ہانگ کانگ ہمارے عہد کا ایک دلچسپ معاملہ ہے لیکن ہمارے ہاں اردو زبان کے میڈیا میں اس موضوع پر خبر سازی سے زیادہ ترگریز ہی کیا گیا ہے حالانکہ جو کچھ ہانگ کانگ میں ہو رہا ہے، یہ جدید دور کے پُر امن اور با شعور عوام اور ایک تجربہ کار سرکار کے درمیان کشمکش کا ایک حیرت انگیز اظہار ہے۔ یہ ہمارے دور کی سیاسی اور سماجی سائنس کا اہم موضوع ہے۔ ہمارے لیے اس میں سیکھنے کے لیے اچھے اور بُرے دونوں اسباق موجود ہیں۔
ہانگ کانگ میں عوامی مظاہروں کو ایک سو سے زیادہ دن ہو چکے ہیں۔ ان مجموعی طور پر پُر امن مظاہروں نے ہانگ کانگ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان مظاہروں کا ''نیٹ شیل‘‘ میں مطالبہ مکمل طور پر ایک مقامی جمہوری حکومت کا قیام ہے۔ یعنی لوگ یہ مانگ کر رہے ہیں کہ ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو اور ممبران اسمبلی کو ایک آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں ایک ایسی مقامی حکومت قائم کی جائے، جو بیجنگ کے کنٹرول میں نہ ہو۔
جمہوری معیار اور نقطہ نظر سے یہ ایک انتہائی معتدل اور بے ضرر مطالبہ ہے، لیکن چین کے معیار اور نقطہ نظر سے اس کو ایک ریڈیکل یا انقلابی مطالبہ سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود چین کا رد عمل عام ڈگر سے ہٹ کر ہے۔ عام ڈگر سے ہٹ کر اس لیے ہے کہ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو چین ماضی میں اس قسم کے مظاہروں سے بڑی سختی سے نمٹتا رہا ہے۔ مگر اس بار ہانگ کانگ میں ہونے والے احتجاج پر چین نے بہت نرم رد عمل اور وسیع برداشت کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ مظاہروں کی شدت دیکھتے ہوئے چین نے شروع میں ہی بہت بڑی تعداد میں فوجی ہانگ کانگ کی سرحد کے اس پار تعینات کر دیے تھے، جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کارروائی کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اس تیاری کے باوجود ابھی تک چین نے طاقت کے استعمال سے مکمل طور پر گریز کیا ہے‘ اور یہاں تک کہ ماضی کی روایات کے برعکس ابھی تک روایتی انداز میں طاقت کے استعمال کی کھلی دھمکی بھی نہیں دی ہے۔ جن لوگوں نے تیس برس قبل تائنامن سکوائر میں چین کی ریاستی طاقت کا کھلا مظاہرہ دیکھا تھا، ان کے لیے چین کا موجودہ ٹھنڈا مزاج اور برداشت کا عمل حیران کن ہے۔ اس کی دو قسم کی توجیحات پیش کی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ چین مغرب اور مغربی رائے عامہ سے خائف ہے۔ وہ کسی ایسی صورت حال سے اجتناب کر رہا ہے، جس کی وجہ سے مغرب کو اس پر تنقید کرنے اور چین کے سیاسی و معاشی نظام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل سکتا ہو۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ہانگ کانگ چین کا مالیاتی مرکز ہے، اس مالیاتی مرکز میں خون خرابہ یا مار دھاڑ چین کی معیشت کو برباد کر سکتی ہے، اس لیے یہاں پر چین عوام کے ساتھ تصادم کی کیفیت اور طاقت کے استعمال سے گریزاں ہے۔ مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو ان دونوں دلائل کو رد کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اصرار ہے کہ چین کو نہ تو مغرب کی ناراضگی یا رد عمل کا خوف ہے، اور نہ ہی کسی قسم کے مالیاتی بحران کا خدشہ ہے‘ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان حالات میں پُر سکون رہنے اور مظاہرین کے خلاف کوئی بڑا قدم نہ اٹھانے کی وجہ چین کا اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ چین کو یقین ہے کہ ہانگ کانگ کی اشرافیہ اور عوام کی ایک بڑی تعداد ان مظاہروں کی حمایت نہیں کرتی‘ اور ہانگ کانگ میں ان مظاہروں یا بے چینی کے باوجود یہاں کے سماج پر اس کی گرفت مضبوط ہے۔ اس یقین کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی ہانگ کانگ کی اشرافیہ اور تاجر طبقات کے مفادات کو بہت پہلے ہی مین لینڈ چین کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ یہ تعلق پارٹی نے ان طبقات کو مختلف مراعات دے کر مضبوط کیا ہے۔ تاجر اور متوسط طبقات کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی نے ہانگ کانگ کے مزدور اور نچلے طبقات کے ساتھ بھی کافی گہرا تعلق پیدا کر رکھا ہے۔ ان حالات میں پارٹی کا تجزیہ یہ ہے کہ طاقت کے استعمال کے بجائے کچھ نئے معاشی اقدامات اور اصلاحات کرنے سے صورتحال قابو میں آ جائے گی۔ طاقت کے استعمال کے خلاف پارٹی کی چوٹی کی لیڈرشپ اپنے خیالات کا بار بار اظہار کر چکی ہے۔ ہانگ کانگ میں ان مظاہروں کے آغاز کے ساتھ ہی کچھ لوگوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا تھا کہ ہانگ کانگ میں ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے اور یہاں پر پیپلز لبریشن آرمی کو تعینات کیا جائے‘ مگر شی جن پنگ نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس باب میں مرکز صبر سے کام لے گا، اور ہانگ کانگ کی مقامی حکومت کو حالات قابو میں لانے کا موقع دے گا۔
چین میں ہانگ کانگ کی بے چینی کو البتہ تھوڑی حیرت سے ضرور دیکھا جا رہا ہے۔ چونکہ چین کے چوٹی کے پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ انہوں نے ہانگ کانگ پر جو انواع و اقسام کی مہربانیاں کر رکھی ہیں، ان کو موجودگی میں ہانگ کانگ کسی قسم کی شکایت کیسے کر سکتا ہے؟ ہانگ کانگ کے لوگوں کو جو بڑی بڑی مراعات دی گئیں ان میں ان بھاری ٹیکسوں سے استثنا قابل ذکر ہے‘ جو باقی چین کے قصبے، شہر اور میونسپلٹیز مرکز کو ادا کرتی ہیں۔ ہانگ کانگ میں پانی کی فراہمی کا ایک قابل اعتماد نظام، گیس، بجلی اور خوراک کی فراہمی کی ضمانت، اور کئی تجارتی اور معاشی مراعات اور سہولیات فراہم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہانک کانگ بہت کم عرصے میں اپنی آزادی اور خود مختاری کے تصور سے دست بردار ہو جائے گا۔
انگریزوں کے ساتھ ہانگ کانگ کی آزادی کے سوال پر اس وقت کے چینی رہنما ڈینگ زیائو پنگ کو کئی اعتراضات تھے۔ ان میں سے ایک بڑا اعتراض ایک ملک اور دو نظاموں کے تصور پر بھی تھا۔ مگر اس وقت وہ بہ امر مجبوری ہانگ کانگ کے لوگوں کو چینی نظام میں ڈھلنے یا اس کا عادی ہونے کے لیے پچاس سال کا وقت دینے پر راضی ہو گئے تھے۔ مگر یہ وقت ہانگ کانگ کو چین سے دور ہونے کے لیے نہیں، بلکہ قریب ہونے کے لیے دیا گیا تھا۔ مگر دوسری طرف حفظ ما تقدم کے طور پر اس وقت چین نے کچھ ایسے آئینی و قانونی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے، جو اسے ہانگ کانگ کو اپنی گرفت میں رکھنے میں مدد دے سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ہانگ کانگ میں مقامی انتخابات کب اور کیسے ہوں گے؟ یہ فیصلہ کرنے کا اختیار چین کے پاس ہے۔ چین کے پاس ہانگ کانگ کی اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کو ویٹو کرنے کا اختیار بھی ہے۔ اور ہانگ کانگ میں بنیادی قوانین کی تعبیر و تشریح کا اختیار بھی چین کے پاس ہے۔
ہانگ کانگ میں موجودہ بے چینی کو پارٹی اور چینی لیڈر امریکہ کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اس کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے ستمبر میں اپنی ایک تقریر میں شی جن پنگ نے کہا تھا کہ ہانگ کانگ میں امریکہ کی مداخلت واضح ہے۔ امریکہ میں کچھ چین دشمن قوتیں ہانگ کانگ کو امریکہ اور چین کے لیے میدان جنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ہانگ کانگ کی نیم خود مختاری کو مکمل خود مختاری میں بدلنا چاہتی ہیں۔ ان کا مقصد چین کے ابھار اور عظیم چینی قوم کے حیات نو کے عمل کو روکنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کو یہ خوف نہیں کہ ہانگ کانگ میں طاقت کے استعمال سے مغرب میں کیا رد عمل ہو گا۔ وہ اس کو پہلے سے موجود ایک تلخ حقیقت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خیال میں مغرب کے رد عمل کو سامنے رکھ کر ہانگ کانگ میں پالیسی بنانے یا بدلنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مغرب خصوصاً امریکہ ہانگ کانگ میں چین کے خلاف جو کچھ بھی کر سکتا تھا، وہ پہلے ہی کر رہا ہے۔ عالمی مداخلت اور مضبوط عالمی طاقتوں کی شدید خواہش کے باوجود ابھی تک ہانگ کانگ میں حالات قابو سے باہر نہیں ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں اطراف میں چینیوں کی صدیوں پرانی دانش، ان کا پختہ شعور اور تجربہ بروئے کار ہے۔