ویزا پالیسی میں تبدیلی اچھی خبر ہے‘ مگر اس سے جڑی توقعات غیر حقیقی ہیں۔ پاکستان کی سیاحت کی راہ میں ویزا کئی رکاوٹوں میں سے محض ایک چھوٹی سی رکاوٹ ہے۔ جب تک بڑی رکاوٹیں دور نہ ہو جائیں، صرف ویزا آسان کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اس روئے ارض پر کچھ ممالک ایسے ہیں، جن میں دنیا کے بیشتر ممالک کے شہریوں کو بغیر ویزا داخلے کی اجازت ہے، مگر وہاں کوئی بطور سیاح نہیں جاتا۔
سیاحت سے کئی ممالک بہت زیادہ معاشی فائدے اٹھاتے ہیں‘ مگر بنیادی طور پر سیاحت محض ایک معاشی سرگرمی نہیں۔ سیاحت کا تعلق تاریخ، کلچر، آرکیٹیکٹ، آرٹ اور آزادی سے ہے، اور اس کے ساتھ معاشی فوائد بھی جڑے ہیں۔
دنیا بھر میں دوسرے ممالک میں سیاحت کے لیے جانے والوں کی اکثریت کا تعلق ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے ملکوں میں مصروف زندگی گزارتے ہیں۔ وہ ہر سال مشکل سے دو چار ہفتے نکال کر کسی دوسرے ملک میں سیر و سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔ یہ ان کا یادگار وقت ہوتا ہے۔ وہ یہ وقت گزارنے کے لیے باقاعدہ ریسرچ کرتے ہیں۔ دوست احباب سے مشورہ کرتے ہیں، گوگل ریویو پڑھتے ہیں، اور بڑے غوروفکر اور عرق ریزی کے بعد اپنی منزل کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس فیصلہ سازی میں انہوں نے کئی عناصر اور عوامل ملحوظ خاطر رکھنے ہوتے ہیں۔ جیسے‘ کسی ملک میں سیفٹی اور سکیورٹی کی کیا پوزیشن ہے۔ صفائی ستھرائی اور صحت عامہ کا کیا معیار ہے۔ ٹورازم کے لیے کیا انفراسٹرکچر ہے۔ کیسی سہولیات ہیں۔ کھانے اور رہائش کا کیا معیار اور قیمت ہے۔ اور ویزا شاید آخری چیز ہے، جس کے بارے میں سیاح کو فکر مند ہونا ہوتا ہے۔
حکومت نے سیاحت کی طرف پہلے قدم کے طور پر ویزا پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا ہے، اور ساتھ ہی اس امید کا اظہار بھی کہ پاکستان ایک مقبول سیاحتی منزل بن جائے گا۔ سیاح کسی ملک میں کیوں جاتے ہیں؟ یہ کوئی راز نہیں، جس سے پردہ اٹھایا جائے۔ اس موضوع پر دنیا بھر کے اعداد و شمار موجود ہیں۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ سیاح فرانس میں جاتے ہیں۔ کیوں؟ فرانس میں ایفل ٹاور ہے۔ وارسیلز ہے۔ پیرس آبادی کے اعتبار سے یورپ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کا ہر بچہ اپنے سکول میں ایفل ٹاور کے بارے میں پڑھتا ہے‘ تصاویر دیکھتا ہے۔ فرانس، فرانسیسی لوگوں، کلچر اور زبان کے بارے میں پڑھتا ہے۔ لوگ فرانس کے ساحلِ سمندر اور اس میں دی گئی سہولیات کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ یہاں کی نائٹ لائف کے بارے میں جانتے ہیں۔ یہاں کے طرز طباخی کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ یہاں کی آزادیوں اور احساس تحفظ کے بارے میں جانکاری رکھتے ہیں۔ یہاں پر چھبیس سے زیادہ ایسے مقامات ہیں، جن کو یونیسکو کی طرف سے ورلڈ ہیریٹیج قرار دیا گیا ہے۔ پارک اور باغات ہیں۔ اس کے ارد گرد ترقی یافتہ یورپ ہے، جس کے بیشتر شہری سال میں ایک آدھ ہفتے کی چھٹی منانے کے لیے جا سکتے ہیں۔ پیرس میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد خود فرانسیسیوں کی بھی ہوتی ہے، جو دوسرے شہروں اور قصبوں سے آتے ہیں۔ یہ خوشحال لوگ ہیں، جو پیرس جیسے مہنگے شہر کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہاں کی آزادیوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ یہ اس جانکاری اور شہرت کا نتیجہ ہے کہ ہر سال اسّی ملین سے زائد لوگ فرانس جاتے ہیں۔
یورپ میں فرانس کے بعد سپین سیاحوں کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ سپین میں زیادہ تر سیاح اس کے پڑوسی یورپی ممالک یعنی فرانس، جرمنی، اٹلی اور انگلینڈ وغیرہ سے آتے ہیں۔ سپین میں ہر موسم میں سیاحوں کے لیے اعلیٰ معیار کی سہولیات میسر ہیں۔ بارسلونا اور میڈرڈ جیسے تاریخی شہر ہیں۔ سپین کے تیرہ شہروں کو یونیسکو نے عالمی تاریخی ورثے میں شامل کیا ہوا ہے۔ یہاں کی نائٹ لائف بھی سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ یہاں پر سب کے لیے کچھ نہ کچھ ہے، اور ہر کسی کو اپنے طرز فکر اور طرز زندگی کے مطابق ماحول میسر آتا ہے۔
تیسرے نمبر پر امریکہ ہے۔ اس میں نیو یارک، لاس اینجلس اور لاس ویگاس جیسے شہر ہیں۔ ییلو سٹون پارک ہے۔ نیاگرا فال اور الاسکا ہے، ہر سال پچھتر ملین لوگ اس ملک میں آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ اس کے پڑوسی ممالک یعنی کینیڈا اور میکسیکو سے آتے ہیں۔ اور ایک قابل ذکر تعداد خود امریکیوں کی ہوتی ہے، جو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں بطور سیاح جاتے ہیں۔
دنیا میں اٹلی بھی ایک پُر کشش سیاحتی مرکز ہے۔ یہاں تقریباً تیس کے قریب تاریخی ورثے ہیں۔ قدیم آرٹ کے بے شمار نمونے ہیں۔ قدیم رومن ایمپائر اور نشاۃ ثانیہ کی کئی نشانیاں ہیں۔ اس کے شمال میں خوبصورت پہاڑی گائوں اور جنوب میں ساحل سمندر ہے۔ روم ایک پرانا شہر ہے۔ تاریخ و ثقافت ہے۔ آزادیاں اور رواداری ہے۔ نائٹ لائف ہے۔
یہ تو تھا ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک کا قصہ۔ ترقی پذیر ممالک میں میکسیکو اور تھائی لینڈ سیاحوں کی کشش کے مقامات ہیں۔ میکسیکو میں تاریخی ہیریٹیج بہت ہے۔ یہاں کے ساحلی علاقے اور ریزاٹ مقبول ہیں۔ میکسیکو میں بھی زیادہ تر سیاح اس کے پڑوسی ممالک یعنی امریکہ اور کینیڈا سے ہی آتے ہیں۔
تھائی لینڈ اپنی چمکتی دھوپ اور ریتیلے ساحل سمندر یعنی بیچ کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ اپنے آثار قدیمہ، بدھ مت کے تاریخی مندروں اور گرجا گھروں کی وجہ سے ایک پُر کشش جگہ ہے۔ اس کی نائٹ لائف کا بڑا چرچا ہے۔ یہ شاپنگ سنٹرز اور طباخی کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو ہزار بیس تک یہاں سیاحوں کی تعداد سو ملین سالانہ تک پہنچ جائے گی۔
دنیا کے ان سیاحتی مراکز میں قدرِ مشترک کیا ہے؟ لوگ ان ممالک میں کیوں جاتے ہیں؟ کچھ لوگ اس کا پہلا عنصر سیفٹی قرار دیتے ہیں؛ تاہم اگر دنیا کے دس محفوظ ترین ممالک کی فہرست بنائی جائے تو ان میں سے ایک ملک بھی سیاحت والے ملکوں کی فہرست میں پہلے دس نمبروں میں نہیں آئے گا۔ کسی ملک میں جانے سے پہلے سیاح یہ ضرور دیکھتا ہے کہ کیا وہ ملک محفوظ ہے، مگر کوئی سیاح کسی ملک کا انتخاب محض اس لیے نہیں کرتا کہ وہ محفوظ ہے۔ ان ممالک میں تین چیزیں مشترک ہیں۔
ساحل سمندر پر بنے ہوئے بیچ جہاں لوگ چمکتی دھوپ، ریت اور پانی کا لطف اٹھانے کے لیے اپنے آپ کو آزاد، محفوظ اور بے فکر خیال کریں۔
دوسری اہم چیز تاریخی عمارات، آرٹ اور کلچر‘ ہے۔ پرانی تاریخی عمارتیں آثار قدیمہ سیاح کی دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔ اس میں مذہبی و مقدس مقامات جیسے تاریخی مساجد، مندر، گرجے وغیرہ شامل ہیں، جو بڑے پیمانے پر مذہبی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
ایک اہم ترین کشش نائٹ لائف ہے۔ نائٹ لائف میں ہوٹلز، ریسٹورنٹس، نائٹ کلب، کیوزین، موسیقی اور ڈانس وغیرہ شامل ہیں۔
تیسرا عنصر سب پر بھاری ہے۔ ہر ملک میں سیاحت کا سب سے بڑا ذریعہ اس کا پڑوسی ملک ہے۔ یہاں دیگر ممالک کی کہانی سنانے کا مقصد بھی یہ واضح کرنا ہے کہ سیاح کو کیا چیز اپنے طرف کھینچتی ہے۔ امریکہ میں بیشتر ٹورسٹ اس کے پڑوسی ممالک میکسیکو اور کینیڈا سے آتے ہیں۔ میکسیکو میں بیشتر سیاح اس کے پڑوسی ملک امریکہ اور کینیڈا سے آتے ہیں۔ سپین میں سیاحوں کی بڑی تعداد اس کے پڑوسی یورپی ممالک سے آتی ہے؛ چنانچہ کوئی بھی ملک اس وقت ایک مقبول سیاحتی مرکز بننا شروع ہوتا ہے، جب اس کے پڑوسی ممالک اس کی سیاحت شروع کرتے ہیں‘ کیونکہ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے ان کا وقت اور پیسہ بچتا ہے۔
پاکستان میں اگر سب سے زیادہ سیاح کہیں سے آ سکتے ہیں، تو وہ چین اور بھارت ہیں۔ دونوں ملکوں میں بہت بڑی مڈل کلاس ہے۔ بھارتی لوگوں کے لیے ایک بڑی کشش یہاں کی زبان، کھانا پینا اور مذہبی عبادت گاہیں ہیں۔ چینیوں کے لیے آثار قدیمہ، ٹیکسلا اور موہنجو داڑو جیسے مقامات ہیں۔ مگر اس کے لیے ملک میں ایک آزاد، روادار اور محفوظ ماحول‘ آلودگی سے پاک ہوا اور صاف پانی بنیادی شرائط ہیں۔ دوسروں کے معاملات میں مداخلت اور ڈنڈے کے زور پر جنت میں لے جانے کے رجحانات پر قابو پانا لازم ہے۔ قانون کی حکمرانی قائم کرنا ضروری ہے، تاکہ سیاح کے لیے ایک محفوظ اور دوستانہ ماحول پیدا ہو سکے، جہاں وہ بلا فکر و پریشانی زندگی کے پُر سکون لمحات گزارنے کے قابل ہوں۔