پاکستان میں چند برس قبل تبدیلی ایک معروف اور مقبول عام نعرہ بن گیا تھا۔ یہ ایک سیاسی نعرہ تھا، جو زبان زد عام ہو گیا۔ عموماً ایسے نعرے اقتدار تک پہنچنے کیلئے لگائے جاتے ہیں‘ لیکن اس کیس میں تبدیلی کا نعرہ برسراقتدار آنے کے بعد بھی لگتا رہا، اور اب بھی کسی نہ کسی شکل میں لگتا ہے۔
تبدیلی کی بات کرنے والے وہ ساری باتیں کہتے تھے، جو عوام سننا چاہتے تھے‘ جو برسہا برس سے غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف روپ دھار کر اقتدار میں آنے والی حکمران اشرافیہ نے اپنے اپنے انداز میں ان کی غربت کا ذکرکیا‘ اس کا اعتراف کیا‘ اور اس کو ختم کرنے کے وعدے کیے لیکن سب اپنی اپنی باری لگا کر یا پھر اپنی باری بہ امر مجبوری بیچ میں ادھوری چھوڑ کر رخصت ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ طویل عرصے سے چل رہا ہے۔
بیروزگاری عوام کا ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ یہ مسئلہ ہر سیاسی جدوجہد اور ہر انتخابی مہم میں نمایاں رہا ہے۔ ہر انتخاب میں عوام کو سماجی انصاف مہیا کرنے کے وعدے ہوتے رہے۔ سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ معاشی انصاف سیاست دانوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے؛ چنانچہ ہر منشور میں معاشی انصاف کے فارمولے پیش ہوتے رہے۔ ہر تقریر کا نقطۂ ماسکہ، سماجی و معاشی انصاف اور روزگار رہا‘ مگر ہر دور میں اس ملک میں سماجی و معاشی ناانصافیاں بڑھتی گئیں، اور لاکھوں لوگوں کے روزگار کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ کرپشن تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر نیا حکمران کرپشن کے خلاف ایک پروگرام لے کر آتا ہے، اور ہر نئے حکمران کے دور میں کرپشن پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ رشوت و سفارش کے خاتمے سے لے کر سستے انصاف کی فراہمی تک کتنے ہی وعدے ہیں، جو اقتدار کے خواہش مند نہیں کرتے، مگر شاید ہی کوئی وعدہ ایفا ہوا ہو۔
تبدیلی لانے کا سادہ زبان میں مطلب کیا ہے؟ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا الگ الگ مفہوم ہے۔ تعلیم کے شعبے میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس شعبے میں موجود خرابیوں پر اتفاق ہو۔ پاکستان میں گزشتہ ستر سال سے جو نظام تعلیم رائج ہے وہ مثبت نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران معیار تعلیم کئی گنا بہتر ہوا‘ اور دن بدن بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان ان معدودے چند ممالک میں شامل ہے، جہاں معیار تعلیم بہتر ہونے کے بجائے گرا‘ جس کی کئی وجوہ ہیں جیسے نصابِ تعلیم، درس و تدریس کا طریقہ کار، امتحانات کا نظام، زبان اور ذریعہ تعلیم۔ مطلب یہ کہ اگر معیار تعلیم میں اضافہ مقصود ہے تو سب سے پہلے نصاب تعلیم میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لانا ہوگی۔ پڑھنے اور پڑھانے کے طریقہ کار میں تبدیلی لانی ہو گی۔ فرسودہ امتحانی نظام کو بدلنا ہو گا۔ ذریعہ تعلیم پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ بچے اپنی مادری، علاقائی اور عالمی زبانوں کو ان کی عملی اہمیت اور افادیت کے مطابق سیکھ سکیں۔ یہ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ہیں، جن کے بغیر مثبت نتائج کی توقع فضول ہے۔ نظام تعلیم میں تبدیلی کا مطلب محض معیار تعلیم میں تبدیلی نہیں ہے۔ اس نظام کو اس طریقے سے استوار کرنے کی ضرورت ہے کہ عام آدمی کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے برابر مواقع مہیا ہوں۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں تبدیلی کے اپنے تقاضے ہیں۔ اس میں صحت کے شعبے میں مطلوب افراد کی تعلیم و تربیت سے لے کر وسیع پیمانے پر آلات، جدید مشینری اور عمارتوں تک کی ضرورت ہے۔ یہ ضروریات پوری کرنے کے لیے مادی وسائل کی ضرورت ہے۔ وسائل کے لیے حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جس میں تعلیم و صحت کو ترجیح دی جائے۔ یہ ترجیح اس بات کا تعین کرے گی کہ حکومت کس مد میں کتنے پیسے خرچ کرتی ہے۔ اس فارمولے کا اطلاق زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کسی قسم کی سنجیدہ تبدیلی کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی کوئی سیاسی پارٹی یا شخصیت اقتدار میں آنے کا خواب دیکھتی ہے تو اسے علم ہوتا ہے، اور علم ہونا چاہیے کہ اس ملک کے وسائل کیا کیا ہیں، اور وسائل کہاں کہاں اور کیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ ہم اقتدار میں آکر اپنے وسائل میں کیسے اضافہ کریں گے اور ان وسائل کو کس طرح اپنے پیشرو حکمرانوں سے مختلف اور منصفانہ انداز میں استعمال کریں گے۔ بیشتر کامیاب معاشروں اور ملکوں میں سیاست دانوں اور اقتدار کے خواب دیکھنے والوں کو اس کا علم ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ عوام سے کوئی بھی وعدہ اعدادوشمار کی روشنی میں کرتے ہیں۔ وسائل کو سامنے رکھ کر اپنے منصوبے پیش کرتے ہیں۔ وہ عوام کو واضح طور پر بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح کا بجٹ پیش کریں گے، وسائل کہاں سے لائیں گے اور کس مد میں کیا خرچ کریں گے۔ اس طرح نہ تو عوام کو کوئی جھوٹی آس ملتی ہے‘ نہ ہی سیاست دان وعدہ شکن قرار پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ہمارے سیاست دان پورے یقین اور اعتماد سے بتاتے ہیں کہ ان کے برسر اقتدار آتے ہی عوام کے تمام مسائل جادوئی انداز میں حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ وہ عوام کی بے صبری کی نفسیات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان کو یہ تک بھی بتاتے ہیں کہ وہ کتنے مکانات تعمیر کریں گے، اور کتنی تعداد میں روزگار پیدا کریں گے‘ اور جب وہ جیت کر آتے ہیں، لیکن جب حقائق کا سامنا کرتے ہیں تو عذر تراشی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ کہ ہم مقروض اور غریب ہیں، اور ہمارے پاس مطلوبہ وسائل نہیں ہیں، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، ہمیں خالی خزانے ملے ہیں‘ ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں، اس لیے اپنے وعدے پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انتخابات جیتنے سے پہلے حکمران طبقات ملکی وسائل کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم تھے یا وہ جان بوجھ کر اقتدار کی خاطر عوام کو جھوٹے خواب دکھا رہے تھے۔ کس ملک کے اوپر کتنے قرضے ہیں‘ اس کے پاس کتنے وسائل ہیں‘ وہ کس مد میں کیا خرچ کرتا ہے؟ اس میں کوئی چیز راز یا خفیہ نہیں ہوتی۔ یہ پبلک ریکارڈ کی معلومات ہیں، جن تک ہر خاص و عام کو رسائی ہوتی ہے۔ یہ بات مانی نہیں جا سکتی کہ ایک سیاسی پارٹی اقتدار کے حصول کی جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے، اور اس کے لیڈروں کو یہ نہیں پتہ کہ ملک کے وسائل کیا کیا ہیں، اور اس وسائل سے ملک میں کیا کیا تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ جو کچھ عوام کے ساتھ گزشتہ ستر سال سے ہو رہا ہے یہ ناگزیر نہیں ہے، یا عوام کا مقدر نہیں ہے۔ یہ ایک غلط عمل ہے، جس سے نکلنے کے کئی طریقے ہیں۔ اس سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر مختلف امیدواروں کے درمیان باقاعدہ انتخابی مباحثوں کا آغاز کیا جائے۔ ان مباحثوں میں ان سے وسائل اور مسائل کے حوالے سے اعدادوشمار کی روشنی میں سوالات کیے جائیں تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ ان کے رہنما کوئی دعویٰ یا وعدہ کس بنیاد پر کر رہے ہیں، اور وہ ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل کہاں سے لائیں گے۔ اس باب میں عوامی اخلاقیات اور اخلاقی معیار میں بہتری کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنا برا نہیں سمجھتے۔ اگر ہم اپنے اخلاقی معیار اور اخلاقی تعلیم میں اتنی بہتری لا سکیں کہ عوامی سطح پر جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی اور بے بنیاد دعوے کو اخلاقی طور پر سنگین جرم تصور کیا جائے تو عوام برسہا برس سے جس دھوکے کا شکار ہیں، اس سے ان کو چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ دوسری طرف ارباب اختیار کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بقول شخصے ٹوٹے ہوئے وعدے کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ہوتے ہیں، جو وعدہ توڑنے والے کے ہاتھ زخمی اور اس کا امیج تباہ کر دیتے ہیں۔