کچھ دن پہلے انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ صدر کینیڈی کے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد مسئلہ کشمیر پر صدر ایوب خان سخت قسم کی بے چینی اور پریشانی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ مسئلہ کشمیر اور پاکستان انڈیا تعلقات کے باب میں ان کے ذہن میں کئی قسم کے خوف اور اندیشے سر اٹھا رہے تھے۔ مستقبل میں پیدا ہونے والی کسی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے انہوں نے کچھ پیشگی اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے۔ ان اقدامات میں امریکی حکام سے خط و کتابت کے علاوہ صدر کینیڈی کے ساتھ ''ون ٹو ون‘‘ ملاقات کے لیے وقت مقرر کرنے کی کوششیں بھی شامل تھیں۔ اس وقت صدر ایوب کی واحد تشویش مسئلہ کشمیر نہیں تھا، بلکہ ان کی اس سے بھی بڑی تشویش یہ تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکہ اپنی نئی پالیسیوں کے تحت پاکستان کو سوویت یونین کے سامنے تنہا اور بے یارومددگار چھوڑ دے۔ اس سلسلے میں راست اقدام کے لیے امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے سمیت دیگر تمام سفارتی ذرائع اور با اثر شخصیات کو سرگرم کردیا گیا‘ جس کے نتیجے میں صدر ایوب خان کی صدر کینیڈی کے ساتھ ملاقات کے لیے امریکی نائب صدر لنڈن جانسن سمیت دیگر اہم شخصیات سے بات چیت شروع ہو گئی۔ اس دوران صدر ایوب خان اور پاکستانی سفارتی حلقوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ صدر کینیڈی کی قیادت میں امریکہ واضح طور پر بھارت کی طرف جھک رہا ہے۔
امریکہ کے ایک قریب ترین اتحادی کی حیثیت سے صدر ایوب خان کے لیے یہ بات نا قابل برداشت تھی۔ انہوں نے سفارتی ذرائع میں اپنی بات رکھنے کے علاوہ چند دیگر ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے امریکہ کو صدر ایوب خان کی بات پر دھیان دینا پڑا۔ امریکی سی آئی اے ان دنوں تبت میں باغیوں کی مدد کے لیے ایک خفیہ آپریشن چلا رہی تھی۔ صدر ایوب خان نے اس آپریشن کے ساتھ تعاون ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ سفارتی ذرائع سے ہٹ کر پس پردہ پاکستان کی طرف سے امریکی طرز عمل پر ایک سخت عملی احتجاج اور ناراضی کا اظہار تھا۔ یہ ایسا قدم تھا، جس کی وجہ سے امریکی بھی محسوس کرنے لگے کہ صدر ایوب خان کی صدر کینیڈی کے ساتھ فوری ملاقات ناگزیر ہو گئی ہے؛ چنانچہ اس ملاقات‘ جو ابتدائی طور پر نومبر میں طے کی گئی تھی، کے جلدی انعقاد کے لیے وقت بدلا گیا، اور یہ ملاقات جولائی میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ملاقات کی نئی تاریخ گیارہ جولائی انیس سو اکسٹھ طے پائی۔
یہ ایک غیر معمولی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات امریکہ کے پہلے صدر سر جارج واشنگٹن کے گھر میں ہونے کی وجہ سے تاریخی حیثیت بھی اختیار کر گئی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی تھی جب امریکی سی آئی اے پاکستان سے ''یوٹو‘‘ جاسوس طیاروں کے ذریعے چین اور سوویت یونین پر نظر رکھے ہوئے تھی‘ اور یہ ایک ایسا نازک وقت تھا، جب سی آئی اے تبت میں چین کے خلاف لڑاکا باغیوں کو خفیہ امداد فراہم کر رہی تھی۔ یہ کمیونسٹ چین اور سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے لیے اہم سرگرمیاں تھیں۔ ان سرگرمیوں میں کسی قسم کا رخنہ امریکہ کے لیے بڑا مسئلہ بن سکتا تھا؛ چنانچہ اس ملاقات کے دوران سی آئی اے کے ڈائریکٹر ایلن ڈولس کی درخواست پر صدر کینیڈی صدر ایوب خان کو جارج واشنگٹن کے باغ میں چہل قدمی کے لیے لے گئے۔ باغ میں ٹہلتے ہوئے صدر کینیڈی نے صدر ایوب خان سے درخواست کی کہ وہ تبت کے لیے سی آئی اے کی سپلائی پروازوں کو بحال کر دیں۔ صدر ایوب نے جواباً یہ کڑی شرط رکھی کہ امریکہ مستقبل میں پاکستان کو پیشگی کنسلٹ کیے بغیر بھارت کو کسی قسم کا کوئی فوجی سازوسامان نہیں دے گا۔ یہ بہت بڑی شرط تھی، مگر صدر ایوب خان اس وقت حیران رہ گئے، جب صدر کینیڈی نے ان کی شرط فوراً مان لی۔ اس طرح اعتماد کی فضا پیدا ہوئی، جس میں دیگر مسائل بھی ایک ایک کرکے زیر بحث آنے لگے۔ اس ملاقات میں مسئلہ کشمیر پر صدر کینیڈی نے صدر ایوب خان کو یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں ذاتی کردار ادا کریں گے، جس سے صدر ایوب خان کے اندیشوں میں قدرے کمی واقع ہوئی‘ لیکن آگے چل کر حالات نے بالکل ہی ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔
اگلے سال عین اس وقت جب امریکہ کیوبن میزائل کرائسس میں بری طرح پھنسا ہوا تھا، چین نے انڈیا پر حملہ کر دیا۔ اس طرح صدر کینیڈی کو دنیا کے دو کناروں پر سخت قسم کے نئے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے چینی حملے کی وجہ سے امریکہ سے فوجی مدد کی درخواست کر دی۔ ان حالات میں صدر کینیڈی نے صدر ایوب خان سے کیا گیا وعدہ نظر انداز کرتے ہوئے فوری طور بھارت کے لیے بہت بڑے پیمانے پر فوجی امداد کا اعلان کر دیا۔ یہ بلاشبہ صدر ایوب خان کے لیے پریشان کن بات تھی لیکن اس سے بھی بڑی بات جو صدر ایوب خان اور پاکستانی حکام کے لیے ناقابل برداشت تھی، وہ یہ تھی کہ صدر کینیڈی نے یہ واضح کیا کہ پاکستان اس وقت بھارت اور چین کی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر اگر کشمیر میں کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کرے گا تو امریکہ اسے برداشت نہیں کرے گا۔
امریکہ کے سخت الفاظ میں اس واضح پیغام نے پاکستان کے ارباب اختیار کی آنکھیں کھول دیں، اور انہوں نے امریکہ سے بطور اتحادی جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں وہ زمین بوس ہو گئیں۔ دوسری طرف انیس سو باسٹھ کی اس انڈو چین جنگ کے نتائج بھارت اور اس کی فوج کے لیے بھی بڑے خوفناک اور تکلیف دہ ثابت ہوئے۔ بھارت کی شکست کو دیکھ کر صدر ایوب خان کے ذہن میں یہ نئی امید پیدا ہوئی کہ شاید ان حالات میں بھارت عالمی دبائو میں آکر مسئلہ کشمیر کے حل پر رضامند ہو‘ لیکن عملی طور پر جو ہوا وہ صدر ایوب خان کی توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ جنگ کے خاتمے پر برطانیہ اور امریکہ نے بھارت کی فوجی طاقت کو مضبوط کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس سلسلے میں اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ہیرولڈ میکملن کا ایک خط بڑا اہم ہے، جو انہوں نے 13 دسمبر 1962 کو صدر کینیڈی کو لکھا۔ خط میں برطانوی وزیراعظم نے برصغیر میں پاکستان اور بھارت کیلئے ایک مشترکہ دفاع کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے لکھا کہ میرے لیے یہ بات واضح ہے کہ برصغیر میں اگر کسی قسم کا دفاع ممکن ہو سکتا ہے، تو وہ پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دفاع ہے۔ برصغیر کے مشترکہ دفاع سے پاکستان کی ناراضی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے، جو بھارت کی فوجی امداد کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے مزید لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے لیے کشمیرکا مسئلہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ میر ے خیال میں پاکستان کشمیر کا وہ حصہ اپنے پاس رکھے، جو اس وقت اس کے پاس ہے‘ بھارت جموں اور لداخ لے لے۔ اب مسئلہ باقی رہ جاتا ہے مقبوضہ وادیٔ کشمیر کا، جس میں استصواب رائے کے لیے بھارت کبھی راضی نہیں ہوگا‘ اس لیے اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں مقبوضہ وادیٔ کشمیر کی خود مختاری پر رضامند ہو جائیں، اور دونوں مل کر اس کی خودمختاری کی ضمانت فراہم کریں۔
برطانوی وزیراعظم کی تجویز پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے ناقابل قبول تھی۔ دونوں کا رد عمل شدید تھا۔ پاکستان نے امریکہ کو یاد دلایا کہ اس نے بھارت چین جنگ کے بعد بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے مذاکراتی میز پر لانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہاں سے حالات نے نیا رخ لیا۔ ان حالات کا جائزہ آئندہ سطور میں لیا جائے گا۔