ماحولیاتی تباہی ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا اظہار کئی برسوں سے پاکستان میں موسمی شدت کے مختلف مظاہر سے ہو رہا ہے۔ غریب اور بے وسیلہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان مظاہر کا شکار ہو چکی ہے۔ ماحولیاتی تباہی کا اظہار کبھی گرمی کی شدید لہر کی شکل میں ہوتا ہے۔ کبھی جنگلات میں آگ کی شکل میں نظر آتا ہے‘ جو لاکھوں درختوں اور جنگلی حیات کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ کبھی گلیشیرز پگھلنے اور مون سون کی بارشوں سے خوفناک سیلاب آتے ہیں‘ جن کی تباہ کاریوں کا آج کل لاکھوں لوگ شکار ہیں۔ ہمارے ہاں عام آدمی قدرت پر بھروسا کرتا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے قدرت کی مرضی سے ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں‘ جو سیلابوں‘ طوفانی بارشوں اور زلزلوں کو قدرت کی ناراضی اور غیظ و غضب کا اظہار قرار دیتے ہیں‘ ان کے خیال میں یہ انسانی گناہوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ عام آدمی کی حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے‘ لیکن کبھی کبھی اربابِ اختیار یا عوام کی رہنمائی کے دعوے دار بھی اس صف میں شامل نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں سندھ کے ایک بڑے سیاست دان اور اہم عہدے دار نے بھی یہ واضح اعلان کیا کہ سیلاب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے‘ اور عوام اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اگر قوم کے لیڈر‘ سرکاری اہل کار اور سرکاری محکمہ جات بھی اپنا کام کاج چھوڑ کر قدرت پر تکیہ کر کے بیٹھ جائیں تو پھر اس قوم یا ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سرکاری اہلکاروں‘ محکموں اور اداروں کا بھی ان معاملات پر طرزِ عمل کوئی بہت زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ یہ ایک مستقل طرزِ فکر اور مائنڈ سیٹ ہے۔ اس طرزِ عمل کی ایک جھلک پچھلی دفعہ طوفانی بارشوں کے دوران سامنے آئی تھی‘ جب کراچی شہر پانی میں ڈوب گیا تھا۔ اربابِ اختیار کو بھی تسلسل سے یہ کہتے سنا گیا کہ ہم کیا کریں‘ بارش اب کی بار ضرورت سے خاصی زیادہ ہو گئی۔ انہوں نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے دیا کہ یہ قدرت کی مرضی ہے‘ جس کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی ریاست یہ ذمہ داری لگائے کہ وہ عوام کو قدرتی آفات سے بچانے کا فریضہ سرانجام دیں‘ یا ماحولیاتی تباہی کے اثرات سے عوام کے جان و مال کی حفاظت کریں اور اُن کو ان فرائض کی انجام دہی کی باقاعدہ تنخواہ ملتی ہو‘ وہ اگر طوفانی بارش کو اللہ کاعذاب قرار دے کر اپنا دامن چھڑا لیں تو یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے۔ طوفانی بارش یا معمول سے زیادہ بارش ماحولیاتی تباہی کی کئی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
دنیا ایک سائنسی عمل سے بندھی ہوئی ہے۔ ہم آئے دن اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی سے درجہ حرارت بڑھتا ہے تو گلیشیرز پگلتے ہیں‘ معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ نتیجتاً دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب آتے ہیں۔ یہ ایک سیدھا سادہ سائنسی عمل ہے‘ جس کو سمجھنے اور اس کا سد باب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ طوفانی بارشیں‘ سیلاب اور دیگر آفات قدرت کا غیظ و غضب نہیں‘ بلکہ اس دھرتی کا رد عمل ہے جس کا ہم صدیوں سے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آپ اس دھرتی پر آبادی میں اس قدر اضافہ کر دیں گے کہ دھرتی یہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہ رہے۔ درخت کاٹ دیں گے۔ قدرتی چشموں اور دریائوں کے قدرتی راستے روک کر تعمیرات کر دیں گے۔ ماحولیاتی تباہی کی پروا کیے بغیر ایسی ملیں‘ فیکٹر یاں اور کارخانے لگا دیں گے‘ جو کسی ضابطے کی پروا کیے بغیر فضا میں آلودگی پھینکتے رہیں تو یہ دھرتی کے قدرتی عمل میں مداخلت ہے۔ انسان صدیوں سے شہر تعمیر کرتا آیا ہے اور اس نے صدیوں کے اس تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس میں ایک سبق یہ ہے کہ شہر ایک منصوبے کے تحت آباد کیے جانے چاہئیں۔ بستیاں باقاعدہ منصوبے کے تحت تعمیر ہوں۔ شہر میں جس کا جہاں جی چاہے عمارت بنا لے‘ دکان کھڑی کر لے‘ گھر تعمیر کر لے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان بستیوں کو انسانی بستیوں کی شکل میں برقرار رکھنا اور چلانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی تعمیر اور تباہی سے دیگر اسباق کے علاوہ یہ دو اسباق بھی سیکھنے چاہئیں کہ شہر کیسے بنائے جاتے ہیں اور شہر کیسے تباہ ہوتے ہیں۔
بارشوں‘ سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کا صرف ہمیں ہی سامنا نہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو‘ جسے سیلاب‘ طوفانی بارشوں‘ سمندری طوفانوں وغیرہ کا سامنا نہ ہو۔ دنیا کے بیشتر قدیم اور تاریخی شہر سمندروں‘ دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے ہی آباد ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر شہروں کو بارشوں‘ سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچانے کا با قاعدہ نظام موجود ہے۔ اس سلسلے میں ہر ملک کا کوئی نہ کوئی تلخ تجربہ ہے‘ جس سے انہوں نے سیکھا۔ جاپان زلزلوں کا ملک ہے۔ اس نے زلزلوں کے ہاتھوں بہت تباہی دیکھی۔ اس سے سبق سیکھا۔ اور زلزلہ پروف طرزِ تعمیر اختیار کیا۔ جاپان زلزلوں کو روک نہیں سکتا‘ مگر اس نے زلزلوں سے کوئی جانی اور مالی نقصان اٹھائے بغیر جینا سیکھ لیا۔ جن طوفانی بارشوں کو ہم قدرت کا غضب یا زحمت سمجھتے ہیں‘ دوسرے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہم اسے اپنے لیے رحمت بنا سکتے ہیں۔ اس کی ایک اور مثال جنوبی کوریا کا شہر سیول ہے۔ سیول چھ سو سال پرانا شہر ہے‘ جس میں بارہ ملین سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں پر تیز بارشوں کی وجہ سے سیلاب اور پانی کا مسئلہ رہتا تھا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے شہر میں تمام بڑی عمارتوں میں ''واٹر ہارویسٹنگ سسٹم‘‘ لازم قرار دیا گیا ہے‘ جس کے تحت ہر عمارت میں پانی کے ذخیرے کے لیے ٹینک بنائے جاتے ہیں۔ ان ٹینکوں سے پانی کی نکاسی کا انتظام ہے‘ جو شہر کے سیورج سسٹم سے منسلک ہے۔ پورا نظام انٹرنیٹ سے جڑا ہے۔ موسمی پیش گوئی کے مطابق پیشگی ٹینک خالی کر دیے جاتے ہیں۔ یہ سارا نظام جدید ایئریل سسٹم پر چلتا ہے۔
پاکستان میں ستر سال سے بارش کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے۔ کبھی زیادہ بارش کی وجہ سے عوام پانی میں ڈوب رہے ہوتے ہیں‘ اور کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کا شکار ہو کرپانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ لوگ کبھی بارش سے بچاؤ کی دعائیں مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں‘ اور کبھی بارش کے لیے اجتماعی طور پر گڑگڑا رہے ہوتے ہیں۔ گویا اس باب میں ہمارے خیالات اور حرکات و سکنات ہزاروں سال پرانی ہیں۔ جب تک ہم بارش سے ایک فصل جیسا سلوک نہیں کریں گے۔ اور بارش کو فصل سمجھ کر اس کی ہارویسٹنگ نہیں کریں گے‘ اس وقت تک ہم یوں ہی بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے رہیں گے۔ واٹر ہارویسٹنگ جیسی تجاویز پر حسبِ معمول وسائل کی کمی کا رونا رویا جائے گا‘ تو عرض یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں۔ سرکار صرف یہ قانون سازی کر دے کہ شہر کی ہر چھوٹی بڑی عمارت میں بارش کے پانی کے ذخیرے کے لیے ٹینک بنانا عمارت کے مالک پر لازم ہے۔ اور آئندہ ملک میں کوئی گھر‘ کوئی عمارت ''رین واٹر سٹوریج ٹینک‘‘ کے بغیر بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ قانون سازی کرنے اور اس پر سختی سے عمل کرنے سے طوفانی بارش کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کو اگر بالکل ختم نہیں تو بہت کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر ایسے طویل مد تی اقدامات کی ضرورت ہے‘ جو ماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیے ضروری ہیں۔