دنیا میں سب سے خطرناک جگہ کون سی ہے؟ برسوں پہلے اس سوال کا جواب سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے دیا تھا۔ اس صاحبِ بصیرت سیاست دان اور دانشور نے زور دے کر کہا تھا کہ دنیا کی سب سے خطرناک جگہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول ہے۔
برسوں بعد آج بھی یہ بات درست ہے۔ یہ خونیں لکیر آج بھی جوں کی توں موجود ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی؛ البتہ اس کی خطرناکی میںِ خاصا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ اب ایک ہیبت ناک جگہ ہے، جہاں پاکستان اور بھارت کی فورسز ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہتی ہیں۔ جہاں اکثر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ جہاں آئے روز کسی نہ کسی بے گناہ کا خون بہتا رہتا ہے اور کوئی غریب چرواہا، کوئی فاقہ زدہ کسان، کوئی لاچار لکڑہارا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کئی لوگوں کے گھروں کو گولہ باری سے نقصان پہنچتا ہے اور کئی ایک کو زمین دوز بنکروں میں پناہ لینا پڑتی ہے۔
آج کل یہ لائن آف کنٹرول پھر گرما گرم بحث کا موضوع ہے۔ آزاد کشمیر کے کئی آزادی پسندوں، سیاسی پارٹیوں اور گروہوں نے آنے والے دنوں میں لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے اور اسے روند کر دوسری طرف جانے کا عزم اور اعلان کر رکھا ہے۔ حریت پسندوں کے علاوہ آزاد کشمیر حکومت سمیت عام دھارے کی سیاسی پارٹیوں، جن میں مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی بھی شامل ہیں‘ نے بھی لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے اور اسے عبور کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ مگر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے دورہ مظفر آباد کے دوران ان سے اپیل کی کہ وہ یہ فیصلہ فی الحال ملتوی کر دیں‘ وہ بعد میں بتائیں گے کہ ایسا کب کرنا ہے۔ اس بارے میں کوئی اجتماعی فیصلہ کیا جائے گا؛ چنانچہ ان لوگوں نے اپنا پروگرام وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق ملتوی کر دیا۔ ان جماعتوں کے علاوہ لبریشن فرنٹ بھی لائن آف کنٹرول پار کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔
یہ لائن آف کنٹرول کیا ہے؟ اور اس کو لے کر اتنا شور کیوں ہے؟ لائن آف کنٹرول اس لکیر کو کہتے ہیں، جو سابق ریاست جموں و کشمیر میں پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے درمیان جنگ بندی کے وقت معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لکیر کو پہلے اور ابتدائی طور پر ''سیز فائر لائن‘‘ یعنی جنگ بندی لائن کہا جاتا تھا۔ تین جولائی انیس سو بہتّر کے معاہدہ شملہ کے تحت سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ شملہ میں ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان مذاکرات کا ایک اہم ترین اور مشکل ترین نکتہ یہ سیز فائر لائن بھی تھا۔ اس وقت سیز فائر لائن کو جیسی کہ وہ تھی جوں کا توں تسلیم کرنا آسان نہیں تھا، مگر پھر بھی بر صغیر میں امن اور نئی شروعات کی خاطر اسے تسلیم کر لیا گیا۔
شملہ معاہدے میں لائن آف کنٹرول پر تفصیلی دفعات ڈالی گئیں۔ اس معاہدے کی دفعہ چار میں لکھا گیا کہ ایک پائدار امن کے قیام کے لیے پاکستان اور بھارت نے اتفاق کیا ہے کہ جموں و کشمیر میں انیس سو اکہتر کی جنگ بندی کے نتیجے میں جو لائن آف کنٹرول معرض وجود میں آئی تھی اس کا احترام کیا جائے گا، اور کوئی بھی فریق یک طرفہ طور پر اس میں کوئی رد و بدل نہیں کرے گا۔ کسی معاملے پر باہمی اختلاف اور قانونی تشریحات میں اختلاف رائے کے باوجود دونوں فریق اس لکیر کی خلاف ورزی کرنے یا طاقت کے استعمال سے اجتناب کریں گے۔ اس تحریری معاہدے کے باوجود اس لکیر کی خلاف ورزیاں مسلسل ہوتی رہی ہیں۔ تاریخ میں بیشتر وقت دو طرفہ گولیوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔ جہاں تک ریاست جموں و کشمیر کے عوام کا تعلق ہے ، تو انہوں نے اپنی دھرتی کے سینے پر اس خونیں لکیر کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ کشمیری عوام ہمیشہ اس لکیر کو روند ڈالنے کا عزم دہراتے رہے، اور گاہے اس کو روند ڈالنے کی عملی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔
اس سلسلے کی پہلی بڑی کوشش جون انیس سو اٹھاون میں ہوئی۔ جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اس وقت کے ایک طاقت ور لیڈر چوہدری غلام عباس نے اعلان کیا کہ وہ ستائیس جون کو جنگ بندی لائن توڑ کر مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا یہ عمل پُر امن اور ہر قسم کے تشدد سے پاک ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ دو لاکھ مجاہدین ہیں، جو ان کے ساتھ جنگ بندی لائن پار کریں گے۔ ان کے اس اعلان سے پاکستان اور بھارت میں کھلبلی مچ گئی۔ صدر سکندر مرزا نے نتھیا گلی کے ایک ریسٹ ہائوس میں چوہدری غلام عباس سے طویل مذاکرات کیے، اور ان پر واضح کیا کہ یہ ایک خطرناک مہم جوئی ہے، جو پاکستان اور بھارت کو جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایوب خان کی تاریخی ڈائری کے مندرجات بڑے سنسنی خیز ہیں۔ انہوں نے لکھا ''یہ جان کر میرے پائوں تلے کی زمین نکل گئی کہ صدر مرزا نے یہ ہدایت کی ہے کہ جب تک عباس اور ان کے آدمی جنگ بندی لائن پر نہ پہنچ جائیں‘ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے، اور جب وہ وہاں پہنچ جائیں تو فوج بغیر طاقت استعمال کیے ان کو گرفتار کر لے۔ میں نے اسی وقت صدر کو ٹیلی فون کر کے اس طفلانہ فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ میں نے مطالبہ کیا کہ اگر کارروائی کرنی ہے تو پاکستان یا آزاد کشمیر کے سول حکام کے ذریعے کی جائے۔ اس پر کابینہ کا اجلاس ہوا، اور میری سفارشات کو منظور کر لیا گیا۔ اسی دن کراچی سے اس فیصلے کا اعلان کیا گیا کہ حکومت پاکستان جنگ بندی لائن کو توڑنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی کیونکہ اس طرح تنازعہ کشمیر کے پُر امن تصفیہ میں رکاوٹ پیدا ہو جائے گی‘‘۔ حکومت پاکستان کے اس اعلان کے ساتھ ہی اس وقت کے آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم نے بیان جاری کیا کہ چوہدری غلام عباس کے اعلان کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں، اور جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس حوالے سے بیانات کا یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اکتوبر میں ایوب خان نے مارشل لگا دیا اور جنگ بندی لائن پار کرنے کی کہانی وہیں رک گئی۔ جنگ بندی لائن بعد میں کنٹرول لائن بن گئی، اور آزاد کشمیر کے آزادی پسند رہنمائوں کی طرف سے اس لائن کو پار کرنے کی بار بار کوششیں ہوتی رہیں۔ ان میں تین بڑی اور قابل ذکر کوششیں تھیں، جو نوے کی دہائی میں آزادی پسند رہنمائوں نے کیں۔
لائن آف کنٹرول کے باب میں آج بھی پاکستان کی پالیسی تقریباً وہی ہے، جو ایوب خان کے دور میں تھی‘ مگر آج کے حالات میں یہ خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کو پار کرنے کی کسی کوشش کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے مسلح دو ممالک کے درمیان کسی جنگ کا خطرہ ایک خوفناک بات ہے، جو پوری دنیا میں خوف و تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کا موقف ہے کہ جنگ بندی لائن کی کسی قسم کی انفرادی یا اجتماعی خلاف ورزی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے، اور ایسی کوئی جنگ بالآخر جوہری جنگ پر منتج ہو سکتی ہے، جس سے بر صغیر اور شاید اس سے باہر بھی دور تک نا قابل تصور تباہی پھیل سکتی ہے۔ اور اگر جنگ نہ بھی ہو تو بھارت کنٹرول لائن پار کرنے کی کسی طرح کی کوشش کو کشمیر میں مداخلت اور در اندازی قرار دے کر ان کوششوں کو کمزور کر سکتا ہے، جو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ مگر دوسری طرف تقسیم کی اس خونیں لکیر کے دونوں اطراف میں بسنے والے کشمیریوں کے جذبات میں بہت اشتعال ہے۔ کشمیر میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد کنٹرول لائن کو روندنے کی خواہش میں اضافہ ہوا ہے، اور کچھ جگہوں پر اس طرح کی انفرادی کوششیں بھی ہوئی ہیں، جس سے کچھ لوگ شہید بھی ہوئے ہیں۔ اس خطرناک خونیں لکیر پر مزید لہو بہنے سے روکنے کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔