گزشتہ چند ہفتوں سے یہ خوبصورت شہر کسی آسیب زدہ شہر کی طرح لگتا تھا۔ ان چند ہفتوں کے دوران جب میں صبح صبح گھر سے نکلتا تھا تو سڑکیں سنسان اور ویران ہوتی تھیں۔ کسی سڑک پر خال خال ہی کوئی گاڑی نظر آتی۔ پیدل چلنے والے راہ گیر تو گویا یکسر منظر سے غائب ہو گئے تھے۔ جس عمارت میں میرا دفتر واقع ہے، وہ عمارت ایک بھوت بنگلہ لگتی تھی۔ اس کی پارکنگ خالی اور راہداریوں میں ایک عجب خاموشی اور اداسی تھی۔ یہ بڑا ڈرائونا اور اکتا دینے والا منظر تھا۔ یہ منظر ٹورانٹو کے نواحی شہر مسی ساگا کا تھا، جو کورونا وائرس کے خوف اور لاک ڈائون کا نتیجہ تھا۔
اس ہفتے سے حکام نے لاک ڈائون میں کچھ نرمی کا اعلان کیا ہے۔ کچھ کاروباروں کو نئی شرائط اور نئے حفاظتی طریقے اپنا کر اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان میں گارڈن سنٹرز، نرسریاں، پارکس اور کچھ سٹورز شامل ہیں۔ گارڈن سنٹرز اور نرسریوں کا کاروبار ظاہر ہے موسمی ہے۔ طویل، سرد اور ڈپریسنگ موسم سرما کے دوران یہ کاروبار تقریباً بند ہوتے ہیں۔ موسم بہار کے آغاز پر یہ کاروبار شروع ہوتا ہے۔ لوگ طویل موسم سرما کی اکتاہٹ اور بوریت سے نکل کر ان نرسریوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں رنگ برنگے پھولوں اور سرسبز پودوں کی قطاریں سجی ہوتی ہیں؛ چنانچہ لاک ڈائون کے اس موسم میں یہ گارڈن سنٹرز اور نرسریاں کھلنے کے بعد اب سڑکوں پر کچھ چہل پہل نظر آرہی ہے۔ کم از کم لوگوں کو گھر سے نکل کر جانے کے لیے کوئی جگہ تو میسر آئی ہے۔ اس سے پہلے لوگوں کو یہ شکوہ تھا کہ گھر سے نکلیں بھی تو جائیں کہاں؟ شاپنگ سنٹرز، پارکس، دکانیں ہر چیز بند ہے۔ نرسریاں اور گارڈن سنٹرز کھلنے سے لوگ خوش ہیں کہ ہماری یہ بہار رائیگاں نہیں جائے گی۔ کچھ پھول اگائیں گے۔ کچھ پارکس میں چہل قدمی کریں گے۔ ورنہ لاک ڈائون کی وجہ سے اس سال عالم یہ تھا کہ بقول فیض؎
نہ گل کھلے ہیں، نہ ان سے ملے، نہ مے پی ہے
عجب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
لاک ڈائون میں نرمی کی وجہ یہ ہے کہ حکام کا خیال ہے کہ اس ملک میں وبا کی لہر پر قابو پا لیا گیا ہے۔ زندگی پہلے جیسی نارمل تو شاہد طویل عرصے تک یا کبھی بھی نہ ہو، لیکن جو ''نیا نارمل‘‘ ہے اس کے مطابق کاروبار زندگی کا دوبارہ آغاز کرنا پڑے گا‘ اور اب گارڈن سنٹرز اور نرسریوں کی طرح دوسرے کاروبار بھی بتدریج کھولے جائیں گے۔ تو گویا زندگی آہستہ آہستہ واپس معمول کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جب زندگی آہستہ آہستہ معمول کی طرف بڑھ رہی ہے، تو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں اس وبا کے پھیلنے، اس پر قابو پانے کے سلسلے میں ارباب اختیار کے کردار اور کارکردگی پر بھی بحث مباحثہ شروع ہو چکا ہے۔
مغرب میں عمومی نفسیات یہ ہے کہ یہاں پر کسی قدرتی آفت یا وبا کے وقت عموماً حزب مخالف یا عوام حکومت کی کارکردگی پر تنقید کے بجائے اس سے تعاون کرتے ہیں، تاکہ اس آفت یا وبا کے خلاف ایک مشترکہ اور متحدہ جنگ لڑی جا سکے‘ لیکن جب یہ طوفان گزر جاتا ہے، اور اس کی گرد بیٹھتی ہے، حالات معمول پر آتے ہیں تو پھر حکام کی کارکردگی پرغوروفکر اور بحث مباحثہ شروع ہوتا ہے۔ اس سلسلۂ عمل میں لوگ حکومت کے بارے میں ایک خاموش مگر حتمی رائے بناتے ہیں، اور شور شرابے کے بجائے بڑی خاموشی سے آئندہ انتخابات میں اس رائے کا واضح اظہار کرتے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے دوران مغرب کے سیاسی افق پر جو چہرے نظر آ رہے ہیں، آئندہ انتخابات کے بعد ان میں سے بیشتر چہرے سیاسی افق سے غائب ہو جائیں گے۔ حالانکہ اس وقت ان میں سے کسی ایک پر بھی کوئی سخت تنقید، ناقص کارکردگی یا کوتاہی کا الزام نہیں لگایا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ حکومتی اقدامات کی تحسین بھی کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب کی تقریباً تمام حکومتوں نے اپنے بس اور گنجائش سے بڑھ کر اقدامات کیے ہیں۔ کورونا حملے کے بعد عوام کو کسی قسم کے معاشی نتائج کی پروا کیے بغیر گھروں میں رہنے کی تلقین کی گئی۔ اس سلسلے میں عوام کو فکرِ معاش یا تنگ دستی سے بچانے کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔ کئی مغربی ممالک نے اربوں اور کھربوں ڈالرز عوام میں تقسیم کر دیے۔ عام آدمی کے علاوہ خوشحال طبقات، یعنی بڑے صنعتکاروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے بڑے کاروباروں کو بھی مختلف طرح کی سبسڈیز دیں‘ اور لاک ڈائون کی وجہ سے پیدا ہونے والی قانونی اور مالی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے خصوصی اعلانات کیے، اورآرڈیننس پاس کیے۔ اس باب میں حکومت کی تعریف و ستائش کے بعد کچھ لوگ اب بحیثیت مجموعی حکام کی کارکردگی اور اقدامات پر کچھ سنجیدہ سولات اٹھا رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کچھ حکومتوں نے کورونا خطرے کی سنگینی کا بروقت ادراک اور تدارک کرنے میں کوتاہی یا لاپروائی سے کام لیا ہے؟ یہ سوال اٹھانے والوں کا خیال ہے کہ دسمبر جنوری میں جب چین ووہان میں کورونا سے نبرد آزما تھا‘ اس وقت دوسرے ممالک میں حکام ایسے ضروری اقدامات کر سکتے تھے، جن کی وجہ سے دنیا اتنے بڑے جانی اور مالی نقصانات سے بچ سکتی تھی۔ اس سلسلے میں ایک تو مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے میں غلطی کی گئی‘ اور دوسرا اس مسئلے کی سنگینی ظاہر ہونے کے بعد بھی کوئی عملی اقدام کرنے میں کوتاہی اور تاخیر کی گئی۔ جیسا کہ انہی سطور میں ایک بار عرض کیا تھا کہ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری عالمی ادارۂ صحت کی تھی کہ وہ ابتدائی مراحل پر ہی دنیا کو اس وبا سے آگاہ کرتا اور حفاظتی اقدامات پر اصرار کرتا کیونکہ یہ عمل اس تنظیم کے بنیادی مینڈیٹ میں شامل ہے‘ مگر اس تنظیم نے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں بہت دیر کر دی۔ اس طویل تاخیر کے بعد تیس جنوری کو اس نے اس آفت کو عالمی وبا قرار دیا۔ اس کے بعد گیند مختلف ممالک کی حکومتوں کے کورٹس میں چلا جاتا ہے۔ اگر حکام تیس جنوری کے فوراً بعد چند معمولی اقدامات ہی کر لیتے تو تباہی اور بربادی کی شدت میں کمی آ سکتی تھی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسی وقت عوام کی دوسرے ممالک میں ''غیر ضروری‘‘نقل وحرکت پر پابندی لگا دی جاتی۔ اگر یہ مکمل پابندی بوجوہ ممکن نہیں تھی، تو اس نقل وحرکت کو کافی حد تک محدودکیا جا سکتا تھا۔ چین سے لوگوں کی آمدورفت کو مکمل طور پرکنٹرول کیا جاتا، اور ووہان سے آنے والے ہرشخص کے ٹیسٹ اور کورنٹین لازم قرار پاتے۔ سوال اٹھانے والے یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ووہان میں اتنے زبردست بحران کے باوجود اگر چین اس وائرس کو اپنے بڑے شہروں تک پھیلنے سے روکنے میں کامیاب رہا ہے، تو دیگرممالک نے چین کی اس حکمت عملی اور طریقۂ کار سے استفادہ کیوں نہیں کیا؟ اس معاملے میں اس قدر دیر کر دی گئی کے مغرب کے بیشتر بین الاقوامی ہوئی اڈوں پر مارچ کے آخر تک آنے جانے والے لوگوں کو ٹیسٹ نہیں کیا جاتا تھا، اور اگر کسی ہوائی اڈے پر کوئی کنٹرول تھا بھی تو وہ زیادہ تر چند سوال وجواب تک محدود تھا، جس میں لوگوں سے سرسری طور پر ان کی جائے آمدوروانگی وغیرہ پوچھی جاتی تھی، اور ظاہر ہے کچھ لوگ کورنٹین کے خوف سے ممکن ہے، ان سوالات کا درست جواب دینے سے گریز بھی کرتے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب میں کئی حکومتوں کی نسبت عوام زیادہ ہوشیار اور فکرمند تھے۔ کچھ مغربی ممالک میں عوام نے فروری کے شروع میں ہی بڑے پیمانے پر ماسک، اور سینی ٹائزر وغیرہ خریدنے شروع کر دیے تھے، جس کی وجہ سے یہ اشیا مارکیٹ سے غائب ہو گئی تھیں۔ دوسری طرف بیشتر حکومتوں نے اپریل کے وسط میں جا کر ان چیزوں کے بارے میں اقدامات شروع کیے۔ اس تاخیر کی وجہ سے کئی ممالک میں ڈاکٹرز اور نرسوں تک کو بھی ماسک اور سینیٹائزرز میسر نہ تھے، جس کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں چلی گئی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ کچھ لوگ یہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کورونا بحران کے باب میں اٹھائے گئے ان سوالات کا شاید موجودہ حکام کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکیں، لیکن یہ سوال اٹھانے کا یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ مستقبل میں کسی ایسے بحران کی صورت میں حکمران طبقات کا ردعمل مختلف ہوگا۔ اور مستقبل میں اہل حکم موجودہ تجربے کی روشنی میں کسی وبا کی صورت میں بلاتاخیر فوری اور ہنگامی اقدامات کریں گے۔