ہم ڈیجیٹل دور کے لوگ ہیں۔ ڈیجیٹل دورکو انفارمیشن دور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دورپوری دنیا کے لیے کوئی نیا دور نہیں ہے۔ بنیادی طور پریہ 70 ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔ اس کا آغاز دنیا کے کچھ ممالک میں پرسنل کمپیوٹر متعارف کروانے سے ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرسنل کمپیوٹر کے علاوہ ٹیکنالوجی کے دیگرجدید ذرائع متعارف ہوتے رہے ‘ جن کے ذریعے معلومات کو آسانی اور تیز رفتاری سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ 90 ء کی دہائی میں انٹرنیٹ عام ہو جانے سے اس میدان میں انقلاب آگیا۔ پھراس صدی کے پہلے عشرے میں سمارٹ فون آیاجس نے اس میدان میں انقلاب برپا کر دیا اور لوگ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی جیب میں اور ہاتھ میں لے کر گھومنے لگے۔ عالمی مالیاتی بحران کے بعد عالمی سطح پر ڈیٹا ٹرانسفر یا اعداد و شماراور معلومات کی منتقلی کا ایک دھماکا خیزکام شروع ہوا۔ یہ کام اتنی برق رفتاری سے ہوا کہ دوسرے ممالک سے اعداد و شمار کا بہاؤ 2008ء سے 2020ء تک تقریباً 112 گنا بڑھ گیا۔
آج یہ عالم ہے کہ عالمی معیشت ڈیٹا‘اعداد و شماراور معلومات کی مشین بن چکی ہے۔ وہ معلومات کواستعمال کرتی ہے ‘ اس پر عملدرآمد کرتی ہے اور اس کو کہیں زیادہ مقدار میں پیدا بھی کرتی ہے۔ ڈیٹا میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز نے کچھ معاملات میں گڈز اینڈ سروسز یعنی سامان اور خدمات کے روایتی انداز کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ ڈی وی ڈی کے ذریعے فروخت ہونے والی فلمیں ‘ اب ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر میسر ہیں۔ خبریں ‘ کتابیں اور تحقیقی مقالے آن لائن استعمال ہوتے ہیں۔ کاروں میں صرف انجن ہی نہیں پیچیدہ الیکٹرانکس اور سافٹ ویئر بھی موجود ہیں جو بڑے پیمانے پر ڈیٹا حاصل کرتے ہیں۔ سامان میں تجارت بھی ڈیجیٹل آلات اور پروگراموں کے ساتھ ہوتی ہے جو شپنگ کنٹینرز کو ٹریک کرتے ہیں ‘ ڈیٹا تیار کرتے ہیں اور کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں اور اب کووڈ 19 نے کاروباروں کے ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہونے کے عمل کو تیز کیا ہے اور تجارت کے علاوہ بھی زندگی کی تقریبا ًتمام سرگرمیوں کوہی سائبر دنیا میں دھکیل دیا ہے۔
آنے والے وقتوں میں ڈیجیٹل تجارت اور عالمی سطح پر ڈیٹا کا بہاؤ سست ہونے کے بجائے تیز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ 2018ء میں دنیا میں تقریباً 330 ملین افراد نے دوسرے ممالک سے آن لائن خریداری کی۔ اس طرح کی ہر ایک خریدداری میں اعداد و شمار کی سرحد پار اور سمندر پار ترسیل شامل ہے۔ ان سرگرمیوں سے دنیا میں ای کامرس 25.6 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئی حالانکہ ابھی تک دنیا کا صرف 60 فیصد حصہ آن لائن ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ترقی پذیر دنیا کی تیزی سے پھیلتی ہوئی آبادیوں میں جب تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی ہوتی ہے تو کتنا ڈیٹا بڑھتا جائے گا۔ فائیو جی وائرلیس ٹیکنالوجی بجلی کی غیر معمولی رفتار سے اعداد و شمار کو منتقل کرنے کی اجازت دیتی ہے اورانٹرنیٹ کے ذریعے مشین سے مشین تک کے مواصلات کے عمل کو ڈرامائی طور پر بڑھاتی ہے ۔
70 ء کی دہائی میں پرسنل کمپیوٹر کے استعمال کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً نصف صدی کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن یہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ ممالک ابھی تک ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی برکات سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ پرانے اور فرسودہ نظام سے جڑے ہیں۔ موجودہ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری کا فریم ورک 75 سال قبل ایک بہت ہی مختلف وقت میں تیار کیا گیا تھا۔ مانا کہ بعض ملکوں میں اس نے خوشحالی اور سلامتی کو ترقی دی۔ لاکھوں افراد کو غربت سے نکالنے میں مدد کی اور ایک وسیع تر معاشی نظام کے تحت جمہوریت ‘ تجارت اور انفرادی حقوق کی حوصلہ افزائی کی لیکن یہ نظام سماج میں عدم مساوات اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی نا ہمواریاں ختم کرنے میں ناکام رہا ۔ یہ نظام آج عالمی تجارت و سیاست کی حقیقتوں کے تناظر میں کافی نہیں ہے۔
ہمارے ہاں دور دراز کے عوام ابھی تک جدید ٹیکنالوجی سے دور ہیں۔ مثال کے طور پر آزاد کشمیر کا علاقہ جہاں کی بہت بڑی آبادی سمندر پار رہتی ہے اور اس وجہ سے یہاں کی آبادی کے پاس دنیا سے جڑنے‘ روزگار حاصل کرنے یا تجارت کرنے کے موقع زیادہ ہیں‘ مگر یہاں تیز رفتار انٹرنیٹ اور قابلِ بھروسہ بجلی کا فقدان ہے‘ جس کی وجہ سے وہ لوگ ان سہولتوں سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس دوڑ میں اتنا پیچھے رہ جانے کا اصل سبب وسائل کی کمی نہیں تھی‘ جو عموماً تیسری دنیا کے ناکام اور نااہل حکمرانوں کا جانا پہچانا بہانہ رہا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے کھلے ذہن سے جدید دیجیٹل پالیسی اپنانے میں ناکامی تھی۔ اس کی وجہ صرف حکمران طبقات کی نااہلی ہی نہیں بلکہ سماج میں مروجہ طاقت ور مائنڈ سیٹ بھی ہے جو ہر قسم کی جدت اور تبدیلی سے خوف زدہ ہے اور اس کے راستے میں رکاوٹ رہا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ رکھنے والے سماج تاریخ کے نازک ترین لمحات سے گزر رہے ہیں کیونکہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے لیے تیار نہ ہونے کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں ایک بار پھر ان کے پیچھے رہ جانے کے امکانات ہیں‘ جیسے آج 70 سال پیچھے ہیں‘ یہ فرق سو سال تک بڑھ جائے گا۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی بذاتِ خود ترقی اور کامیابی کی ضمانت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایک خاص قسم کا سماجی اور معاشی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان ممالک میں گہری عدم مساوات ہے۔ ٹیکنالوجی خود کار طریقے سے اس عدم مساوات کو ختم نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس اس کو بڑھاوا دیکر مزید گہرا کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ارباب ِاختیار کو شعوری کوشش اور ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعے معاشرے کے کم خوش قسمت طبقات کو ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے مواقع مہیا کرنے پڑتے ہیں۔ ایک روشن مستقبل کا مشترکہ وژن دینا پڑتا ہے۔ مساوات پر مبنی نیا نظام لانا پڑتا ہے‘ جس میں سماج کے کمزور اور کم خوش قسمت طبقات کو شامل کیا جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے استعمال سے عوام کی زندگی میں تیز رفتار تبدیلی آتی ہے‘ اس لیے عوام کو دیجیٹل مستقبل کا مرکز بنانا ضروری ہے۔ سماجی و معاشی تبدیلی میں عوام کو مرکز بنائے بغیر تبدیلی لانے سے سماجی بے چینی لازم ہے۔ اس کے لیے ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے جن سے عام عوام کو تبدیلی سے فائدہ ہواور ان کو ٹیکنالوجی کے پوشیدہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔ ٹیکنالوجی ہر کسی کی ترقی کی ایک قوت ہے‘ اس لیے اس کا ہر کسی تک پہنچنا ضروری ہے۔ عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ان کی بات سنی جا رہی ہے‘ان کی تعلیم‘ تربیت اور مہارت میں اضافے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں‘ ان پر اعتماد کیا جا رہا ہے‘ اور اس عتماد کی بنیاد پر ان کو اس قابل سمجھا جا رہا ہے کہ وہ فائیو جی جیسی تیز رفتار ٹیکنالوجی کے ذریعے آزادی سے پوری دنیا سے جڑ سکتے ہیں‘ ان سے مکالمہ کر سکتے ہیں‘ تبادلہ خیالات کر سکتے ہیں‘ اپنی خدمات دے سکتے ہیں‘ تجارت کر سکتے ہیں‘ ذاتی اور سماجی رابطے بنا سکتے ہیں۔ یہ آزادی اور سہولت دینے سے ان کی حب الوطنی پر فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اس عمل سے کسی ملک کی سلامتی اور سالمیت پر کوئی اثر پڑتا ہے۔