انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ اس کے لیے دوسرے انسان سے سماجی یا جسمانی فاصلہ رکھنا ایک مشکل اور اکتا دینے والا کام ہے۔ مگر یہ صورتحال انسان کو پورے سکون سے سوچنے اور غوروفکر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
تنہائی کے ان لمحات میں انسان اس طرز زندگی کے بارے میں بھی غور کرتا ہے جو کورونا لاک ڈائون اورسماجی دوریوں کے عمل سے پہلے تھا۔ انسان حیرت و افسوس سے یہ ماننے پر مجبور ہے کہ وہ زندگی ضرورت سے زیادہ ہی تیز رفتار اور ہنگامہ خیز تھی۔ اس ہنگامہ خیزدنیا کے شب وروز پرغورکرکے حیرت ہوتی ہے کہ ہم لوگ بالکل جنونیوں کی طرح زندگی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ خود کار مشینوں کی طرح اپنے اپنے کام میں لگے ہیں۔ اگر مزید غور کیا جائے تواس بھاگ دوڑ کا بیشترحصہ بے معنی یا غیر ضروری لگتا ہے۔
زندگی کی بنیادی ضروریات کی دوڑ میں شامل ہونا ہرانسان کے لیے ناگزیر ہے اور اس کا جواز بھی موجود ہے‘ لیکن ہماری بیشتر بھاگ دوڑ ایسے بے شمارچھوٹے بڑے کاموں کے لیے ہوتی ہے، جن کو کیے بغیر بھی زندگی بڑے آرام و سکون سے گزر سکتی ہے مگرانسانوں کی ایک بڑی تعداد انہی چھوٹے موٹے کاموں میں اپنا زیادہ تروقت صرف کرتی ہے۔
کورونا لاک ڈائون اورفاصلے رکھنے کے عمل کے دوران بہت سارے ممالک میں انسان کو یہ نیا تجربہ ہوا کہ اشیائے خورونوش کے علاوہ سب کچھ بند ہونے کے باوجود انسان کا گزارہ ہو رہا ہے، اوربغیر کسی قابل ذکرتکلیف کے ہو رہا ہے۔ بہت سارے اذہان میں مگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ بیشتر غیرضروری اشیا کی خریدوفروخت اورغیر ضروری کاموں کی انجام دہی کے لیے دوڑتے ہوئے ہم نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو کس قدربگاڑ دیا ہے؟ اس کا اندازہ وہ انڈیکیٹردیکھ کر ہوتا ہے، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ لاک ڈائون کے دوران ہماری فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی خوفناک حد تک بڑھی ہوئی مقدارمیں کتنی کمی ہوئی ہے، اورماحولیاتی آلودگی میں کتنا فرق پڑا ہے۔
کئی شہروں میں کئی چھوٹے بچوں نے شاید زندگی میں پہلی بار نیلا آسمان دیکھا ہے، جس پراس سے پہلے انہوں نے ہمیشہ گردوغبار کی چادر سی تنی ہوئی دیکھی تھی۔ کئی لوگوں نے مدتوں بعد دوردراز کے برفیلے پہاڑوں کو دوبارہ دیکھا، جن کے وہ بچپن میں نظارے کیا کرتے تھے۔ کئی جگہوں پرلوگوں کو جھیلوں اورندیوں میں بہتا ہوا شفاف نیلا پانی دیکھنے اور بہت ہی صاف ہوا میں سانس لینے کا لطف اٹھانے کا موقع بھی کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے ہی ملا ہے۔
اس لاک ڈائون نے ہمیں اس بات پر غور کرنے کااچھا موقع دیا کہ ہماری اس دنیا کو ماحولیاتی تباہی سے بچانا کتنا ضروری ہے۔ لاک ڈائون ختم کرکے پہلے کی طرح معمول کی بھاگ دوڑ کے آغاز سے پہلے حکومتوں اورعالمی لیڈروں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم روزمرہ کے طرززندگی میں چھوٹی چھوٹی اورمعمولی تبدیلوں سے اپنے ماحول کو خود اپنے ہاتھوں تباہی سے کیسے بچا سکتے ہیں۔ قدرت کا وجود ہمارے اپنے وجود کا ثبوت ہے۔ اس کی دیکھ بھال‘ اس کا ذمہ دارانہ استعمال ہم پرلازم ہے۔ ہمارے پانی‘ جنگلات، چرند پرند فطرت کے وجود کا حصہ ہیں، جن کوہم غلط اور بیدردی سے استعمال کرکے برباد کررہے ہیں۔ ہم اپنے اردگرد کے قدرتی ماحول کو جن چیزوں سے برباد کرتے ہیں، ان میں صنعتی آلودگی جیسے بڑے عناصر سے لیکر گھر کے کچرے اور پانی کے بے جا استعمال تک کئی چیزیں شامل ہیں۔
کورونا لاک ڈائون اور بحران کے دوران ہمیں اس بات کا گہرائی تک اندازہ ہواکہ ہم موت سے کس قدرخوفزدہ ہیں‘ مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ اگر ہم موت سے اس قدر خوف زدہ ہیں تو یہ جو حقیقی موت اور تباہی ہمارے سامنے کھڑی ہے، اس سے کیوں نہیں ڈرتے؟ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اجتماعی قبرکیوں کھود رہے ہیں؟ ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو پہلے سے زیادہ زہریلا اور اتنا آلودہ کیوں کررہے ہیں کہ ایک دن یہ رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔
ہم نے اپنی فضا اور سمندرووں کے پانیوں میں ضرورت سے کہیں زیادہ کاربن بھر دی ہے۔ ہم نے زراعت اور تعمیرات کے لیے بیدردی سے جنگلات کاٹ دیے ہیں۔ مانا کہ خوراک کے حصول کے لیے زراعت ضروری ہے۔ یہ بھی مانا کہ معیار زندگی میں اضافے اور پُرآسائش زندگی کے لیے نئی تعمیرات اور ہائوسنگ سکیموں کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے لیے جتنے درخت کاٹے جائیں اتنے ہی درخت لگانے کا سخت قانون بھی بنایا جا سکتا ہے؛ تاہم ارباب اختیار کی بے حسی یا غفلت کی وجہ سے اس باب میں قابل ذکر قانون سازی یا انتظام موجود نہیں ہے۔ جنگلات کی تباہی اور صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدارخطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ''پی پی ایم‘‘ یعنی ''پارٹس پر پارٹس‘‘ فارمولا سے ناپا جاتا ہے۔ دو سوبرس قبل ماحول میں کاربن دو سو اسی پارٹس فی ملین تھی‘ آج یہ مقدار چارسو پارٹس فی ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ حجم اور رفتار‘ دونوں اعتبار سے ناقابل تصور اضافہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ فضائی آلودگی کی نمایاں ترین وجوہ میں سے ایک توانائی کے حصول کی خاطر کوئلے، تیل، لکڑی، گیس کا استعمال ہے۔ ان چیزوں کے استعمال سے جو فضائی آلودگی پھیلتی ہے یہ کورونا سے کتنی زیادہ خطرناک ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری دنیا میں ہردس میں سے ایک موت کی وجہ یہ آلودگی ہے۔ آلودگی سے بچنے کے لیے راکٹ سائنس کا علم یا بہت بڑے وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔ توانائی کے حصول کے متبادل ذرائع اور مطلوبہ ٹیکنالوجی موجود ہے، جو مروجہ ٹیکنالوجی سے بھی سستی پڑ سکتی ہے۔ اگر اس سلسلے میں دوسرے کچھ کامیاب ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکے تو سولر پینل، ونڈ ٹربائن اس کی مثالیں ہیں۔ مگر توانائی کے روایتی وسائل سے جن عالمی اور مقامی طاقتور اور بااثر طبقات کے مفادات وابستہ ہیں، وہ توانائی کے نئے ذرائع اور ٹیکنالوجی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ جو وسائل کے جس حصے پر قابض ہے، وہ اس پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے پر بضد ہے، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے خلاف ہے۔
جنگلات کی تباہی ایک خوفناک عمل ہے، جو بے رحمی سے جاری ہے۔ ہر سال دنیا میں اٹھارہ ملین ایکڑ سے زیادہ جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کل رقبے کے صرف تیس فیصد پر جنگلات باقی رہ گئے ہیں۔ گیارہ ہزار سال قبل جب کھیتی باڑی کا آغاز ہوا تھا تو دنیا میں ساٹھ فیصد رقبے پر جنگلات تھے۔ جنگلات اور فضائی آلودگی میں تعلق یہ ہے کہ جنگلات کاربن کو جذب کرتے ہیں، جس سے فضائی آلودگی کم ہوتی ہے، اور یہ بات ہم سب پہلی یا دوسری جماعت میں پڑھ چکے ہیں۔ لیکن ہمارے سامنے ہر روز درخت کٹتے ہیں، اور انسان حیرت و افسوس سے دیکھتا ہے کہ ریاست و قانون خاموش تماشائی ہی نہیں، بسا اوقات سہولت کار بھی ہیں۔ ہمارے اردگرد ''بائیو ڈائی ورسٹی‘‘ یعنی حیاتی نظم میں تنوع ختم ہو رہا ہے۔ جنگلی حیات اور ان کے ٹھکانے تباہ ہو رہے ہیں۔ کئی جانوروں اور پودوں کی اقسام معدوم ہو رہی ہیں۔
زمین کا انحطاط ماحولیات کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال بارہ ملین ایکڑ زرعی زمین ''ڈی گریڈیشن‘‘ کا شکار ہوتی ہے۔ انسان کو خوراک کی ضمانت دینے کے لیے زمین کو اچھی حالت میں رکھنا ضروری ہے، اس کے لیے راستے اور طریقے موجود ہیں، جو دنیا کی دوسری اقوام آزما چکی ہیں۔
آبادی میں اضافہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تباہی میں اہم عنصر ہے۔ اس وقت دنیا میں سات ارب پینتیس کروڑ لوگ بستے ہیں۔ اگلے تیس برسوں میں یہ تعداد دس ارب تک پہنچ جائے گی۔ یہ تعداد پانی کی قلت سمیت کئی مسائل پیدا کر دے گی۔ یہ ایسا ماحول ہوگا، جیسے ایک لفٹ میں پچاس لوگوں کو بند کر دیا جائے۔ یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں صرف ایک ہے اور ہم سب لوگ اسے حصوں بخروں میں تقسیم کرنے کے باوجود مشترکہ طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی حفاظت انسان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آج ہم کورونا سے ڈر کر اپنے اپنے بلوں میں گھس سکتے ہیں، تاہم اگر ماحولیاتی تباہی کا موجودہ عمل جاری رہا تو اس وقت کیا ہو گا، جب ہمیں اپنے بلوں میں چھپ کر بیٹھنے کے لیے بھی آکسیجن دستیاب نہیں ہوگی۔