ایک عہد کا انسان دوسرے عہد کے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر عہد کے انسان کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، اپنے نظریات ہوتے ہیں۔ ہم انفوٹیک اور بائیوٹیک عہد کے لوگ ہیں۔ ہمارے چیلنجز کیا ہیں؟ ہمار ے نظریات کیا ہیں؟
شکار کے دور کے انسان کا اپنا رہن سہن تھا۔ اپنے انداز و اطوار تھے، اور اپنے نظریات تھے۔ اس سماج کو انسانی معاشرے کی تحقیق و ترقی کا علم رکھنے والے لوگ یعنی ماہر عمرانیات نسبتاً غیر طبقاتی سماج قرار دیتے ہیں۔ زرعی انقلاب کے بعد کے انسان کے لیے شکار کے دور کے انسان کا رہن سہن قابل تقلید نہیں رہا تھا۔ اس کے غیر طبقاتی نظریات اپنانا بھی اس کے لیے ممکن نہ تھا کہ سماج میں طبقاتی تقسیم آ چکی تھی‘ اور نظریات طبقات کے مفادات کا اظہار ہوتے ہیں۔ صنعتی دور میں جاگیرداری دور کے نظریات ماضی کا قصہ بن گئے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا ہوا ہم تک پہنچا۔ ہم لوگ انفوٹیک اور بائیوٹیک دور کے لوگ ہیں۔ اس انفوٹیک اور بائیو ٹیک دور میں قدیم صنعتی دور کے نظریات کے تحت زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ یہ دور نئی سوچ، نئے نظریات اور نئے کلچر کو جنم دے رہا ہے۔
میں نے کہیں انہی سطور میں پروفیسر حریری کی کتاب 'اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق‘ کا ذکر کیا تھا۔ اسی کتاب میں حریری انفو ٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب کے امکانات اور اثرات پر لکھتے ہیں کہ لبرل ازم کا سیاسی اور معاشی نظام صنعتی دور کی ابتدا میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام کا مقصد بھاپ کے انجن، تیل کی ریفائنری اور ٹیلی ویژن جیسی سیدھی سادی چیزوں کا انتظام کرنا تھا۔ یہ ایک سیدھے سادے دور کا نظام ہے؛ چنانچہ اس نظام کو اس بڑے اور پیچیدہ انقلاب کا سامنا کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے، جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بائیو ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی وجہ سے آیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کو کسی ضابطے کا پابند کرنا تو دور بات ہے، اس وقت سیاست دان اور رائے دہندگان دونوں ہی اس نئی ٹیکنالوجی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
انیس سو نوے کی دہائی سے انٹر نیٹ اور سائبر سپیس کی دنیا میں شروع ہونے والا انقلاب بہت آگے تک جا چکا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس انقلاب کی قیادت سیاسی رہنمائوں کے بجائے سائنس دانوں اور انجینئرز نے کی۔ اس لیے جمہوری نظام کو ابھی تک اس کی کوئی خاص سدھ بدھ نہیں ہے۔ جمہوری نظام ابھی تک یہ سمجھنے کی تگ و دو میں ہے کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟
مالیاتی نظام کو ہی لیجیے۔ آج کمپیوٹر مالیاتی نظام کو اتنا پیچیدہ بنا چکا ہے کہ عام آدمی کے لیے اسے سمجھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے‘ اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ سارا شعبہ ہی خود کار کمپیوٹر نظام کے سپرد ہو سکتا ہے، اور ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ سکتے ہیں، جہاں کوئی انسان مالیاتی نظام کو نہیں سمجھ سکے گا۔ اس سے ہمارے سیاسی و معاشی نظام اور بندوبست پر کیا فرق پڑے گا؟ حکومتیں بجٹ اجلاسوں اور بجٹ پر بحث مباحثے کے بجائے بے بسی سے کمپیوٹر الگورتھم کا انتظار کرے گی کہ یہ مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لا کر ہمارے لیے بجٹ منظور کرے، اور دیگر بڑے مالیاتی فیصلے کرے۔
ہمیں انفوٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب کا سامنا ہے۔ انفوٹیک اور بائیو ٹیک کا یہ جڑواں انقلاب نہ صرف سماجی اور معاشی نظام کو نئے سرے سے تشکیل دے سکتا ہے، بلکہ یہ ہمارے جسم و ذہن کی تشکیل نو بھی کر سکتا ہے۔ ہم انسانوں نے اپنے سے باہر کی دنیا کو کنٹرول کرنا تو سیکھ لیا، مگر ہمارا خود اپنے اندر کی دنیا پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈیم کیسے بنایا جاتا ہے۔ دریا کو کیسے بہنے سے روکا جا سکتا ہے، مگر ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اپنے اندر عمر رسیدگی کے عمل کو کیسے روکا جا سکتا ہے، بڑھاپے سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
اس لیے یہ اچھی خبر ہے کہ انفوٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب ہمیں اپنی اندر کی دنیا پر کنٹرول دے گا‘ اور ہمیں اپنی زندگی خود تعمیر کرنے کے قابل بنائے گا۔ ہم اس انقلاب سے یہ سیکھیں گے کہ دماغ کیسے ڈیزائن کیا جا سکتا ہے، زندگی کیسے بچائی جا سکتی ہے۔ عمر کیسے لمبی ہو سکتی ہے۔ مگر اس سارے عمل کے نتائج کیا ہوں گے؟ اس بات سے کوئی بھی آگاہ نہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ انسان نے ہر دور میں اسی طرح بڑی عقل مندی سے انتہائی پیچیدہ اور مہلک ہتھیار بنائے، مگر ان ہتھیاروں کا استعمال اس عقل مندی اور دانش مندی سے نہیں کیا۔ ان ہتھیاروں کے غیر دانش مندانہ استعمال سے دنیا میں تباہی اور بربادی کی کئی داستانیں موجود ہیں۔ ایسا انفوٹیک اور بائیوٹیک کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، اسے تباہی و بربادی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں ہم نے دنیا کو حسب منشا چلانا سیکھا، اور اپنے گرد و پیش کی دنیا کی تشکیل نو کی‘ مگر چونکہ ہم عالمی ماحولیات کے نظام کو نہیں سمجھ سکے‘اس لئے جو کچھ ہم نے کیا‘ اس سے پورا ماحولیاتی نظام متاثر ہوا۔ اور آج ہم بیٹھ کر ماحولیاتی تباہی کا ماتم کر رہے ہیں‘ اور ہمیں اس وقت سارے ماحولیاتی نظام کے ڈھیر ہو جانے کا خطرہ لاحق ہے۔
بائیو ٹیک اور انفو ٹیک میں انقلاب انجینئرز، سائنس دانوں اور کاروباری لوگوں نے شروع کیے ہیں۔ یہ لوگ اپنے فیصلوں کے سیاسی اثرات سے نا واقف ہیں‘ اور وہ یقینا عوام کے نمائندے نہیں ہیں، اور نہ ہی عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اس انقلاب کو عوام کے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے کیا پارلیمنٹیرینز اور سیاسی جماعتیں معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہیں۔ فی الوقت ایسا نہیں لگتا۔ ابھی تک یہ سوال سیاسی ایجنڈے پر موجود ہی نہیں ہے۔
دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے رائے دہندگان کو خبردار کیا تھا کہ میکسیکو کے غریب تارکین وطن ان کا روزگار چرا لیں گے، اس لیے سرحدوں پر دیوار بنانے کی ضرورت ہے‘ مگر اس نے رائے دہندگان کو یہ نہیں بتایا کہ مصنوعی ذہانت ان کے روزگار کے لیے اصل اور سب سے بڑا خطرہ ہے۔
ایسی ہی وجوہات کی بنا پر رائے دہندگان کا 'لبرل کی کہانی‘ اور یہاں تک کے لبرل جمہوریت سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ عام آدمی مصنوعی ذہانت اور بائیو ٹیکنالوجی کو بے شک نہ سمجھتا ہو، لیکن اس کو اتنا ضرور پتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے طفیل مستقبل اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
آج عام آدمی اپنے آپ کو غیر متعلق اور بے سود سمجھتا ہے۔ اس کے ارد گرد کئی پُراسرار الفاظ گردش کرتے ہیں۔ گلوبلائزیشن، بلاک چین، جنیٹک انجینئرنگ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، مشین لرننگ وغیرہ، اور عام آدمی کو شک پڑتا ہے کہ ان میں سے کسی لفظ کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بیسویں صدی میں عوام نے استحصال کے خلاف بغاوت کی۔ مگر شاید اکیسویں صدی میں عوامی انقلاب اس روایتی معاشی اشرافیہ کے خلاف نہیں آئے گا، جو ان کا استحصال کرتی رہی ہے، بلکہ ان کے خلاف آئے گا جن کے طفیل وہ بے روزگار، بے کار ہوںگے، اور جن کو انفوٹیک اور بائیو ٹیک انقلاب کے طفیل عام آدمی کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔ یہ ایسی جنگ ہو گی جو استحصال کے خلاف جنگ سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہمارے دور کا انفوٹیک اور بائیوٹیک انقلاب تاریخی طور پر موجود روایتی طبقاتی جدوجہد کی شکل بدل کر رکھ دے گا۔ تاریخ میں عام طور پر عوام کی جدوجہد اشرافیہ کے ان بالا دست طبقات کے خلاف رہی ہے، جو ان کا معاشی استحصال کرتے تھے‘ مگر اب اس جنگ کا رخ ان لوگوں کے خلاف بھی ہو گا جو نئی ٹیکنالوجی کو بروے کار لا کر لاکھوں اور کروڑوں لوگوں سے ان کا روزگار چھین لیں گے۔
دنیا اس وقت انفوٹیک اور بائیوٹیک انقلاب کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں بے روزگاروں کا سامنا کرنے اور ان کو روزگار کے متبادل ذرائع مہیا کرنے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ عین اس وقت پاکستان میں لاکھوں نئے روزگار پیدا کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ روزگار کے یہ مواقع انفوٹیک اور بائیوٹیک انقلاب کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تو پیدا نہیں ہوں گے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہمارا رشتہ اور رویہ کیا ہو گا؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔