ہمارے ہاں سیاست میں سکینڈے نیوین ممالک کا بہت تذکرہ ہوتا ہے۔ یہ ذکر کرنے والوں میں سیاستدان اور دانشور شامل ہیں۔ اس معاملے میں سابق وزیراعظم عمران خان نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران اور اس سے پہلے کی سیاسی سرگرمیوں‘ جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں ریاستِ مدینہ کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی کامیابیوں اور ان کے نظامِ انصاف کا بہت حوالہ دیا۔ سکینڈے نیویا کے ممالک میں سویڈن‘ ناروے‘ ڈنمارک اور فن لینڈ شامل ہیں۔ دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ ان ممالک نے قابلِ رشک ترقی کی ہے۔ دنیا میں جب بھی مختلف ممالک کی ترقی اور کامیابیوں کا ذکر آتا ہے تو اس میں ان ممالک کو ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ دنیا میں معیارِ زندگی کی بات ہو رہی ہو یا صحت اور تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضروریات کا ذکر ہو‘ نظامِ انصاف‘ معاشرتی و معاشی مساوات‘ کرپشن سے پاک شفاف معاشرے اور گڈ گورننس کے بارے میں جب بھی اعداد و شمار سامنے آتے ہیں تو یہ ممالک دنیا میں پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔ ان ممالک کی قابلِ رشک کامیابی کا تذکرہ صرف تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں ہی نہیں ہوتا بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ اور کامیاب ممالک میں بھی سیاستدان ان ممالک کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں‘ اور کئی ایک ان کی تقلید کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ ان ممالک میں امریکا سر فہرست ہے۔ امریکا میں شاید ہی کوئی الیکشن گزرا ہو یا کوئی سیاسی اور معاشی مسئلہ زیر بحث آیا ہو‘ جس میں سیاستدانوں نے سکینڈے نیویا کے ممالک سے سبق سیکھنے کی تلقین نہ کی ہو۔ گزشتہ انتخابات میں برنی سینڈرس نے ان ممالک کے معاشی و سماجی انصاف اور سیاسی نظام سے سبق سیکھنے کی بار بار تلقین کی تھی۔ ان ممالک کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ ایک بنیادی سوال سامنے آتا ہے‘ اور بار بار موضوع گفتگو بنتا ہے‘ سوال یہ ہے کہ کیا سکینڈے نیوین ممالک میں ''سوشلزم‘‘ کا کوئی وجود ہے‘ یا یہ ایک امریکی دانشور کے الفاظ میں ''بنیاد پرست ترقی پسندوں کے مارکسی تخیل کے اندر سراب میں لپٹا ہوا ایک خواب ہے‘‘۔
درحقیقت ڈنمارک اور دیگر سکینڈے نیوین ممالک کی معیشتیں سوشلسٹ نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ہیں۔ یہ ممالک دولت پیدا کرنے کے لیے آزاد مارکیٹ پر انحصار کرتے ہیں اور یہ وہ دولت ہے جو ان کے وسیع فلاحی نظام کو ممکن بناتی ہے۔ ڈنمارک کے سابق وزیراعظم اینڈرس فوگ راسموسن نے امریکی دورے کے دوران اسے مختصراً اس طرح بیان کیا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ امریکا میں کچھ لوگ سکینڈے نیوین ماڈل کو کسی نہ کسی طرح کے سوشلزم سے جوڑتے ہیں‘ لہٰذا میں ایک بات واضح کرنا چاہوں گا کہ ڈنمارک ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت سے بہت دور ہے۔ ڈنمارک ایک 'مارکیٹ اکانومی‘ یعنی منڈی کی معیشت ہے۔ دنیا کے معاشی اور سیاسی نظاموں پر ریسرچ کرنے والے بیشتر اداروں کا بھی یہی خیال ہے۔ ہیرٹیج فاؤنڈیشن کے 2021ء کے اقتصادی آزادی کے انڈیکس کے مطابق ڈنمارک اقتصادی طور پر دنیا کا دسواں آزاد ترین ملک ہے۔ اقتصادی آزادی کے اس انڈیکس میں امریکا 25ویں نمبر پرآتا ہے۔
ڈنمارک طویل عرصے سے آزاد منڈی کی معیشت اور سرمایہ دارانہ نظام پر انحصار کرتا رہا ہے۔ ڈنمارک میں قائم سنٹر فار پولیٹکل سٹڈیز کے مطابق‘ ڈنمارک 19ویں صدی کے آخر اور 20ویں صدی کے اوائل میں آزاد منڈی کے فلسفے پر قائم رہنے کے دوران ایک امیر ملک تھا۔ لیکن اس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں سوشلزم کو متعارف کرایا‘ لیکن یہاں 1980ء کی دہائی تک شدید معاشی بدحالی شروع ہو گئی؛ چنانچہ معاشی گیئرز کو تبدیل کرتے ہوئے آنے والی ڈنمارک کی حکومتوں نے کچھ اصلاحات متعارف کرائیں جیسے سماجی فوائد میں کمی‘ پنشن کی جزوی نجکاری‘ اور اجرت کمانے والے فنڈز کے ذریعے صنعت کو جزوی طور پر سماجی بنانے کی کوشش ترک کر دی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ‘ ڈنمارک نے اپنا وسیع البنیاد فلاحی نظام برقرار رکھا‘ جس کے لیے مالی وسائل متوسط طبقے سمیت تمام شہریوں پر بھاری ٹیکسوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے۔ سنٹر فار پولیٹکل سٹڈیز کے مطابق‘ کم آمدنی والے ڈنمارک کے شہری 56 فیصد‘ متوسط طبقے والے 57فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ‘ ہر چیز کی فروخت پر 25فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے علاوہ کافی‘ ڈرنکس اور چاکلیٹ جیسی چیزوں پر اضافی ٹیکس ہے۔
ڈنمارک کے لوگ ملک کی اجتماعی فلاح و بہبود کی قیمت کے طور پر زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 10فیصد امیر شہری اپنی انکم ٹیکس کا صرف 26 فیصد ادا کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس 10فیصد امیر امریکی انکم ٹیکس کا 45 فیصد ادا کرتے ہیں۔ امریکی انتخابی مہم کے دوران سینیٹر سینڈرس نے کہا تھا کہ ارب پتیوں کا وجود نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن اس وقت سویڈن میں 30‘ ڈنمارک میں دس ارب پتی تھے اور سکینڈے نیوین ارب پتی اپنی دولت بغیر ٹیکس کے اپنی آئندہ نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ سویڈن یا ناروے میں کوئی وراثتی ٹیکس نہیں ہے۔ ڈنمارک 15فیصد وراثتی ٹیکس عائد کرتا ہے۔
سکینڈے نیویا کے اس ماڈل جسے نورڈک ماڈل بھی کہا جاتا ہے‘ کا ایک لازمی عنصر مضبوط ورکز یونینز ہیں۔ تقریباً 30 فیصد آبادی سرکاری شعبے میں کام کرتی ہے۔ ناروے کے تجزیہ کار ایرک اینگھیم کے مطابق‘ سکینڈے نیوین ممالک میں ''سیکٹریل سودے بازی‘‘ ہوتی ہے جس کے تحت مخصوص کمپنیوں کے بجائے مخصوص ملازمتوں کے لیے یونینیں بنائی جاتی ہے۔ کام کی جگہ پر کئی مختلف یونینز ہو سکتی ہیں جو مختلف قسم کے کارکنوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سکینڈے نیویا میں کارکنوں کو اپنی پسند کی یونین چننے کا اختیار ہوتا ہے۔ یہاں کی یونینوں نے تعاون کرنا سیکھ لیا ہے‘ یہ تعاون انہیں کارکنوں کی اجرت پر سودے بازی کرنے اور ملازمت پر رکھنے کے عمل میں اختیارات دیتا ہے۔ اور اس طرح کے فیصلے ان کی مرضی اور مشاورت سے ہوتے ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی کے ڈینیئل شیٹز جیسے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نورڈک کی کامیابی کی جڑیں معاشی عوامل کے بجائے ثقافتی ہیں۔ یہ کم آبادی والے ملک ہیں۔ سویڈن‘ ناروے اور ڈنمارک کی مشترکہ آبادی تقریباً نیو یارک شہر کے برابر ہے۔ امریکی سوشلسٹ ڈنمارک کے وسیع فلاحی نظام کے اخراجات کے بجائے فوائد پر زور دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈنمارک کی مائیں اپنی تنخواہ کے 100فیصد پر 18 ہفتوں کی زچگی کی چھٹی کی حقدار ہوتی ہیں۔ ڈینش طلبہ بغیر قرض کے سرکاری خرچ پر کالج سے ڈگری لے کر فارغ ہوتے ہیں۔ ہر ایک شہری صحت کے قومی نظام کے تحت آتا ہے۔ اوسط ڈینش کارکن کے پاس پانچ سے چھ ہفتوں کی تنخواہ کی چھٹی ہوتی ہے۔ مارکسزم کے کلاسیکل تصور کے مطابق ان ممالک کو کسی طرح بھی سوشلسٹ نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا کے دیگر سرمایہ دار ممالک کی طرح ان ملکوں کا فلسفہ یہ ہے کہ آزاد سرمایہ داری اور آزاد منڈی کی معیشت کے ذریعے سرمایہ اور دولت جمع کی جائے‘ لیکن اس دولت کو فلاحی نظام پر مبنی ریاست بنانے اور چلانے پر خرچ کیا جائے۔ گویا یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں‘ جو سوشل ویلفیئر نظام پر یقین رکھتی ہیں۔ ذرائع پیداوار کو قومیانے یا نجی ملکیت پر پابندی کے بجائے یہ بھاری ٹیکسوں کے ذریعے دولت کی از سر نو تقسیم کے فلسفے پر یقین رکھتی ہیں۔ ایک کامیاب سوشل ویلفیئر نظام کی وجہ سے یہ سماج کے بہت سے ایسے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہیں‘ جو دیگر سرمایہ دار ریاستیں ابھی تک نہیں کر سکیں۔ یہ اپنے شہریوں کو رہائش‘ خوراک‘ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہی ہیں۔ ان ریاستوں سے یہ سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ رہائش‘ خوراک‘ تعلیم اور صحت کو بنیادی انسانی حقوق تسلیم کیا جانا چاہیے۔