وزیراعظم کا دورہ کامیاب رہا ہے یا ناکام؟ اس سوال کا درست جواب تب ہی دیا جا سکتا ہے جب اس باب میں کامیابی یا ناکامی کی کوئی متفقہ یا متعین تعریف ہو۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے عالمی رہنما بھی گزرے ہیں، جنہوں نے وائٹ ہائوس میں قدم رکھنا ہی بذات خود ایک عظیم کامیابی قرار دیا۔ آج بھی دنیا بھر میں سرکاری سطح پر واشنگٹن میں آنا یا بلایا جانا ہی دورے کی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تک نتائج کی بات ہے تو ایسے ہر دورے کے نتائج پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ امریکی صدور کسی غیر ملکی لیڈر سے مل کر یا اس کی شخصیت و دلائل سے متاثر ہو کر اپنا ذہن اور فیصلے نہیں بدلتے، یہ فیصلے پہلے سے ہو چکے ہوتے ہیں، جن کا صرف رسمی اعلان باقی ہوتا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے درمیان سفارت کاری کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے۔ کئی تلخ و شیریں یادیں ہیں۔ اس کا آغاز چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو ہو گیا تھا‘ جب امریکی نمائندہ واشنگٹن سے خصوصی پیغام لے کر یوم آزادی کی تقریب میں شریک ہوا تھا۔ مگر اصل کہانی کا آغاز وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورے سے ہوتا ہے۔ یہ ریاستی دورہ تھا۔ امریکی صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان کو لندن سے واشنگٹن لانے کے لیے اپنا ذاتی طیارہ دیا تھا‘ اور اپنی پوری کابینہ سمیت ہوائی اڈے پر استقبال کے لیے موجود تھے۔ لیاقت علی خان کو سرکاری گیسٹ ہائوس میں ٹھہرایا گیا۔ واشنگٹن کی سڑکوں پر پریڈ ہوئی اور انہوں نے ایوان نمائندگان سے خطاب کیا۔ یہ ریاستی دورہ تھا جس کے پس منظر میں سرد جنگ، سوویت یونین کی دہشت، سوشلزم کا خوف اور پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور ضرورت جیسے سبھی معاملات موجود تھے۔
محل وقوع تو پاکستان کا آج بھی وہی ہے مگر حالات بہت بدل چکے ہیں۔ سوویت یونین نہیں ہے۔ سرد جنگ ماضی کا قصہ ہے۔ مگر پاکستان کی ضرورت ابھی باقی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے با عزت انخلا میں امریکی پاکستان کا کردار دیکھتے ہیں‘ مگر اس کے باوجود عمران خان صاحب کو وہ پروٹوکول نہ ملا، جو سرد جنگ کے دوران پاکستانی لیڈروں کو ملتا تھا۔ ان کا دورہ درجہ بندی کے اعتبار سے ایک سرکاری ورکنگ وزٹ تھا، جس میں زیادہ رسمی تقریبات، لنچ و ڈنر وغیرہ کا تکلف نہیں ہوتا۔ دورے کی سرکاری درجہ بندی کے اعتبار سے وزیر اعظم کو پورا پروٹوکول دیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا رویہ بھی خلاف معمول نرم اور مہذب تھا۔ اس حساب سے اس دورے کو کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔
واشنگٹن میں سفارت کاری کے لیے یہ ایک مشکل وقت چل رہا ہے۔ یہ وقت کسی بھی ملک کے سربراہ کے دورے کے لیے کوئی بہت مناسب وقت نہیں ہے۔ وائٹ ہائوس میں اس وقت ایک مشکل شخص بیٹھا ہوا ہے۔ دنیا کے بارے میں اس کا اپنا الگ حساب کتاب ہے۔ وہ دنیا کو آدرشوں، اصولوں یا قاعدوں کی روشنی میں نہیں نفع نقصان کی عینک سے دیکھتا ہے۔ اس معاملے میں صدر ٹرمپ کی شہرت نمایاں ہے۔ تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کے لیے ان کے خیالات اچھے نہیں ہیں۔ وہ غربت کو ''شٹ‘‘ اور غریب ملکوں کو ''شٹ ہول‘‘ کہتا ہے۔ ایسے شخص سے کسی انسانی ہمدردی یا رحم دلی کی توقع فضول ہے۔ اس کی لگی بندھی رائے یہ ہے کہ یہ سارے غریب ملک اس لیے غریب ہیں کہ ان کے حکمران بد عنوان اور نا اہل ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی غربت کا کارن ان کے اندر ہے۔ اور اس کا حل بھی ان کے اندر سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ یعنی بیرونی قرضوں یا معاشی امداد کے بجائے ملک کے اندر اہل اور شفاف حکمران لائے جائیں۔ ٹرمپ اپنی اس سوچ کو بھی نہیں چھپاتے کہ اس کے جو پیش رو امریکی صدور بیرونی ممالک کو قرضے، امداد یا معاشی رعایت دیتے رہے وہ بیوقوف تھے۔ ٹرمپ جن پیش روئوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں ان کی ایک لمبی فہرست ہے، جن میں سے کچھ لوگوں کی دانش اور سمجھ داری ضرب المثل ہے۔ اس فہرست میں ابراہام لنکن، فریکلن روزویلٹ، جارج واشنگٹن، جان ایف کینیڈی اور بل کلنٹن جیسے صدور بھی شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے امریکہ کو سپر پاور بنایا تو اس کی واحد وجہ صرف فوجی طاقت نہیں تھی بلکہ ان کی معاشی اور اخلاقی پالیسیاں بھی اس کے پس منظر میں موجود تھیں۔ مگر اس وقت صدر ٹرمپ کا نیو نیشنل ازم اور نرگسیت پسندی اپنے عروج پر ہے، جس کو انہوں نے 'امریکہ سب سے پہلے‘ کے جذباتی نعرے میں لپیٹا ہوا ہے۔ ایسے میں ان سے کسی ہمدردانہ سوچ، فیاضانہ یا منصفانہ طرز عمل کی توقع رکھنا درست طرز عمل نہیں ہے۔ اس معاملے میں خود صدر ٹرمپ اپنی بے رحمی اور بے حسی چھپانے کی کوشش نہیں کرتے‘ جس پر لاکھوں رحم دل اور انسان دوست امریکی شرمندہ ہیں۔
ابھی اگلے ہفتے صدر ٹرمپ کا ایک بد نام زمانہ ٹویٹ سامنے آیا تھا۔ اس ٹویٹ میں انہوں نے انتہائی بے رحمی سے ایوان نمائندگان کی چار منتخب عورتوں کو ''یُو شٹ اپ‘‘ کہا۔ ٹرمپ نے ان سے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ اپنا منہ بند کریں اور اپنے ان کرپٹ اور جرائم زدہ ملکوں میں واپس جائیں، جہاں سے وہ آئی تھیں۔ اس پر اپنے دکھ اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے ایک امریکی لکھاری نینسی اوبرئین سمپسن لکھتی ہیں کہ میں کسی بھی طرح مذہبی نہیں ہوں مگر حضرت عیسیٰ ؑنے کہا تھا کہ قیامت کے دن آپ سے صرف ایک سوال پوچھا جائے گا: کیا تم نے بھوکے کو کھانا دیا یا کسی ننگے کو کپڑے دیے۔ صرف ایک سوال۔ حضرت عیسیٰ ؑکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس زندگی میں جو اہم ترین کام آپ کر سکتے ہیں وہ کم خوش قسمت لوگوں پر رحم کھانا ہے۔ صدر ٹرمپ نے غربت کے بارے میں جو غلیظ زبان استعمال کی‘ اس پر ہمیں صرف غصہ ہی نہیں آیا‘ اس سے ہماری روح بھی زخمی ہوئی ہے۔
ٹرمپ نے ایسے کانگرس ممبران کے بارے میں ٹویٹ کیا ہے، جو بقول ان کے ایسے ممالک سے آئی ہیں جہاں کی حکومتیں مکمل طور پر تباہ حال ہیں۔ جو بد عنوان اور نا اہل ہیں، اور یہ عورتیں یہاں آ کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسی دنیا کی عظیم ترین اور طاقت ور ترین ریاست کو بتا رہی ہیں کہ حکومتیں کیسے چلائی جاتی ہے۔ یہ عورتیں پہلے واپس اپنے اپنے ملکوں میں جا کر ان جرم زدہ جگہوں کو تو ٹھیک کریں‘ اور پھر واپس آ کر ہمیں بتائیں کہ یہ کام کیسے ہوتا ہے۔
وہ غالباً ایوان نمائندگان کی نمائندہ ایان عبداللہ عمر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ایان صومالیہ میں پیدا ہوئیں، اور سترہ سال کی عمر میں امریکی شہری بنیں۔ صومالیہ واقعی مصیبت زدہ ملک ہے۔ کسی بچے کے لیے یہ دنیا کی خطرناک ترین جگہ ہے۔ یونیسف اور عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں ہر سات میں سے ایک بچہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ صومالیہ میں بچوں، ان کے والدین اور ان کے جانوروں کے لیے کافی خوراک نہیں ہے۔ تو کیا ہمیں ان کو گالیاں دینی چاہئیں یا ان کی مدد کرنی چاہیے؟ صدر ٹرمپ دنیا کے بچوں کو کیا سیکھا رہے ہیں کہ دنیا میں بھوک اور غربت کے خلاف کیا کرنا چاہیے؟ کیا ہم چھت پر کھڑے ہو کر پوری قوت سے چلائیں کہ 'امریکہ ایک عظیم ملک ہے اور تم کنگلے اور مسائل زدہ اور بے وقوف لوگ ہو اور تم پر لعنت ہو‘۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹرمپ دنیا کو یہ سبق دے رہے ہیں۔ اوول آفس میں ہیٹی، ایل سلواڈور اور افریقی ممالک کے پناہ گزینوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا تھا کہ ان ''شٹ ہول‘‘ ملکوں سے ہم ان لوگوں کو امریکہ میں داخل ہی کیوں ہونے دیتے ہیں؟ کسی غریب ملک یا غریب شخص کے لیے ہمیں اپنے بچوں کو یہ سبق نہیں پڑھانا چاہتے۔ جب ہم صومالیہ اور دوسری اقوام میں غربت اور مصائب کی کہانیاں سنتے ہیں، بھوکے بچوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ ہم ان کی امداد کے لیے کیاکر سکتے ہیں۔ نینسی نے ان خیالات کے ذریعے لاکھوں امریکیوں کی ترجمانی کی ہے۔ مگر صدر ٹرمپ انتہائی دائیں بازو کے نسل پرستانہ اور تنگ نظر خیالات کے زیر اثر ہیں۔ پھر ان کی ایک افتاد طبع اور انداز ہے۔ ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے اس دورے کو ایک کامیاب دورہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔