حالیہ امریکی انتخابات کو پوری دنیا میں گہری دلچسپی سے دیکھا گیا ۔ دنیا کا ہر ملک امریکی انتخابات کے نتائج سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتا ہے؛ چنانچہ ان انتخابات میں عالمی دلچسپی ایک فطری بات ہے۔ عالمی دنیا میں سب سے بڑھ کر عوامی جمہوریہ چین نے ان انتخابات کو گہری نظر سے دیکھا ہے حالانکہ چینی پالیسی ساز اور تجزیہ کار یہ جانتے ہیں کہ چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا تعین ان کے درمیان معاشی اور سٹریٹیجک مقابلہ ہی کرے گا۔ اوراس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امریکہ میں کرسی صدارت پر کون بیٹھا ہے۔ لیکن وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو بائیڈن کی جیت سے امریکا اور چین کے درمیان تناؤ اگر مکمل طور پرختم نہیں ہوتا تو کم ضرور ہوگااور جو بائیڈن کے دور میں دونوں ملک اس خطرناک تصادم سے بچ سکتے ہیں جس کی طرف وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھ رہے تھے۔
چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات صدر ٹرمپ کے عہد میں بُرے طریقے سے متاثر ہوئے۔دونوں ملکوں کے تعلقات میں شدید تناؤ کی ایک بڑی جھلک ان کے تجارتی تعلقات میں تو صاف نظر آتی ہے ‘ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کے درمیان ایک سٹریٹیجک تناؤبھی نظر آتا ہے‘ جو ایک خوفناک تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ٹرمپ اور ان کے رفقاکی طرف سے الزام تراشی کے ایک مسلسل عمل نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ؤں کو بہت ناراض کیا ہے کیونکہ چین کے خلاف نسل پرستانہ اور توہین آمیز زبان استعمال کی جاتی رہی۔ اس صورتحال کا عکس چین کے ذرائع ابلاغ میں واضح طور پر نظرآرہا تھا۔ صرف چین کے سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے اخبارات کے ایڈیٹوریل صفحات پر بھی یہ عکس دیکھا جا سکتاتھا۔ صدر ٹرمپ کی ہار اور جو بائیڈن کی جیت کے بعد اس صورتحال میں واضح تبدیلی آتی دکھائی دیتی ہے۔ اب میڈیا پرجو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ مختلف ہے؛ تاہم اگر ہم ماضی پر ہلکی سی نظر ڈالیں تو یہ دیکھ سکتے ہیں کہ چند برس قبل جب صدر ٹرمپ منتخب ہوئے تھے تو اس وقت بھی بیجنگ میں رد عمل بہت ہی زیادہ پرجوش اور مثبت تھا۔ چین کے بہت سے رہنماؤں کا یہ خیال تھا کہ وہ بزنس پرسنز کی حیثیت سے صدر ٹرمپ کے ساتھ بہت سے معاملات آسانی سے طے کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ محض خام خیالی ثابت ہوئی۔ اس تلخ تجربے کی روشنی میں اب چین کے سنجیدہ حلقے امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے باب میں خوش فہمی کے ساتھ ساتھ محتاط رویہ اپنا رہے ہیں۔ صد ٹرمپ چین کے خلاف جا رحانہ پالیسی کے ساتھ کافی آگے جا چکے تھے۔ یہ پالیسی اگر بدل جائے تو بھی اس پالیسی کے اثرات آنے والے ماہ و سال میں دکھائی دیتے رہیں گے‘ مگر ان پالیسیوں میں ایک واضح قسم کی تبدیلی کے بغیر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینا آسان نہیں ہوگا۔ امریکہ کے انتخابی نتائج کے حوالے سے پوری دنیا کی کوئی نہ کوئی پسند یا ناپسند تھی‘ اور ہمیشہ رہی ہے۔ بعض ممالک نے اپنی پسند اور ناپسند کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔ اس کے برعکس چینی لیڈر ہر اس معاملے پر اپنی پسند یا ناپسند کے اظہار سے گریز کرتے رہے ہیں اور اس وقت بھی اس پالیسی کا تسلسل برقرار ہے‘ لیکن وہ امریکی پالیسیوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتے۔اس کی ایک مثال تائیوان کی طرف امریکی پالیسیاں اور اقدامات تھے ۔ صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ نے 2018ء اور 2019ء میں تائیوان ٹریول ایکٹ پاس کیا۔ امریکا کے اس طرح کے اقدامات سے چین کے اندر یہ خوف پیدا ہوا کہ امریکا تائیوان کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے امریکہ سے ناراضگی اورناپسندیدگی کا واضح اظہار کیا۔ چینی حلقوں کا خیال تھا کہ امریکا وہ راستہ اختیار کر رہا ہے جواس نے 80ء اور 90 ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا تھا۔جواب میں شی جن پنگ نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ چین جنگ روکنے کیلئے جنگ کے لیے تیارہے ۔
امریکا اور چین کے درمیان تعلقات کی موجودہ نوعیت کیا ہے ؟ انتخابات کے دوران مختلف امیدوار اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینے میں ناکام رہے ہیں کہ کیاوہ چین کو اپنا مد مقابل‘ حریف یا دشمن سمجھتے ہیں۔جہاں تک نو منتخب صدر کا تعلق ہے تو وہ اس باب میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو ناکام قرار دے چکے ہیں۔ وہ اس بات کا بھی برملا اظہار کر چکے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی تصادم کی پالیسی کو جاری نہیں رکھیں گے۔ دو بڑی طاقتوں کے رہنماؤں کے درمیان ذاتی کیمسٹری ہوسکتا ہے کہ کوئی بڑا عنصر نہ ہو ‘ لیکن شی جن پنگ اور جو بائیڈن ایک دوسرے سے جوتعلق رکھتے ہیں وہ ماضی میں بہت پیچھے تک جاتا ہے۔ وہ کئی خوشگوار ملاقاتیں اور طویل بات چیت کر چکے ہیں‘لیکن چین کے اندر اس وقت یہ تاثر کافی پختہ ہو چکا ہے کہ امریکہ کی پوری توجہ کا نقطہ ماسکہ چین کوبطورسپرپاور دنیا کے سٹیج پرابھرنے سے روکنا ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی معاشی اور تکنیکی کامیابیوں کے راستے میں رکاوٹ بننا ہے۔ چین کے خیال میں اس سوچ کی موجودگی میں تعلقات کو نیا خوشگوار موڑ دینا بہت مشکل ہے۔ دوسری طرف چینی امریکا کے بار بار دہرائے جانے والے اعتراضات کو تسلیم کرنے یا ان کی حقانیت سے یکسر انکاری ہیں۔ اس میں امریکہ کا پہلااعتراض یہ ہے کہ چین کی عالمی معاشی اور تکنیکی پریکٹسز غیر اخلاقی ہیں اور ایشیا پیسیفک میں چین کا رویہ جارحانہ ہے۔ دوسری طرف امریکہ میں عوام کے اندر بھی چین کے خلاف ایک سوچ موجود ہے جو خوشگوار تعلقات کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ جوبائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی کردار کو دوبارہ اجاگر کرنے کا وعدہ کیا ہے؛ چنانچہ ان کے لیے مستقبل میں ہانگ کانگ اورتائیوان میں انسانی حقوق کے حوالے سے خاموش رہنا مشکل ہوگا۔ چین اس باب میں ایک واضح قسم کا مؤقف اختیار کر چکا ہے جس میں نرمی پیدا کرنا شاید اس کے لیے ممکن نہ ہو۔ چین ان علاقوں میں بے چینی کو قومی خودمختاری‘ علاقائی سالمیت اور داخلی استحکام کے خلاف قرار دیتا ہے۔ ان بڑے اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کو ایسے مسائل بھی درپیش ہیں جن پر یہ مل جل کر کام کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ان میں وبا کی دوران اور اس کے بعد میں گلوبل پبلک ہیلتھ‘ دہشت گردی ‘ سائبر سکیورٹی اور عالمی سطح پر معاشی اور مالی استحکام شامل ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جو چین اور امریکہ کے درمیان مشترکہ ہیں۔ اور ان مشترکہ معاملات کی بنیاد پر ان کے درمیان ایک نئے تعلق کا آغاز ہو سکتا ہے۔ چین کی جانب سے جو بائیڈن کی انتخابی برتری پر بڑا محتاط ردعمل ظاہر کیا گیا ہے ۔ چین ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے سب سے آخر میں نو منتخب امریکی صدر کو کامیابی کی مبارکباد دی۔ اس میں بھی الفاظ کا بڑا محتاط چناؤ واضح طور پر سامنے آتا ہے‘ جو کہ چینی سفارتی لب و لہجے کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔ بہرکیف چینی ردعمل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بائیڈن کی جیت پر جذباتی نہیں ہیں ‘ جیسا کہ دنیا کے کئی دیگر ممالک ہو جاتے ہیں اور اس بار یہ طرف داری کچھ زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آ رہی تھی۔ چینی رویے سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ بائیڈن کے جانب دیکھیں گے اور انتظار کریں گے؛ تاہم نئی امریکی قیادت کے مقابل چین اپنے پتے اس وقت تک چھپا کر رکھے گا جب تک امریکی اپنے پتے ظاہر نہیں کر دیتے‘ اور اس کے لیے شاید دنیا کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے کیونکہ امریکہ چین معاملے میں امریکی پالیسی کا جذباتی پن زیادہ دیر چھپائے نہیں چھپتا ۔