل کے کنیسٹ میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے آٹھ مسلم ممالک کے امن کے دعوئوں کے پرخچے اُڑا دیے۔ بولے: ہمارے پاس ایسے ہتھیار ہیں جن کے نام میں بھی نہیں جانتا۔ نیتن یاہو نے وہ ہتھیار مانگے۔ ہم نے اُسے ہتھیار دیے۔ جواسرائیل نے غزہ پر استعمال کیے۔ آج جوفیصلہ کن فتح اسرائیل کو ملی ہے وہ انہی ہتھیاروں کے استعمال سے ممکن ہوئی۔
پاک افغان جنگ دہشت گردی کنٹرول یا ختم کرنے میں تب مددگار بن سکتی ہے جب عبوری افغان حکومت اور پاکستان کے حکمران جنگ کو وڈیو گیم نہ سمجھیں!! عمران خان نے کہا جنگ بندی کرو‘ وہ غدار ٹھہرا۔ قطر کی میزبانی میں جنگ بندی سر آنکھوں پہ۔
خاطرِ جاں کے قرینے تو کہاں آئیں گے؟
صرف یہ ہوگا کہ احباب بچھڑ جائیں گے
گھر جو اُجڑے تو سنورتے نہیں دیکھے اب تک
ایسے ناسُور تو بھرتے نہیں دیکھے اب تک

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں