ایک عظیم تہذیب کو اس وقت تک باہر سے نہیں تباہ کیا جا سکتا جب تک یہ خود اپنے آپ کو اندر سے تباہ نہ کرے۔ روسی نژاد امریکی لکھاری ایریل ڈورنٹ نے اس ایک فقرے میں قوموں کے عروج و زوال کی پوری داستان سمو دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے یہ بات صرف روم کی عظیم سلطنت کی تباہی کے اسباب بیان کرتے ہوئے ہی کہی ہو، مگر اس بات میں پوشیدہ دانش کا اطلاق صرف قدیم سلطنتوں پر ہی نہیں، جدید دور کی ریاستوں اور قوموں پر بھی ہوتا ہے۔
قدیم رومن سلطنت کی تباہی اور زوال دنیا بھر کے دانشوروں، تاریخ دانوں اور سیاست کاروں کی دلچسپی اور مباحث کا اہم ترین موضوع رہا ہے۔ کئی صدیاں اس پر بحث مباحثوں کے بعد دنیا اب اس سلطنت کے زوال کے کچھ اسباب پر متفق ہے۔ دنیا بھر میں پرائمری سکول کے بچوں سے لے کر پی ایچ ڈی تک سب کو اس سلطنت کے زوال کے ایک ہی قسم کے اسباب بتائے جاتے ہیں۔ اس عظیم سلطنت کے زوال کے کئی اسباب ہیں، مگر مجموعی طور پرآٹھ دس وجوہات ایسی ہیں، جن کو مختلف ملکوں اور قوموں کے حالات کے مطابق مختلف الفاظ میں پڑھایا یا بیان کیا جاتا ہے؛ چنانچہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ ہر قوم قدیم دور کی عظیم رومن سلطنت کے زوال سے وہ سبق سیکھنے کی کوشش کرتی ہے، جو قوموں اور ملکوں کے بقا کے لئے ضروری ہے۔
مگر ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ دیگر کچھ مسائل کی طرح ہمارے ہاں اس پر بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں رومن سلطنت کے زوال کے اسباب کے کئی بیانیے موجود ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہمارے تاریخ کے استاد کو اگر کسی طالب علم کی کوئی بات یا حرکت پسند نہ آتی تو وہ سزا کے طور پر اس طالب علم سے تاریخ کا کوئی مشکل ترین سوال پوچھتے تھے۔ اس سے اس طالب علم کی سبکی بھی ہو جاتی، اور تاریخ سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی آگے بڑھتا رہتا۔ اس استاد کا اس طرح کا ایک پسندیدہ سوال رومن سلطنت کے زوال کے اسباب بھی ہوتا تھا۔ یہ ایک ایسا سوال تھا، جس کے درجنوں جوابات ہوتے تھے، اور ہر جواب کو کسی نہ کسی طریقے سے، اگر ضرورت پڑے تو غلط قرار دیا جا سکتا تھا۔
ہمارے ہاں معاشرے کا ایک غالب حصہ تعلیمی اداروں سے نہیں سیکھتا۔ خصوصاً پچھلی نسل کے بیشتر لوگوں کو کسی تعلیمی ادارے میں قدم رکھنا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بچے سکول نہیں جا سکتے۔ اور جو جاتے بھی ہیں ان کی ایک بڑی تعداد پرائمری یا ہائی سکول سے ہی ڈراپ آئوٹ ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سماج کے روایتی ذرائع سے سیکھتی ہے۔ روایتی ذرائع میں والدین سے لے کر دوست احباب اور دیگر سماجی محفلیں تک شامل ہوتی ہیں۔ ان ذرائع میں ایک بڑا ذریعہ مساجد اور مدارس بھی ہیں۔ نماز جمعہ، عیدین اور دوسرے خاص مواقع پر تقریباً ہر شخص مسجد میں ضرور جاتا ہے، جہاں وہ خطبہ و خطاب سننا ہے؛ چنانچہ کسی موضوع پر کسی مسجد کے خطیب کے علم کی سطح کیا ہے؟ اس کا کسی خاص مسئلے پر بیانیہ کیا ہے؟ یہ بہت اہم ہے۔ مساجد کے خطیب اسلام یا تاریخ اسلام کے بارے میں علم ضرور رکھتے ہوں گے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سلطنتِ روم کے عروج و زوال کے اسباب بھی بیان کرنا شروع کر دیں۔ مگر اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوتا تھا۔ دوسرے معاملات پر زیادہ طبع آزمائی کی جاتی ہے۔
یہ صرف منبر و محراب کی بات ہی نہیں بلکہ تقریباً ہر سماجی فورم اور ابلاغ کے ہر ذرائع پر یہی کیفیت ہے۔ اخباری کالم، سوشل میڈیا سے لے کر ٹیلی ویژن تک بغیر کسی مستند حوالے کے سنی سنائی کہانیاں بیان کر دی جاتی ہیں۔ تاریخی واقعات پر ایسے قصے کہانیاں بیان کی جاتی ہیں، جن کی اکثر صحت مشکوک ہوتی ہے۔ خالصتاً تاریخی، علمی معاملات کو بیان کرنے کے لیے خاص قسم کی تربیت، عرق ریزی کے علاوہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر ایسا عام طور پر ہوتا نہیں؛ چنانچہ سنی سنائی باتوں اور تعصبات کے زیر اثر جو تاریخی واقعات بیان کیے جاتے ہیں یا ان کی تعبیر کی جاتی ہے، ان سے سامعین میں کنفیوژن پھیلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلم ممالک میں خطبات کا متن سرکاری طور پر پہلے سے طے کیا جاتا ہے۔ یہ بڑا نازک معاملہ ہے، چونکہ منبر اور محراب کو ہمارے سماج میں خاصا تقدس حاصل ہے۔ بعض اوقات بیان کیے گئے فرضی قصے بھی قبولیتِ عام حاصل کر لیتے ہیں۔
فرضی قصوں‘ کہانیوں کی روشنی میں ایک بیانیہ یہ ہے کہ سلطنت روم کے زوال کے اسباب نہیں، بلکہ صرف ایک ہی سبب تھا۔ اور وہ سبب تھا حکمرانوں کی بے راہ روی اور سماج کا بحیثیت مجموعی گمراہی کے راستے پر چل نکلنا۔ گمراہی کے راستے پر چلتے ہوئے رومن مذہب سے بہت دور ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے ان کی سلطنت زوال اور تباہی کا شکار ہو گئی۔ رومن لوگوں کی گمراہی پر کوئی کلام نہیں، مگر صرف ان کی گمراہی پر اتنا زور ان حقیقی معاشی و سماجی وجوہات سے صرف نظر کا باعث بنتا ہے، جو درحقیقت اس قدیم سلطنت کی تباہی کا باعث بنے۔
رومن سلطنت کے زوال کا تعلق عیسائیت کے سرکاری مذہب کی حیثیت اختیار کرنے سے ہے۔ تاریخ دانوں اور فلاسفہ میں بڑے پیمانے پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سلطنت روم میں نئے عقائد کا پھیلائو اس کے زوال کا ایک اہم سبب ہے۔ تین سو اسی عیسوی میں عیسائیت کو سلطنت روم کا با قاعدہ سرکاری مذہب قرار دیا گیا۔ اس اعلان سے ایک طرف اچھی بات یہ ہوئی کہ سرکاری سطح پر عیسائیوں پر جو ظلم و استبداد کیا جاتا تھا‘ وہ ختم ہو گیا۔ مگر دوسری طرف مذہب نے سرکاری حیثیت اختیار کی تو عام آدمی کی بات ہونی بھی بند ہو گئی۔ چونکہ عام آدمی کی بات کرنے والے خود اقتدار میں حصہ دار بن گئے تھے؛ چنانچہ اس سرکاری سرپرستی کی وجہ سے پہلے سے موجود رومن اخلاقی نظام ٹوٹ گیا۔ قدیم رومن مذہب ختم ہو گیا۔ اس قدیم مذہب میں شہنشاہ یا حکمران کو اہم درجہ دیا جاتا تھا۔ سماج میں عظمت اور برتری ریاست کو حاصل تھی مگر اس تبدیلی سے ریاست کی عظمت کی جگہ پاپائیت نے لے لی۔ اس تبدیلی کی وجہ سے پوپ اور دوسرے مذہبی پیشوا سیاست میں دلچسپی لینا شروع ہو گئے‘ جس کی وجہ سے نظامِ حکومت پیچیدہ ہوتا گیا؛ چنانچہ ملکی معاملات میں فوج، انتظامیہ اور دوسری سماجی و معاشی طاقتوں کے مقابلے میں چرچ کا اثر و رسوخ بڑھ گیا۔
یقینا رومن سلطنت کی تباہی میں دیگر کئی عوامل بھی شامل تھے۔ ان میں سیاسی کرپشن اور مطلق العنانیت سر فہرست تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ باڈی گارڈز حکمران کو قتل کر کے اس کی جگہ اپنی مرضی کا نیا حکمران مقرر کرتے تھے۔ ایک بار تو بادشاہ کے قتل کے بعد باڈی گارڈز نے اعلان کیا کہ سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو تخت عطا کیا جائے گا۔ دوسری اور تیسری صدی کے دوران رومن شہنشاہ بننے کا مطلب موت کی سزا قبول کرنا تھا۔ گویا حکمران تبدیل نہیں، بلکہ قتل ہوتے تھے۔
ماضی میں دوسرے ملکوں اور قوموں پر قبضے کی وجہ سے فوجی مد میں اور دفاع پر بے تحاشا وسائل صرف کیے جاتے تھے۔ بے پناہ اور غیر ضروری دشمنیوں کی وجہ سے ہر لمحہ سرحدوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی تھی۔ ریاست عوام کے فوری مسائل کے حل پر خرچ کرنے کے بجائے بیشتر وسائل دفاع پر خرچ کرتی تھی۔ عوام غربت اور مسائل سے تنگ آ کر فوج میں بطور رضا کار جانے سے کترانے لگے، جس کی وجہ سے حکومت کرائے کے سپاہی بھرتی کرنے پر مجبور ہوئی، جو نا صرف مہنگے اور نا قابل اعتبار تھے، بلکہ آخر میں خود رومن سلطنت کے خلاف لڑنا شروع ہو گئے۔ اس کے علاوہ معاشی و طبقاتی تضادات، غلام محنت کشوں کا وحشیانہ استحصال، اور دوسرے کئی عوامل اس زوال کے پیچھے کارفرما تھے، جو تفصیلی مضامین کے متقاضی ہیں۔ رومن سلطنت کے زوال کا ایک سبق یہ ہے کہ قومیں، ملک اور سلطنتیں مذہب سے دوری یا نزدیکی کی وجہ سے نہیں، بلکہ مذہب کو سیاسی مقاصد اور ریاستی معاملات میں غلط استعمال کرنے سے تباہ ہوتی ہیں۔