"FBC" (space) message & send to 7575

مخبوط الحواس شخص یا دہشت گرد؟

دہشت گردی کیا ہے؟ دہشت گردی کیا نہیں ہے؟ یہ ایک پرانا سوال ہے، جس کے کئی جوابات ہیں۔ یہ سوال بیک وقت سیاسیات، عمرانیات، فلسفے اور علمِ جُرمیات کا سوال ہے۔ ایک مخصوص واقعہ دہشت گردی ہے یا قتل عام ؟ اس سوال پر نظری بحث کرتے ہوئے مذکورہ بالا سارے علوم بروئے کار آتے ہیں۔ یہ بحث علمی و تدریسی دنیا میں ہوتی رہتی ہے۔ سیاسی اور دانشورانہ سطح پر بھی اس پر گفتگو جاری رہتی ہے۔
جب عملی طور پر کوئی واقعہ رونما ہو جاتا ہے، تو اس کی نوعیت کا تعین ایک قانونی سوال بن جاتا ہے۔ بنیادی طور پر اس فعل کو کس زمرے میں آنا چاہیے ؟ یہ طے کرنا بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بن جاتی ہے؛ چنانچہ کسی بھی ملک میں اس ملک کے مرتب شدہ قانون میں متعین تعریف کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے اور تفتیشی ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ وہ فعل کس زمرے میں آتا ہے۔ اس امر کے تعین کے بعد ملزم پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔
اصل سوال مگر یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرتا ہے کہ کوئی واقعہ دہشت گردی ہے یا قتل عام۔ اور فیصلہ ساز یہ فیصلہ کرتے ہوئے کیا کسوٹی استعمال کرتے ہیں، اور کیا معیار اختیار کرتے ہیں۔ ان سب روایات اور مباحث کے باوجود نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد یہ سوال ایک بار پھر روایتی اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر زیر بحث ہے۔ 
نیو زی لینڈ کے واقعے پر مغرب میں ذرائع ابلاغ اس موضوع پر تقسیم ہیں۔ اس واقعے کو کہیں دہشت گردی اور کہیں قتل عام یا ماس شوٹنگ کا نام دیا گیا۔ یہ تقسیم کیوں ہے؟ دہشت گردی کے واقعے کو کچھ مخصوص حالات میں بعض مغربی ذرائع ابلاغ قتل عام کہنے پر کیوں بضد ہیں ؟ اس طرز عمل پر ہمارے ہاں کچھ لوگ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، اور ان کے خیال میں اس عمل کے پس منظر میں مغرب کا بغض اور جانبداری کار فرما ہے۔ یہ احساسات یا تاثرات بلا وجہ نہیں، بلکہ ان کے پیچھے کچھ حقائق بھی ہیں۔ مغرب اور مغربی ذرائع ابلاغ میں بہت حد تک یکسانیت اور ہم آہنگی ہے۔ پھر بھی مغرب میں گاہے ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک ادارے سے دوسرے ادارے تک کی پالیسی اور پریکٹس میں تھوڑا بہت فرق ضرور ہے۔ نیوزی لینڈ کے واقعے پر امریکی صدر اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے رد عمل میں بہت واضح فرق اس صورت حال کا عکاس ہے۔
ڈیوڈ ریپوپورٹ ایک مشہور امریکی پروفیسر ہے، جس نے امریکہ میں دہشت گردی پر پہلا کورس پڑھانا شروع کیا تھا۔ وہ دہشت گردی پر کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ وہ دہشت گردی اور سیاسی تشدد نامی جرنل کا ایڈیٹر بھی ہے۔ 
پروفیسر نے سال انیس سو اکہتر میں، دہشت گردی یا قتل کے موضوع پر ایک کتاب چھاپی تھی۔ یہ کتاب اس کے لیکچرز کا مجموعہ تھی۔ اس وقت تک یہ اصطلاحیں اتنی متنازعہ نہیں ہوئی تھیں۔ دہشت گردی کو کسی مذہب یا علاقے سے نہیں جوڑا جاتا تھا۔ اس کتاب میں اس نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیا کہ دہشت گردی اور قتل میں کیا فرق ہے؟ 
ماس شوٹنگ یا قتل عام پر بھی اسی اصول کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں قانونی لٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ قاتل کا کسی مذہبی یا سیاسی نظریے سے ترغیب پانا یا انسپائر ہونا ضروری ہے۔ اکتوبر دو ہزار سترہ کی لاس ویگاس ماس شوٹنگ اپنے وقت میں امریکی تاریخ کی بہت بڑی ماس کلنگ تھی۔ یہ اتنا بڑا پُر تشدد واقعہ اس لیے دہشت گردی نہ قرار دیا جا سکا کہ خونی کے پاس کوئی سیاسی، مذہبی یا نظریاتی بنیاد یا ترغیب نہیں تھی۔ اس خونیں واقعے میں اٹھاون لوگ مار دئیے گئے تھے، مگر لاس ویگاس کے شیرف جوزف لمبارڈو نے اسے قتل عام قرار دے دیا تھا۔ اور ذرائع ابلاغ نے بھی تھوڑی سی چون و چرا کے بعد اس کو تسلیم کر لیا تھا۔ اور دہشت گرد کی جگہ قاتل کے لیے تنہا بھیڑیا، مخبوط الحواس یا پریشان خیال شخص کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ 
لاس ویگاس کے اس واقعے سے صرف چوبیس گھنٹے قبل کینیڈا کے ایک شہر ایڈمنٹن میں ایک شخص نے اپنی گاڑی سے ایک پولیس آفیسر کو ٹکر ماری اور پھر اس پر چاقو سے حملہ کیا۔ جائے واردات سے فرار ہوتے ہوئے اس نے چار دیگر لوگوں کو ہلاک کیا۔ بغیر کوئی دیر کیے کینیڈا کے وزیر اعظم سمیت میڈیا نے اسے فوراً دہشت گردی کا فعل قرار دیا۔ عام میڈیا کے لیے ان دونوں واقعات میں بنیادی فرق یہ تھا کہ لاس ویگاس کے واقعے میں ایک سفید فام شخص ملوث تھا، جبکہ ایڈمنٹن کے واقعے میں ملوث شخص ایک سیاہ فام صومالی ریفیوجی تھا، جس کی گاڑی سے ایک تنظیم کا پرچم ملا تھا؛ چنانچہ اگر ایک واقعے میں کوئی مسلمان، سیاہ فام یا برائون شخص ملوث ہے تو کچھ ذرائع ابلاغ اور بعض سیاست دانوں کا عام رویہ یہ ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے، جبکہ ایک سفید فام کی صورت میں اس بات کے امکانات ہوتے ہیں کہ اس کو تنہا بھیڑیا یا مخبوط الحواس شخص قرار دے دیا جائے۔ 
کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن مغرب کا ایک معتبر نشریاتی ادارہ ہے۔ اس ادارے کی اپنے صحافیوں کے لیے واضح گائید لائن ہے۔ اس گائیڈ لائن میں صحافیوں سے کہا جاتا ہے کسی خاص واقعے کو دہشت گردی یا واقعے میں ملوث شخص کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ خود مت کریں۔ اس کے بجائے واقعے کو‘ جیسا کہ وہ ہے‘ بیان کر دیں، اور دیکھنے ، سننے یا پڑھنے والوں کو خود یہ فیصلہ کرنے دیں کہ وہ اس واقعے کو دہشت گردی سمجھیں یا قتل عام۔ اس واضح ہدایت نامے کی موجود گی میں کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو متعصب یا جانبدار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ مگر اس واضح ہدایت کے باوجود اس ادارے سے منسلک کچھ صحافی بغیر سوچے سمجھے بسا اوقات کسی مسلمان کو تو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں، جبکہ غیر مسلم کے معاملے میں اس قدر تیزی نہیں دکھاتے، جس سے جانبداری اور تعصب کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ 
کون دہشت گرد ہے، اور کون نہیں ؟ امریکی تحقیقاتی ادارہ یعنی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن اس باب میں فیڈرل ریگولیشن کوڈ سے استفادہ کرتی ہے۔ اس کوڈ کے مطابق دہشت گردی کی تعریف کچھ یوں ہے: سیاسی یا سماجی مقاصد کی خاطر کسی شخص یا جائیداد کے خلاف طاقت یا تشدد کا غیر قانونی استعمال‘ جس کا مقصد حکومت کو ڈرانا یا خوف زدہ کرنا یا آبادی کے کسی حصے کو ڈرانا ہو‘ وہ دہشت گردی ہے۔ یہ تعریف امریکی ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے ریکارڈ میں بھی درج ہے۔ بظاہر یہ تعریف مقصد پورا کرتی ہے۔ یعنی ایک خونیں یا ماس شوٹر بغیر کسی سیاسی یا مذہبی مقصد کے قتل عام کرے گا‘ جبکہ ایک دہشت گرد کے پاس اپنے عمل کی کوئی مذہبی یا سیاسی وجہ ہو گی۔ مگر کچھ معاملات میں یہ دونوں افعال آپس میں گڈ مڈ بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کو الگ کرنے کے لیے باریک قانونی نکات کو واضح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہر کیس کو الگ الگ اور انفرادی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 
نیوزی لینڈ کا واقعہ مشرق و مغرب کے درمیان کوئی میچ یا مقابلہ نہیں ہے۔ یہ دہشت گردی کی سنگین واردات ہے۔ اس کا کسی خاص نسل یا مذہب سے تعلق نہیں ہے۔ کچھ لوگ مغرب پر جانبداری کا الزام محض یہ ثابت کرنے کے لیے لگا رہے ہیں کہ ہم تو برے ہیں ہی، مگر تم ہم سے بھی بد تر ہو۔ یہ غلط رجحان ہے، جس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں برآمد ہو سکتا۔ جس طرح چند سو یا چند ہزار بنیاد پرست مسلمان اسلام کے نمائندہ نہیں ہیں۔ وہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کا حق نہیں رکھتے۔ اسی طرح مغرب میں بھی دائیں بازو کے تنگ نظر قوم پرست، فاشسٹ اور شدت پسند مغرب کے نمائندہ افراد نہیں ہیں۔ ان چند لوگوں کی وجہ سے پورے مغرب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو لوگ مغرب کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے ہیں، وہ کسی ایسے موقعے کی تاک میں رہتے ہیں تاکہ اس کی بنیاد پر وہ نفرت کے زہریلے تیر چلا سکیں‘ اور دنیا میں بڑھتی ہوئی نفرت اور وحشت کا دائرہ وسیع کر سکیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں