اب چین کی طرف آزادانہ تجارت اور کھلے دل کی خوبیاں بیان کرنے کے بجائے، اسٹیبلشمنٹ نے ایک نئی سرد جنگ کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ہے، اور چین کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وجود کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ ہم سیاست دانوں اور فوجی صنعتی کمپلیکس کے نمائندوں کو پہلے ہی اسے بڑے دفاعی بجٹ کا تازہ ترین بہانہ بنا کر پیش کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اس نئے اتفاق رائے کو چیلنج کرنا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پرانے اتفاق رائے کو چیلنج کرنا ضروری تھا۔ چین کی متعدد پالیسیاں اور طریقہ کار قابل اعتراض ہو سکتے ہیں۔ ان کاموں میں ٹیکنالوجی کی چوری، کارکنوں کے حقوق اور پریس کو دبانے، تبت اور ہانگ کانگ میں ہونے والے معاملات، تائیوان کے ساتھ سلوک، اور چینی حکومت کی ایغور عوام کے بارے میں پالیسیاں اور اس طرح کے دوسرے امور شامل ہیں۔ امریکہ کو چین کے عالمی عزائم کے بارے میں بھی فکرمند رہنا چاہئے۔ امریکہ کو چینی حکومت کے ساتھ دو طرفہ بات چیت اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جیسے کثیر جہتی اداروں میں بھی ان مسائل پر بات جاری رکھنا چاہئے۔ یہ نقطہ نظر کہیں زیادہ معتبر اور موثر ہو گا، اگر امریکہ اپنے حلیفوں اور شراکت داروں کے بارے میں انسانی حقوق کے حوالے سے مستقل موقف برقرار رکھتا ہے۔
چین کے ساتھ تصادم کے ارد گرد خارجہ پالیسی کو منظم کرنا، سیاسی طور پر خطرناک اور سٹریٹیجک اعتبار سے نقصان دہ ہو گا۔ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے جلد بازی میں دشمنی اور خوف کی فضا پیدا کرنے سے اجتناب ضروری ہے‘ جس طرح نائن الیون حملوں کے نتیجے میں ''عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے لیے امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے جلدی سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ دہشت گردی کو امریکی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی توجہ کا مرکز بننا چاہیے۔ ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ عجلت میں قومی اتحاد کا استعمال لا متناہی جنگوں کے لیے کیا گیا، جو انسانی، معاشی، اور تزویراتی لحاظ سے بہت زیادہ مہنگا ثابت ہوا اور اس نے امریکی سیاست میں زینو فوبیا اور تعصب کو جنم دیا۔ اس کا نتیجہ امریکہ کی مسلم اور عرب برادری کو برداشت کرنا پڑا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آج چین کے بارے میں خوف و ہراس پھیلانے والے ماحول میں، ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت امریکہ حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ تقسیم ہے‘ لیکن پچھلی دو دہائیوں کے تجربے سے ہم پر یہ واضح ہو جانا چاہئے تھا کہ امریکیوں کو دشمنی اور خوف کے تحت قومی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کے فتنہ کے خلاف مزاحمت کرنی ہو گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بجا طور پر آمریت کے عروج کو جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ تسلیم کیا ہے؛ تاہم، جمہوریت اور آمریت کے مابین بنیادی کشمکش ممالک کے مابین نہیں بلکہ ان کے اندر ہی چل رہی ہے‘ اور اگر جمہوریت کی جیت ہو گی تو یہ روایتی میدان جنگ میں نہیں، بلکہ یہ ثابت کرنے سے ہو گی کہ جمہوریت حقیقت میں لوگوں کے لیے آمریت پسندی سے بہتر معیار زندگی فراہم کر سکتی ہے۔ اسی لیے ہمیں محنت کش خاندانوں کی طویل نظر انداز کردہ ضروریات کوپورا کر کے لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال کرنا ہو گا، اور امریکی جمہوریت کو زندہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے گرتے ہوئے انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لاکھوں اچھی ادائیگی والی ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی۔ ہمیں صحت کی دیکھ بھال، رہائش، تعلیم، انصاف، امیگریشن، اور بہت سارے دوسرے شعبوں میں جن بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ ان کو دور کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ کام نہ صرف اس لیے کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں چین یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ زیادہ مقابلے کے قابل بنائے گا بلکہ اس لیے کہ یہ عوام کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرے گا۔
اگرچہ امریکی حکومت کی بنیادی تشویش امریکی عوام کی سلامتی اور خوش حالی ہے، لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ ہماری باہم جڑی ہوئی دنیا میں، ہماری سلامتی اور خوش حالی ہر جگہ لوگوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ ہم پوری دنیا میں معیار زندگی بلند کرنے اور معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے دوسری دولت مند اقوام کے ساتھ مل کر کام کریں۔ وہ خوفناک معاشی عدم مساوات آمرانہ طاقتیں اپنی سیاسی طاقت بنانے اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر جگہ جس کو استحصال کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
صدر بائیڈن انتظامیہ نے کم از کم عالمی کارپوریٹ ٹیکس پر زور دیا ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے‘ لیکن ہمیں اس سے بھی بڑا سوچنا چاہئے۔ ہمیں عالمی سطح پر کم سے کم اجرت کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، جو دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ہمیں لاکھوں افراد کو مہذب، وقار بخش زندگی کا موقع فراہم کرنے اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی دنیا کی انتہائی محتاج آبادی کا استحصال کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے کے لیے فکرمند ہونا چاہیے۔ غریب ممالک کو عالمی معیشت میں ضم ہونے کے ساتھ ہی ان کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے میں مدد کے لیے، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دیگر امیر ممالک کو پائیدار ترقی میں اپنی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کرنا چاہئے۔ امریکی عوام کے پھلنے پھولنے کے لیے دنیا بھر کو یہ یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ان کا حلیف ہے اور ان کی کامیابیاں ہماری کامیابیاں ہیں۔
بائیڈن عالمی سطح پر ویکسین کے لیے چار بلین ڈالرکی امداد فراہم کر کے، دنیا کے ساتھ 500 ملین ویکسین کی خوراکیں بانٹ کر، اور عالمی تجارتی تنظیم کی دانشورانہ املاک کی چھوٹ کی پشت پناہی کے ذریعے بالکل صحیح کام کر رہے ہیں، جو غریب ممالک کو خود سے ویکسین تیار کرنے کے قابل بناتا ہے۔ چین ویکسین فراہم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے اعتراف کا مستحق ہے، لیکن امریکہ اس سے بھی زیادہ کام کر سکتا ہے۔ جب دنیا بھر کے لوگ امریکی پرچم دیکھتے ہیں، تو اسے زندگی بچانے والے امدادی پیکیجوں کے ساتھ جڑا ہونا چاہئے، ڈرون اور بموں سے نہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور چین‘ دونوں میں محنت کش لوگوں کے لیے حقیقی سلامتی اور خوش حالی پیدا کرنا یکساں طور پر ایک متوازن عالمی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کرتا ہے، جو کارپوریٹ لالچ اور عسکریت پسندی کے مقابلے میں انسانی ضروریات کو ترجیح دیتا ہو۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالرز کارپوریشنوں اور پینٹاگون کے حوالے کرنا، اور متعصبانہ جذبات کو ہوا دینے کا عمل ان مقاصد کو پورا نہیں کر سکے گا۔
امریکیوں کو چین کے بارے میں کسی مغالطے کا شکار نہیں رہنا چاہئے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ امریکی عوام کی عالمی اقدار کو مضبوط بنانے میں دلچسپی ہے، جو امریکہ، چین اور پوری دنیا میں تمام لوگوں کے حقوق اور وقار کا احترام کر سکے؛ تاہم، مجھے خدشہ ہے کہ چین کے ساتھ محاذ آرائی کے لیے بڑھتے ہوئے دو طرفہ قدموں سے دونوں ممالک میں آمرانہ، تنگ نظر قوم پرست قوتوں کو تقویت ملے گی۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی، وبائی امراض اور جوہری جنگ لانے والی تباہی جیسے حقیقی خطرے سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات سے بھی توجہ ہٹائے گی۔
برنی سینڈرز کا استدلال ہے کہ دنیا کو چین کے خلاف سرد جنگ میں گھسیٹنے کے بجائے باہمی تعاون اور تفہیم سے ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں، جو دنیا میں خوفناک معاشی عدم مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی کے گمبھیر مسائل سے نکلنے میں معاون ثابت ہوں۔ سنیڈرز کے خیالات سے کینیڈا جیسے ترقی یافتہ اور پاکستان و بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک یکساں طور پراستفادہ کر سکتے ہیں۔